صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
50. بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ:
باب: بنی اسرائیل کے واقعات کا بیان۔
حدیث نمبر: 3450
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، قَالَ: قَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَمْرٍو لِحُذَيْفَةَ أَلَا تُحَدِّثُنَا مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ" إِنَّ مَعَ الدَّجَّالِ إِذَا خَرَجَ مَاءً وَنَارًا فَأَمَّا الَّذِي يَرَى النَّاسُ أَنَّهَا النَّارُ فَمَاءٌ بَارِدٌ وَأَمَّا الَّذِي يَرَى النَّاسُ أَنَّهُ مَاءٌ بَارِدٌ فَنَارٌ تُحْرِقُ فَمَنْ أَدْرَكَ مِنْكُمْ فَلْيَقَعْ فِي الَّذِي يَرَى أَنَّهَا نَارٌ فَإِنَّهُ عَذْبٌ بَارِدٌ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک نے بیان کیا، ان سے ربعی بن حراش نے بیان کیا کہ عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا، کیا آپ وہ حدیث ہم سے نہیں بیان کریں گے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟ انہوں نے کہا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا تھا کہ جب دجال نکلے گا تو اس کے ساتھ آگ اور پانی دونوں ہوں گے لیکن لوگوں کو جو آگ دکھائی دے گی وہ ٹھنڈا پانی ہو گا اور لوگوں کو جو ٹھنڈا پانی دکھائی دے گا تو وہ جلانے والی آگ ہو گی۔ اس لیے تم میں سے جو کوئی اس کے زمانے میں ہو تو اسے اس میں گرنا چاہئے جو آگ ہو گی کیونکہ وہی انتہائی شیریں اور ٹھنڈا پانی ہو گا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3450 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3450
باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ}:»
باب اور حدیث میں مناسبت
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت مشکل بلکہ انتہائی مشکل دکھلائی دیتی ہے، بلکہ کئی شارحین نے سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ والی مندرجہ بالا حدیث پر کسی قسم کی کوئی تطبیق کا ذکر نہیں فرمایا،
یہاں تک کہ علامہ عینی نے صاف طور پر کہہ دیا:
«هذا الحديث مشتمل على ثلاثة احاديث: الاول حديث الدجال . والثاني و الثالث: فى رجلين كل واحد فى رجل، والمطابقة للترجمة فى الثاني والثالث .» [عمده القاري 65/16]
”یہ حدیث تین احادیث پر مشتمل ہے، پہلی حدیث دجال کے بارے میں، دوسری اور تیسری دو آدمیوں کے بارے میں کہ ہر ایک میں ایک آدمی ہے، (جن کا تعلق بنی اسرائیل کے ساتھ تھا)، لہٰذا مطابقت ترجمۃ الباب سے دوسری اور تیسری حدیث سے ہے، (یعنی پہلی حدیث سے مطابقت نہیں ہے)۔“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں فرمایا:
«الحديث ياتي الكلام عليه مستوفي فى كتاب الفتن، والغرض منه هنا ايراد ما يليه و هو قصة الرجل الذى كايبايع الناس وقصة الرجل الذى اوصي بنيه ان يحرقوه .» [فتح الباري 413/7]
حافظ صاحب کی اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دجال والی حدیث دیگر دو احادیث سے تعلق رکھتی ہیں، کیونکہ بقیہ دونوں کے راوی سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ہی ہیں، لیکن مناسبت کے لئے میرے خیال سے یہ کافی نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے دجال کی حدیث کے بعد دو احادیث حذیفہ بن یمان سے نقل فرمائی ہیں اور صحیح بخاری میں مختلف جگہوں پر مختلف اسناد سے ان تینوں احادیث کو نقل فرمایا ہے۔
دجال کی حدیث 7130 میں۔۔۔۔۔
دوسری حدیث کو 2077 میں۔۔۔۔
تیسری حدیث کو 9480 میں۔۔۔۔۔
ذکر کیا ہے۔
علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
تحت الباب تین احادیث کا ذکر فرمایا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ پہلی حدیث دجال کے بارے میں،
دوسری حدیث خریدوفروخت کے بارے میں،
تیسری حدیث نباش (کفن چور) کے بارے میں نقل کرتے ہیں،
مزید لکھتے ہیں کہ:
«والمطابقة للترجمة فى الثاني و الثالث.» [لب اللباب 69/3]
”ترجمۃ الباب سے مطابقت، دوسری اور تیسری حدیث میں ہے، (کیونکہ ان حدیثوں میں بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر ہے۔“
لیکن پہلی حدیث جس میں دجال کا ذکر ہے، اس میں کون سی مطابقت ہو گی اور اتفاق ہے کہ کئی شارحین نے اس حدیث کی مطابقت پر گفتگو نہیں فرمائی۔۔۔۔۔
یہ حقیر بندہ کہتا ہے کہ دجال کی حدیث سے ترجمۃ الباب کو مناسبت بہت گہرے انداز میں موجود ہے، وہ اس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ما من نبي الا وقد انذر امته الاعور الكذاب الا انه اعور وان ربكم ليس باعور مكتوب بين عينيه ك- ف. ر.» [صحيح مسلم باب الرجال 4933]
”کوئی نبی ایسا نہیں گزرا مگر اس نے اپنی امت کو دجال کے بارے میں ڈرایا تھا اور تمہارا رب کانا نہیں، وہ اس (دجال) کی دونوں آنکھوں کے درمیان ک، ف، ر، لکھا ہوا ہے۔“
صحیح مسلم کی اس حدیث پر غور فرمائیں، جسے خود امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی (کتاب الفتن رقم الحدیث 7131) میں ذکر فرمایا ہے، مذکورہ حدیث میں تمام نبیوں کا ذکر ہے کہ انہوں نے اپنی امت کو دجال کے فتنے سے آگاہی فراہم کی، لہٰذا موسیٰ علیہ السلام بھی ایک صاحب شریعت نبی تھے اور کیوں کر آپ نے بھی اپنی امت کو اس کے فتنے نہ ڈرایا ہو گا؟ لہٰذا حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کی امت بنی اسرائیل ہے تو جب بنی اسرائیل ثابت ہوئے تو اس موقع پر بالاولیٰ موسیٰ علیہ السلام کا بھی ہونا ثابت ہوا اور ان کا دجال سے اپنی امت کو ڈرانا بھی ثابت ہوا، لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا اشارہ ملتا ہے۔
(الحمد للہ یہ توفیق صرف اللہ کی طرف سے ہے۔)
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 31
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3450
حدیث حاشیہ:
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث تین احادیث پر مشتمل ہے۔
یہ پہلی حدیث دجال سے متعلق ہے باقی دواحادیث میں بنی اسرائیل کے دو آدمیوں کے حالات بیان ہوں گے۔
اس حدیث کے مطابق دجال اکبر کو اللہ تعالیٰ کچھ خرق عادت اشیاء دے گا۔
اس قسم کی شعبدہ بازی سے بندوں کا امتحان لیا جائے گا۔
بالآخر اس ملعون کی عاجزی اور درماندگی کو اللہ تعالیٰ نمایاں کر دے گا۔
اسے برسرعام ذلیل وخوار کرے گا اور حضرت عیسیٰ ؑ اسے قتل کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3450
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7130
7130. سیدنا حذیفہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے دجال کے متعلق فرمایا: ”یقیناً اس کے ساتھ پانی اور آگ ہوگی۔ اس کے آگ ٹھنڈا پانی ہوگا اور اس کا پانی آگ ہوگی۔“ سیدنا ابو مسعود ؓ نے فرمایا: میں نے بھی یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے- [صحيح بخاري، حديث نمبر:7130]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں یوں ہے تم میں سے جو کوئی اس کا زمانہ پائے تو اس کی آگ میں چلا جائے۔
وہ نہایت شیریں، ٹھنڈا عمدہ پانی ہوگی۔
مطلب یہ ہے کہ دجال ایک شعبدہ باز اور ساحر ہوگا۔
پانی کو آگ، آگ کو پانی کر کے لوگوں کو بتلائے گا یا اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل کرنے کے لیے الٹا کر دے گا، جن لوگوں کو وہ پانی دے گا ان کے لیے وہ پانی آگ ہو جائے گا اور جن مسلمانوں کو وہ مخالف سمجھ کر آگ میں ڈالے گا ان کے حق میں آگ پانی ہو جائے گی۔
جن لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ آگ اور پانی دونوں مختلف حقیقیتیں ہیں۔
ان میں انقلاب کیسے ہوگا در حقیقت وہ پرلے سرے کے بیوقوف ہیں یہ انقلاب تو رات دن دنیا میں ہو رہا ہے۔
عناصر کا کون و فساد برابر جاری ہے۔
بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی دجال کا کہنا مانے گا وہ اس کو ٹھنڈا پانی دے گا تو درحقیقت یہ ٹھنڈا پانی آگ ہے یعنی قیادت میں وہ دوزخی ہوگا اور جس کو وہ مخالف سمجھ کر آگ میں ڈالے گا اس کے حق میں یہ آگ ٹھنڈا پانی ہوگی یعنی قیامت کے دن وہ بہشتی ہوگا۔
اس کو بہشت کا ٹھنڈا پانی ملے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7130
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7130
7130. سیدنا حذیفہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے دجال کے متعلق فرمایا: ”یقیناً اس کے ساتھ پانی اور آگ ہوگی۔ اس کے آگ ٹھنڈا پانی ہوگا اور اس کا پانی آگ ہوگی۔“ سیدنا ابو مسعود ؓ نے فرمایا: میں نے بھی یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے- [صحيح بخاري، حديث نمبر:7130]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں خوب جانتا ہوں کہ دجال کے ساتھ کیا ہو گا؟ اس کے ساتھ وہ بہتی ہوئی نہریں ہوں گی۔
ایک تو دیکھنے میں سفید پانی معلوم ہوگی۔
اور دوسری بھڑکتی ہوئی آگ نظر آئے گی پھر جو کوئی موقع پائے وہ اس نہر میں چلا جائےجسے وہ آگ دیکھے گا۔
وہ اپنی آنکھ بند کرے اور سر جھکا کر اس سے پیے، وہ ٹھنڈا پانی ہو گا۔
“ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7367(2934)
مطلب یہ ہے کہ دجال ایک شعبدہ باز جادو گر ہو گا کہ پانی کو آگ اور آگ کو پانی کر کے لوگوں کو گمراہ کرے گا۔
2۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرنے کے لیے اس کی شعبدہ بازی کو الٹا کر دے جن لوگوں کو وہ پانی دے گا۔
وہ ان کے لیے آگ بن جائے گی اور جن مسلمانوں کو مخالف خیال کر کے آگ میں ڈالے گا ان کے حق میں وہ آگ پانی بن جائے گی۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7130