سلسله احاديث صحيحه
المناقب والمثالب
فضائل و مناقب اور معائب و نقائص
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کا لقب کیسے ملا؟
حدیث نمبر: 3249
-" لما أسري بالنبي صلى الله عليه وسلم إلى المسجد الأقصى أصبح يتحدث الناس بذلك فارتد ناس ممن كانوا آمنوا به وصدقوه وسعوا بذلك إلى أبي بكر رضي الله عنه فقالوا: هل لك إلى صاحبك يزعم أنه أسري به الليلة إلى بيت المقدس؟ قال: أو قال ذلك؟ قالوا: نعم، قال: لئن كان قال ذلك لقد صدق، قالوا: أو تصدقه أنه ذهب الليلة إلى بيت المقدس وجاء قبل أن يصبح؟ قال: نعم إني لأصدقه فيما هو أبعد من ذلك، أصدقه بخبر السماء في غدوة أو روحة. فلذلك سمي أبو بكر الصديق".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد اقصی تک سیر کرائی گئی اور صبح کے وقت لوگوں نے اس موضوع پر بات چیت شروع کی تو کچھ لوگ، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے اور آپ کی تصدیق کر چکے تھے، مرتد ہو گئے، وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: یہ آپ کا ساتھی اس قسم کا دعویٰ کر رہا ہے کہ اسے آج رات بیت المقدس تک سیر کرائی گئی، اب آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعویٰ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بات کی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا: کیا تم تصدیق کرو گے کہ آپ راتوں رات بیت المقدس گئے اور صبح سے پہلے پہلے واپس بھی آ گئے ہیں؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، (غور کرو کہ) میں تو ان امور میں بھی آپ کی تصدیق کرتا ہوں جو (تمہاری سمجھ کے مطابق) اس (وقوعہ) سے بھی مشکل اور بعید ہیں۔ میں تو صبح کے وقت آسمانی خبر یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کی تصدیق کرتا ہوں، وہ صبح کو موصول ہو یا شام کو۔ اسی وجہ سے ابوبکر کو ”صدیق“ کہا گیا۔