Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
40. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَوَهَبْنَا لِدَاوُدَ سُلَيْمَانَ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ} :
باب: اللہ تعالیٰ کے اس قول کا بیان ”اور ہم نے داؤد کو سلیمان (بیٹا) عطا فرمایا، وہ بہت اچھا بندہ تھا، بیشک وہ بہت رجوع کرنے والا تھا“۔
حدیث نمبر: 3425
حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ أَوَّلَ، قَالَ:" الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ، قَالَ: ثُمَّ الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى، قُلْتُ: كَمْ كَانَ بَيْنَهُمَا، قَالَ: أَرْبَعُونَ ثُمَّ، قَالَ: حَيْثُمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فَصَلِّ وَالْأَرْضُ لَكَ مَسْجِدٌ".
مجھ سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم تیمی نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی تھی؟ فرمایا کہ مسجد الحرام! میں نے سوال کیا، اس کے بعد کون سی؟ فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ۔ میں نے سوال کیا اور ان دونوں کی تعمیر کا درمیانی فاصلہ کتنا تھا؟ فرمایا کہ چالیس سال۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس جگہ بھی نماز کا وقت ہو جائے فوراً نماز پڑھ لو۔ تمہارے لیے تمام روئے زمین مسجد ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3425 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3425  
حدیث حاشیہ:
اس کی باب سےمناسبت یہ ہےکہ اس میں مسجد اقصیٰ کا ذکرہے جس کی بناء اول بہت قدیم ہےمگر بعد میں حضرت سلیمان نےاسے بنایا۔
کعبہ شریف کی بھی بناء اول بہت قدیم ہےمگر حضرت ابراہیم نے اس کی تجدید فرمائی۔
ہر دوعمارتوں کی پہلی بنیادوں میں چالیس سال کافاصلہ ہے۔
اس طرح منکرین حدیث کا اعتراض سادر ہو گیا جو وہ اس حدیث پروارد کرتےہیں۔
امت میں گمراہ فرقے بہت سے پیدا ہوئے ہیں مگر منکرین حدیث نے ان تمام گمراہ فرقوں سے آگے قدم بڑھاکر بیناد اسلام کوڈھانے کی کوشش کی ہے۔
﴿قَاتَلَھُمُ اللہُ أنیٰ یُوفَکُونَ﴾
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3425   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3425  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں مسجد اقصیٰ کا ذکر ہے جس کی بنائے اول بہت قدیم ہے۔
حضرت سلیمان ؑ نے اس کی تجدید فرمائی، اس طرح مسجد حرام کی بھی بنائے اول بہت قدیم ہے مگر حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے لخت جگر حضرت اسماعیل ؑ نے اس کی تجدید فرمائی۔
دونوں عمارتوں کی پہلی بنیادوں میں چالیس سال کافاصلہ ہے۔
ممکن ہے کہ کعبہ مکرمہ کو سب سے پہلے حضرت آدم ؑ نے تعمیر کیا ہو مگر جب ان کی اولاد ارض مقدس تک پھیل گئی تو چالیس سال بعد مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھ دی گئی ہو۔

مسجد اقصیٰ کا نام اس لیے رکھا گیا کہ یہ بیت اللہ سے کافی فاصلے پر ہے یا اس لیے کہ یہ مبارکہ خطہ خباثت اور ارتداد سے پاک ہے۔
ایک روایت میں چالیس عدد کےبعد "سال" کی صراحت بھی ہے۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3366)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3425   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 691  
´سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟`
ابراہیم تیمی کہتے ہیں کہ گلی میں راستہ چلتے ہوئے میں اپنے والد (یزید بن شریک) کو قرآن سنا رہا تھا، جب میں نے آیت سجدہ پڑھی تو انہوں نے سجدہ کیا، میں نے کہا: ابا محترم! کیا آپ راستے میں سجدہ کرتے ہیں؟ کہا: میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد الحرام، میں نے عرض کیا: پھر کون سی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد الاقصیٰ ۱؎ میں نے پوچھا: ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس سال کا، اور پوری روئے زمین تمہارے لیے سجدہ گاہ ہے، تو تم جہاں کہیں نماز کا وقت پا جاؤ نماز پڑھ لو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 691]
691 ۔ اردو حاشیہ:
➊ زمین پاک ہو تو کسی بھی جگہ سجدہ کیا جا سکتا ہے اور نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ گلی ہو یا بازار، گھر ہو یا مسجد۔ پلید جگہ پر نماز اور سجدہ جائز نہیں، چاہے وہ مسجد ہی میں کیوں نہ ہو۔
➋ مشہور یہ ہے کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے بنایا اور بیت المقدس حضرت سلیمان علیہ السلام نے بنایا۔ ان دونوں انبیاء علیہم السلام کے درمیان ایک ہزار سال سے زائد فاصلہ ہے۔ اس حدیث کی رو سے چالیس سال کا فاصلہ ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ اس حدیث میں آدم علیہ السلام کی بنا کا ذکر ہے۔ انہوں نے پہلے بیت اللہ بنایا، پھر چالیس سا ل بعد بیت المقدس بنایا۔ اور قرآن میں جو تعمیر کعبہ اور اس کی بنیادیں اٹھانے کی نسبت ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کی طرف ہے تو اس سے سابقہ منہدم عمارت کی بنیادیں ازسرنو اٹھانا اور اس کی تعمیر کرنا مراد ہے، البتہ اہل کتاب کے نزدیک بیت المقدس حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنایا۔ اگر یہ قول صحیح ہو تو پھر کوئی اشکال نہیں رہتا کیونکہ یعقوب علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں پیدا ہوچکے تھے۔
ساری زمین مسجد ہے احادیث میں کچھ مقامات مستثنیٰ ہیں، ان کے علاوہ باقی ہر پاک جگہ پر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ علامہ اقبال نے کیا عجیب نکتہ نکالا ہے کہ ساری زمین مسجد ہے اور مسجد پر کافروں کا قبضہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا ساری زمین آزاد کراؤ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 691   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث753  
´سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟`
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد الحرام، میں نے پوچھا: پھر کون سی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر مسجد الاقصیٰ، میں نے پوچھا: ان دونوں کی مدت تعمیر میں کتنا فاصلہ تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس سال کا، پھر ساری زمین تمہارے لیے نماز کی جگہ ہے، جہاں پر نماز کا وقت ہو جائے وہیں ادا کر لو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 753]
اردو حاشہ:
(1)
اس تعمیر سے مراد ان مسجدوں کی اوّلین تعمیر ہے جو آدم علیہ السلام کے ہاتھوں انجام پائی۔
جب حضرت ابراہیم واسماعیل علیہ السلام نے کعبہ شریف کی تعمیر کی اس وقت سابقہ تعمیر کے نشان مٹ چکے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں بیت المقدس کی تعمیر بھی اس کی پہلی تعمیر نہیں تھی۔

(2)
اس سے ان دو مسجدوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
روئے زمین پر ان دو کے علاوہ صرف مسجد نبوی ہی ایک ایسی مسجد ہے جس کی زیارت کے لیے باقاعدہ اہتمام کے ساتھ سفر کرنا جائز ہے۔
ارشاد نبوی ہے:
کجاوے کس کے (بغرض تقرب)
سفر نہ کیا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف، مسجد حرام، میری مسجد (مسجد نبوی)
اور مسجد اقصی۔ (صحيح البخاري، جزاء الصيد، باب حج النساء، حديث: 1864)

(3)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ محض زیارت (تقرب)
کی نیت سے کسی اور مسجد کی طرف سفر کرکے جانا بھی جائز نہیں تو مزاروں وغیرہ کی زیارت کی نیت سے سفر بالاولی منع ہوگا۔ 4۔
قبروں کی زیارت شرعاً جائز ہے لیکن اس کا مقصد آخرت کی یاد اور موت سے عبرت حاصل کرنا ہے۔
یہ مقصد اپنی بستی  کے قبرستان کی زیارت سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔
خوبصورت گنبدوں، دیدہ زیب عمارتوں، میلوں ٹھیلوں اور نام نہاد عرسوں سے یہ مقصد فوت ہوجاتا ہے۔
بالخصوص آج کل کے معروف مزاروں کے عرسوں میں تو چہل پہل کے علاوہ مرد وزن کے اختلاط سے مزید بے شمار مفاسد جنم لے رہے ہیں۔
لہٰذا ان میں شرکت سے پرہیز ضروری ہے۔

(5)
ساری زمین کے مسجد ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ دنیا کی تمام مساجد اجروثواب کے لحاظ سے برابر ہیں۔
نماز کے وقت جو مسجد قریب ہو وہاں نماز پڑھ لی جائےاور اگر مسجد قریب نہ ہوتو بھی مذکورہ بالا احادیث میں ذکر کردہ ممنوع مقامات کو چھوڑ کر کسی بھی پاک جگہ نماز پڑھ لی جاسکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 753   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:134  
134- ابراہیم تیمی بیان کرتے ہیں: میں اپنے والد کے ساتھ جارہا تھا، انہوں نے سجدے سے متعلق آیت تلاوت کی اور سجدہ کیا، پھر انہوں نے فرمایا: میں نے سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! روئے زمین پر کون سی مسجد پہلے بنائی گئی تھی؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد حرام۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سی؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ میں نے دریافت کیا: ان دونوں کے درمیان کتنا فرق ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس سال کا۔ میں عرض کی: پھر کون سی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:134]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجد حرام سب سے پہلی مسجد ہے، اور دوسرے نمبر پر مسجد اقصٰی بنائی گئی، اور دونوں کے درمیان 40 سال کا وقفہ ہے۔ تمام زمین کو مسجد بنا دیا گیا ہے، یہ صرف امت مسلمہ کا خاصہ ہے، پہلے کسی امت کو یہ اعزاز نہیں دیا گیا۔ نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا چاہیے، غفلت اور سستی دنیاوی امور میں ہو، لیکن افسوس کہ دینی امور میں سستی اور دنیاوی امور میں چستی مسلمانوں نے اپنا شعار بنالیا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 134   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1162  
حضرت ابراھیم بن یزید تیمی رحمۃ اللّہ علیہ سے روایت ہے کہ میں سدہ میں (مسجد کے باہر سائبان) اپنے باپ کو قرآن مجید سنایا کرتا تھا۔ تو جب میں سجدہ والی آیت سناتا تو وہ سجدہ کر لیتے تو میں نے ان سے پوچھا: اے ابا جان! کیا آپ راستے میں ہی سجدہ کر لیتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، روئے زمین پر سب سے پہلے کونسی مسجد بنائی گئی؟ آپﷺ نے فرمایا: مسجد حرام میں نے عرض کیا پھر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1162]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
کعبہ اور مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)
کی تعمیر کا درمیانی عرصہ:
کعبہ اور بیت المقدس کی تعبیر کے بارے میں مشہور بات یہ ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی اور بیت المقدس حضرت سلیمان علیہ السلام نے بنوایا اور ان کے درمیان ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ بنتا ہے جبکہ حدیث میں فاصلہ چالیس سال بیان کیا گیا ہے اصل بات یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے ان مسجدوں کی تاسیس (بنیاد رکھنا)
نہیں کی بلکہ تجدید (نئے سرے سے بنانا)
کی ہے اصل تعمیر تخلیق آدم سے پہلے فرشتوں نے کی ہے اور اس تعمیر و تشکیل کا درمیانی عرصہ چالیس ہے یا مراد آدم علیہ السلام کی تعمیر ہے دونوں مسجدوں کی بنیاد آدم علیہ السلام نے رکھی اور درمیانی فاصلہ چالیس سال تھا اور اگر ابراہیمی تعمیر مراد لینا ہو تو ظاہر ہے جس طرح ایک بیٹے اسماعیل اور ان کی اولاد کے لیے ایک عبادت گاہ بنائی گئی ہے تو دوسرے بیٹے اسحاق کی اولاد کے لیے بھی ایک عبادت گاہ تعمیر کی ہو گی اس لیے بیت المقدس کی تعمیر سے یہاں مراد حضرت یعقوب ابن اسحاق علیہ السلام والی تعمیر ہے اور دونوں کی تعمیر میں چالیس سال کا فاصلہ ہے۔
(2)
جس جگہ نماز کا وقت ہو جائے وہیں نماز پڑھ لو سے غرض یہ ہے کہ جس جگہ شریعت نے نماز پڑھنے سے روکا نہیں ہے وہاں نماز پڑھ لو۔
کیونکہ نماز کے لیے لباس اور بدن کی پاکیزگی اور طہارت کی طرح جگہ کا پاک صاف ہونا بھی ضروری ہے شریعت نے قبرستان،
حمام،
مذبح (ذبح کرنے کی جگہ)
،
شارع عام اور نجاست گاہ میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1162   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3366  
3366. حضرت ابو ذر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ نے فرمایا: مسجد حرام۔ میں نے عرض کیا: پھر کونسی؟ آپ نے فرمایا: مسجداقصیٰ۔ میں نے دریافت کیا: ان دونوں میں کتنی مدت کا فاصلہ تھا؟ آپ نے فرمایا: چالیس سال کا، مگر جہاں بھی تمھیں نماز کا وقت آجائے وہیں نماز پڑھ لو کیونکہ فضیلت اسی میں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3366]
حدیث حاشیہ:
منکرین حدیث نے اس روایت کو بھی تختہ مشق بناکر حدیث نبوی سے مسلمانوں کو بدظن کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے اور یہ شبہ یہاں ظاہر کیا ہے کہ کعبہ کو تو حضرت ابراہیم ؑ نے بنایا تھا اور مسجد اقصیٰ کو حضرت سلیمان ؑ نے بنایا اور ان دونوں میں ہزار سال سے بھی زیادہ کا فاصلہ ہے۔
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے کعبہ کو پہلے پہل نہیں بنایا تھا بلکہ کعبہ کی پہلی بنا حضرت آدم ؑ کے ہاتھوں ہوئی ہے تو ممکن ہے کعبہ بننے کے چالیس سال بعد خود حضرت آدم ؑ یا ان کی اولاد میں سے کسی نے مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی ہو۔
حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کی ہردو بناؤں سے ان مقامات مقدسہ کی تجدید مراد ہے۔
شارحین حدیث لکھتے ہیں۔
ویرفع الإشکال بأن یقال الآیة والحدیث لایدلان علی بناء إبراهیم و سلیمان لما بنیا ابتداء وضعهما لهما بل ذالك تجدید لما کان أسسه غیرهما و بدأہ و قدروي أن أول من بنا البیت آدم و علی هذا فیجوز أن یکون غیرہ من ولدہ وضع بیت المقدس من بعدہ أربعین انتهی قلت بل آدم هو الذي وضعه أیضا قال الحافظ ابن حجر في کتابه التیجان لأبن هشام أن آدم لما بنی الکعبة أمرہ اللہ تعالیٰ السیر إلی بیت المقدس وأن یبنیه فبناہ و نسك فیه۔
(سنن نسائی، جلد:
اول، ص: 112)

یعنی آیت اور حدیث ہر دو کا اشکال یوں رفع کیا جاسکتا ہے کہ ہر دو اس امر پر دلالت نہیں کرتی ہیں کہ ان ہر دو کی ابتدائی بنیاد ان دونوں بزرگوں نے رکھی ہے۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہردو کی ابتدائی بنیاد غیروں کے ہاتھوں کی ہے اور یہ دونوں حضرات ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمان ؑ ان ہر دو مقامات کی تجدید کرنے والے ہیں اور مروی ہے کہ شروع میں بیت اللہ کو حضرت آدم ؑ نے بنایا اور اس کی بنیاد پر ممکن ہے کہ ان کی اولاد میں سے کسی نے ان کے چالیس سال بعد بیت المقدس کی بنیاد رکھی ہو۔
میں کہتا ہوں کہ خود آدم ؑ نے اس کی بھی بنیاد رکھی ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے نقل کیا ہے کہ جب حضرت آدم ؑ نے کعبہ کو بنایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا کہ بیت المقدس جائیں اور اس کی بنیاد رکھیں۔
چنانچہ وہ تشریف لائے اور بیت المقدس کو بنایا اور وہاں عبادت الٰہی بجالائے۔
علامہ سندی فرماتے ہیں:
لیس المراد بناءإبراهیم للمسجد الحرام و بناء سلیمان للمسجد الأقصیٰ فإن بینهما مدة طویلة بل المراد البناء سوالھذین البنائین (حوالہ مذکور)
یعنی حدیث میں ان ہر دومساجد کی ابراہیمی اور سلیمانی بنیادیں مراد نہیں ہیں۔
ان کے درمیان تو طویل مدت کا فاصلہ ہے۔
بلکہ ان ہر دو کے سوا ابتدائی بناء مراد ہیں۔
بائیبل تواریخ2 باب3 آیات1-2 میں مذکور ہے کہ بیت المقدس کو حضرت سلیمان ؑ نے اپنے آباءو اجداد کی پرانی نشانیوں پر تعمیر کیا تھا جس سے بھی واضح ہے کہ بیت المقدس کے بانی اول حضرت سلیمان ؑ نہیں ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3366   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3366  
3366. حضرت ابو ذر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ نے فرمایا: مسجد حرام۔ میں نے عرض کیا: پھر کونسی؟ آپ نے فرمایا: مسجداقصیٰ۔ میں نے دریافت کیا: ان دونوں میں کتنی مدت کا فاصلہ تھا؟ آپ نے فرمایا: چالیس سال کا، مگر جہاں بھی تمھیں نماز کا وقت آجائے وہیں نماز پڑھ لو کیونکہ فضیلت اسی میں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3366]
حدیث حاشیہ:
اس مقام پر ایک مشہور اشکال ہے کہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے تعمیر ہوا وہی ہے جو مکہ میں ہے۔
برکت والا اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔
(آل عمران: 96/3)
اور اس کی تعمیر حضرت ابراہیم ؑ نے کی جبکہ مسجد اقصیٰ کو حضرت سلیمان ؑ نے تعمیر کیا اور ان کے درمیان ایک ہزار سے بھی زیادہ سال کا فاصلہ ہے جبکہ اس حدیث میں چالیس سال مذکورہ ہیں۔
دراصل آیت کریمہ اور حدیث مذکور کا یہ مدلول نہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمان ؑ نے ان کو سب سے پہلے بنایا تھا بلکہ انھوں نے تو پہلی بنیادوں کی تجدید کی تھی کیونکہ بیت اللہ حضرت ابراہیم ؑ اور بیت المقدس حضرت سلیمان ؑ سے پہلے تعمیر ہو چکے تھے روایات میں ہے کہ سب سے پہلے حضرت آدم ؑ نے بیت اللہ تعمیر کیا لہٰذا ممکن ہے کہ حضرت آدم ؑ کی اولاد میں سے کسی نے اپنی ضرورت کے پیش نظر اس کے چالیس سال بعد بیت المقدس کی تعمیر کی ہو۔
یہ بھی ممکن ہے کہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کو سب سے پہلے فرشتوں نے بنایا ہواور ان کی تعمیر میں چالیس سال کا فرق ہو۔
البتہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کی طرف نسبت اس لیے کی گئی کہ انھوں نے ان کی تجدید کی تھی۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 495/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3366   

  الشيخ محمد حسین میمن حفظہ الله، احادیث تطبیق،صحیح بخاری، ح: 3366  
... میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے پہلے روئے زمین پر کون سی مسجد بنی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد الحرام۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے عرض کیا اور اور اس کے بعد؟ فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (بیت المقدس) میں نے عرض کیا، ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا فاصلہ رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس سال۔ پھر فرمایا اب جہاں بھی تجھ کو نماز کا وقت ہو جائے وہاں نماز پڑھ لے۔ بڑی فضیلت نماز پڑھنا ہے ... [صحیح بخاری، ح: 3366]
مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کی تعمیرات کے درمیان کا وقفہ۔
«عن ابي ذر قال: قلت: يارسول الله اي مسجد وضع فى الارض أولا؟ قال: المسجد الحرام قال: قلت: ثم أى؟ قال: ثم المسجد الاقصى قال قلت كم بينها؟ قال: اربعون سنة فاينما أدركتك الصلاة فصل فهو مسجد .»
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول اللہ (صلى الله عليه وسلم)! سب سے پہلے زمین میں کونسی مسجد تعمیر کی گئی تھی؟ تو آپ (صلى الله عليه وسلم) نے فرمایا: مسجد الحرام سب سے پہلے تعمیر کی گئی تھی روای کہتے ہیں کہ میں نے کہا: پھر کونسی مسجد تعمیر کی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد اقصی (بیت المقدس) تعمیر کی گئی میں نے کہا ان دونوں (مسجد الحرام اور مسجد الاقصی) کی تعمیر کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس سال کا فاصلہ ہے۔ (اے ابوذر!) زمین کے جس ٹکڑے پر جس جگہ بھی تو نماز کو پا لے (جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے) نماز پڑھ وہ (ٹکڑا) مسجد ہے۔
[تخريج: رواه البخاري 3366، ومسلم 1520، وابن ماجه، والنسائي، وأحمد 150/5]
اگر کوئی کہنے والا کہہ دے کہ کعبتہ اللہ کی تعمیر کے اولین معمار سیدنا ابراہیم علیہ السلام تھے اور مسجد اقصٰی کے معمار سیدنا داؤد علیہ السلام اور ان کے بیٹے سیدنا سلیمان علیہ السلام تھے، ابراہیم علیہ السلام اور داؤد علیہ السلام کی درمیانی مدت میں کئی زمانے اور قرنیں گزر چکی تھیں کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کے بعد ان کے بیٹے اسحاق علیہ السلام نبی ہوئے اور اسحاق علیہ السلام کے بعد یعقوب علیہ السلام آئے اور یعقوب علیہ السلام کے بعد ان کے بیٹے یوسف علیہ السلام آئے اور ان کے کافی عرصہ بعد موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بعد داؤد علیہ السلام تشریف لائے اور بیچ میں اسباط و اولاد ان کے علاوہ ہیں۔ نیز اس مدت میں دیگر انبیا جو یکے بعد دیگرے مبعوث ہوتے رہے ان کا زمانہ بھی شمار کیا جائے تو لمبا عرصہ بنتا ہے اس تاریخی بات سے پتا چلتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور داؤد علیہ السلام کے درمیان چالیس سال سے بہت زیادہ کا عرصہ بنتا ہے۔
تطبيق:
➊ حدیث میں ابو ذر رضی اللہ عنہ کا سوال واضع کے بارے میں ہے نہ کہ تعمیر و تأسیس کے بارے میں پس حدیث میں اسی کے مطابق جواب ملا۔
➋ یہ بھی احتمال ہے کہ مسجد اقصٰی کی تعمیر داؤد علیہ السلام سے قبل دیگر انبیا نے کی ہو پھر داؤد اور سلیمان علیہما السلام نے اپنے اپنے دور میں اسکی تعمیر کی ازسرنو تجدید کی ہو۔
➌ ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب [زاد المعاد 49/1] میں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ان لوگوں کے لئے مشکل ہو گئی ہے جو اس کی مراد کو نہ سمجھ سکے۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ بات معلوم ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصی کی تعمیر فرمائی ہے اوران کے اور ابراہیم علیہ السلام کی درمیانی مدت کا فاصلہ ایک ہزار سال سے زیادہ ہے ان کی یہ بات جہالت پر مبنی ہے کیونکہ سلیمان علیہ السلام مسجد اقصیٰ کے مجدد ہیں نہ کہ مؤسس جس شخصیت نے اس کی اساس اور بنیاد رکھی ہے وہ یعقوب بن اسحاق ہیں تب جا کر ان کے اور ابراہیم علیہ السلام کے درمیان وہ مدت بنتی ہے جو حدیث میں بتائی گئی ہے۔ [فلا اشكال۔]
➍ امام قرطبی [تفسير القرطبي 104/2] میں فرماتے ہیں:
«ان أول من بنى البيت آدم» کعبۃ اللہ سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے بنایا تھا۔
مصنف عبدالرزاق میں عطا بن ابی رباح، سعید بن مسیب، عمرو بن دینار اور معمر جیسے جلیل القدر تابعین کے اقوال موجود ہیں کہ کعبتہ اللہ کو سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے بنایا تھا۔
➎ نیز حافظ ابن حجر [فتح الباري] میں فرماتے ہیں: علامہ ابن ہشام نے اپنی کتاب [تاريخ ابن هشام] میں لکھا ہے کہ آدم علیہ السلام جب کعبہ تعمیر کر چکے تو اللہ نے ان کو بیت المقدس کی طرف جانے کا حکم دیا پس آدم علیہ السلام نے اس کو بنایا اور اس میں عبادت شروع کی۔
لہذا زیر بحث حدیث میں جن عمارتوں کی تعمیر کی درمیانی مدت کا ذکر ہے وہ آدم علیہ السلام کی تعمیر کردہ عمارتیں ہیں نہ کہ ابراہیم اور سلیمان علیہما السلام کی تعمیر کردہ عمارتیں۔ پس حدیث میں کوئی تعارض نہیں۔
آخر میں ہم علی رضی اللہ عنہ کا قول ذکر کریں گے جو سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہے۔
«اذا حدثتم رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا فظنوا برسول الله صلى الله عليه وسلم اهنا ه واتقاه واهداه،»
جب میں تم کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی جانب منسوب کر کے کوئی حدیث بیان کروں تو پھر یقین رکھو کہ اس کی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے نہایت عمدہ، زیادہ ہدایت اور بڑے تقویٰ کے ساتھ نسبت کی گئی ہے۔
[رواه ابن ماجه 20، وأبو داؤد الطيالسي 99، شرح مشكل الآثار 109/1]
   احادیث متعارضہ اور ان کا حل، حدیث/صفحہ نمبر: 12