سلسله احاديث صحيحه
المناقب والمثالب
فضائل و مناقب اور معائب و نقائص
بحیثیت شاعر سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کی فضیلت
حدیث نمبر: 3424
-" إن روح القدس لا يزال يويدك ما نافحت عن الله ورسوله".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریش کی مذمت کرو، یہ چیز ان پر تیروں کی بوچھاڑ سے بھی گراں گزرتی ہے۔“ پھر آپ نے سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا: ”ان کی ہجو کرو۔“ اس نے ان کے معائب و نقائص تو بیان کئے لیکن آپ خوش نہ ہوئے۔ پھر آپ نے سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی طرف اور ان کے بعد سیدنا حسان بن ثابت کی طرف پیغام بھیجا۔ حسان نے آ کر کہا: اب تمہیں چاہیئے کہ اس معاملے کو اس شیر کے سپرد کر دو جو حملے کے لیے کمربستہ ہے، پھر انہوں نے اپنی زبان باہر نکالی، اسے حرکت دی اور کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! میں اپنی زبان کے ذریعے ان کو چمڑے کی طرح چاک کر دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جلدی نہ کرو، قریش کے نسب کو سب سے زیادہ جاننے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ چونکہ میرا نسب بھی ان سے ملتا ہے، اس لیے وہ پہلے تجھ پر میرے نسب کی وضاحت کریں گے۔“ سیدنا حسان، سیدنا ابوبکر کے پاس گئے اور واپس آ کر کہا: اے اللہ کے رسول! انہوں نے میرے لیے آپ کے نسب کی وضاحت کر دی ہے، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں آپ کے نسب کو (ہجو سے) یوں باہر نکال دوں گا جس طرح آٹے سے بال کو کھینچ لیا جاتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسان کے حق میں فرماتے سنا: ”روح قدس ( جبریل امین) تیری تائید کرتا رہے گا، جب تک تم اللہ اور اس کے رسول کا دفاع کرتے رہو گے۔“ وہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”حسان نے ان کی مذمت کر کے دل کو مطمئن کر دیا اور دشمن کو زیر کر دیا۔“ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مذمت کی . . . میں نے ان کی طرف سے جواب دیا . . . اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس عمل میں اجر و ثواب ہے . . . تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مذمت کی . . . حالانکہ وہ نیک اور یکسو ہیں . . . وہ اللہ کے رسول ہیں، ان کی کی عادت وفا ہے . . . بیشک میرا باپ اور اس کا والد اور میری عزت . . .تم سے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عزت کا دفاع کرنے والے ہیں . . . میں نے اپنے پیاروں کو گم پایا . . . اگرچہ تم ان (لشکروں) کو نہیں دیکھ رہے. . . وہ کدا میں گرد و غبار اڑاتے ہوئے آ رہے ہیں. . . انہوں نے لگامیں تھامی ہوئی ہیں اور وہ چڑھے آ رہے ہیں. . . ان کے کندھوں پر پیاسے تیر سجے ہوئے ہیں . . . ہمارے لشکر رواں دواں ہیں. . . یہ عورتیں اپنے دوپٹوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں گی. . . اگر تم راستے سے ہٹ جاؤ تو ہم عمرہ کر لیں گے. . . اور اس طرح فتح ہو جائے گی اور پردہ چاک ہو جائے گا . . . وگرنہ اس دن کی مار پر صبر کرو . . . جس دن اللہ تعالیٰ اپنی مرضی کے مطابق عزتیں دے گا. . . اللہ نے کہا: میں نے ایک بندے کو بطور رسول بھیج دیا ہے . . . وہ حق کہتا ہے، اس میں کوئی خفا نہیں ہے. . . اور اللہ نے کہا کہ میں لشکر چلا لایا ہوں. . . وہ انصار ہیں، میں نے ان کو لڑنے کے لیے پیش کر دیا ہے. . . وہ ہر روز معد قبیلہ سے وصول کرتے ہیں. . . گالیاں، لڑیاں اور مزمتیں . . . اگر تم میں سے کوئی رسول اللہ کی مذمت کرے. . . یا مدح کرے یا نصرت کرے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا. . . اور ہم میں جبریل اللہ تعالیٰ کا قاصد ہے . . . وہ روح القدس ہے، اس کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں۔