صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
33. بَابُ: {إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَى} الآيَةَ:
باب: (قارون کا بیان) ”بیشک قارون، موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے تھا“ الآیۃ (سورۃ قص)۔
لَتَنُوءُ سورة القصص آية 76 لَتُثْقِلُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أُولِي الْقُوَّةِ سورة القصص آية 76 لَا يَرْفَعُهَا الْعُصْبَةُ مِنَ الرِّجَالِ يُقَالُ الْفَرِحِينَ سورة القصص آية 76 الْمَرِحِينَ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ سورة القصص آية 82 مِثْلُ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ سورة الرعد آية 26 وَيُوَسِّعُ عَلَيْهِ وَيُضَيِّقُ.
(آیت میں) «لتنوء» بمعنی «لتثقل» یعنی بھاری ہوتی تھیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے «أولي القوة» کی تفسیر میں کہا کہ اس کی کنجیوں کو لوگوں کی ایک طاقتور جماعت بھی نہ اٹھا پاتی تھی۔ «الفرحين» بمعنی «المرحين» اترانے والے۔ «ويكأن» «ألم تر أن» کی طرح ہے۔ «الله يبسط الرزق لمن يشاء ويقدر» یعنی کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں فراخی کر دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگی کر دیتا ہے۔