صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
34. بَابُ: {وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا} :
باب: اس بیان میں کہ «وإلى مدين أخاهم شعيبا» سے اہل مدین مراد ہیں کیونکہ مدین ایک شہر تھا بحر قلزم پر۔
إِلَى أَهْلِ مَدْيَنَ لِأَنَّ مَدْيَنَ بَلَدٌ وَمِثْلُهُ وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ سورة يوسف آية 82 وَاسْأَلْ الْعِيرُ سورة يوسف آية 94 يَعْنِي أَهْلَ الْقَرْيَةِ وَأَهْلَ الْعِيرِ وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا سورة هود آية 92 لَمْ يَلْتَفِتُوا إِلَيْهِ يُقَالُ إِذَا لَمْ يَقْضِ حَاجَتَهُ ظَهَرْتَ حَاجَتِي وَجَعَلْتَنِي ظِهْرِيًّا قَالَ الظِّهْرِيُّ أَنْ تَأْخُذَ مَعَكَ دَابَّةً أَوْ وِعَاءً تَسْتَظْهِرُ بِهِ مَكَانَتُهُمْ وَمَكَانُهُمْ وَاحِدٌ يَغْنَوْا سورة هود آية 95 يَعِيشُوا يَيْأَسُ سورة يوسف آية 87 يَحْزَنْ آسَى سورة الأعراف آية 93 أَحْزَنُ، وَقَالَ الْحَسَنُ: إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ سورة هود آية 87 يَسْتَهْزِئُونَ بِهِ وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لَيْكَةُ: الْأَيْكَةُ يَوْمِ الظُّلَّةِ سورة الشعراء آية 189 إِظْلَالُ الْغَمَامِ الْعَذَابَ عَلَيْهِمْ.
اس کی مثال جیسے سورۃ یوسف میں فرمایا «واسأل القرية واسأل العير» یعنی بستی والوں سے اور قافلہ والوں پوچھ لے «ظهريا» یعنی ادھر ادھر پھر کر نہیں دیکھتے۔ عرب لوگ جب ان کا کام نہ نکلے تو کہتے ہیں «ظهرت حاجتي» یا «جعلتني ظهريا» تو نے میرا کام پس پشت ڈال دیا ‘ یا مجھ کو پس پشت کر دیا۔ «ظهري» اس جانور یا «ظرف» کو کہتے ہیں جس کو تو اپنی قوت بڑھانے کے لیے ساتھ رکھے «مكانتهم» اور «مكانهم» دونوں کا ایک ہی معنی ہے۔ «لم يغنوا» زندہ نہیں رہے تھے۔ وہاں بسے ہی نہ تھے (سورۃ المائدہ میں) «فلاتاس» رنجیدہ نہ ہو (سورۃ الاعراف میں) «آسى» رنجیدہ ہوں ‘ غم کروں ‘ امام حسن بصری نے کہا (سورۃ ہود میں) کافروں کا جو یہ قول نقل کیا۔ «إنك لأنت الحليم الرشيد» تو یہ کافروں نے ٹھٹھے کے طور پر کہا تھا۔ مجاہد نے کہا سورۃ الشعراء میں «ليكة» سے مراد «أيكة» ہے یعنی جھاڑی میں۔ «يوم الظلة» یعنی جس دن عذاب ایک سائبان کی شکل میں نمودار ہوا (ابر، بادل میں سے آگ برسی)۔