Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
19. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ} :
باب: (یوسف علیہ السلام کا بیان) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں“۔
حدیث نمبر: 3388
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أُمَّ رُومَانَ وَهِيَ أُمُّ عَائِشَةَ عَمَّا قِيلَ فِيهَا مَا قِيلَ قَالَتْ: بَيْنَمَا أَنَا مَعَ عَائِشَةَ جَالِسَتَانِ إِذْ وَلَجَتْ عَلَيْنَا امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهِيَ تَقُولُ: فَعَلَ اللَّهُ بِفُلَانٍ وَفَعَلَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ لِمَ؟ قَالَتْ: إِنَّهُ نَمَا ذِكْرَ الْحَدِيثِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: أَيُّ حَدِيثٍ فَأَخْبَرَتْهَا، قَالَتْ: فَسَمِعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: نَعَمْ فَخَرَّتْ مَغْشِيًّا عَلَيْهَا فَمَا أَفَاقَتْ إِلَّا وَعَلَيْهَا حُمَّى بِنَافِضٍ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا لِهَذِهِ، قُلْتُ: حُمَّى أَخَذَتْهَا مِنْ أَجْلِ حَدِيثٍ تُحُدِّثَ بِهِ فَقَعَدَتْ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَئِنْ حَلَفْتُ لَا تُصَدِّقُونِي وَلَئِنْ اعْتَذَرْتُ لَا تَعْذِرُونِي فَمَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ يَعْقُوبَ وَبَنِيهِ فَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ، فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ مَا أَنْزَلَ فَأَخْبَرَهَا، فَقَالَتْ: بِحَمْدِ اللَّهِ لَا بِحَمْدِ أَحَدٍ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو محمد بن فضیل نے خبر دی ‘ کہا ہم سے حصین نے بیان کیا ‘ ان سے سفیان نے ‘ ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا سے عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں جو بہتان تراشا گیا تھا اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک انصاریہ عورت ہمارے یہاں آئی اور کہا کہ اللہ فلاں (مسطح بن اثاثہ) کو تباہ کر دے اور وہ اسے تباہ کر بھی چکا انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں انہوں نے بتایا کہ اسی نے تو یہ جھوٹ مشہور کیا ہے۔ پھر انصاریہ عورت نے (عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا سارا) واقعہ بیان کیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے (اپنی والدہ سے) پوچھا کہ کون سا واقعہ؟ تو ان کی والدہ نے انہیں واقعہ کی تفصیل بتائی۔ عائشہ نے پوچھا کہ کیا یہ قصہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم ہو گیا ہے؟ ان کی والدہ نے بتایا کہ ہاں۔ یہ سنتے ہی عائشہ رضی اللہ عنہا بیہوش ہو کر گر پڑیں اور جب ہوش آیا تو جاڑے کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ انہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ ایک بات ان سے ایسی کہی گئی تھی اور اسی کے صدمے سے ان کو بخار آ گیا ہے۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا اٹھ کر بیٹھ گئیں اور کہا اللہ کی قسم! اگر میں قسم کھاؤں جب بھی آپ لوگ میری بات نہیں مان سکتے اور اگر کوئی عذر بیان کروں تو اسے بھی تسلیم نہیں کر سکتے۔ بس میری اور آپ لوگوں کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی سی ہے (کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کی من گھڑت کہانی سن کر فرمایا تھا کہ) جو کچھ تم کہہ رہے ہو میں اس پر اللہ ہی کی مدد چاہتا ہوں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ کو جو کچھ منظور تھا وہ نازل فرمایا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر عائشہ رضی اللہ عنہا کو دی تو انہوں نے کہا کہ اس کے لیے میں صرف اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کسی اور کا نہیں۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3388 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3388  
حدیث حاشیہ:
حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے ذکر سے ترجمہ باب نکلتا ہے اور شاید امام بخاری ؒنے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف بھی اشارہ کیا ہو جس میں یوں ہے کہ حضرت عائشہ ؒنے دوران گفتگو یوں کہا کہ مجھ کو حضرت یعقوب ؑ کا نام یاد نہ آیا تو میں نے یوسف ؑ کا باپ کہہ دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3388   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3388  
باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ}
ترجمۃ الباب میں امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ نے یوسف علیہ السلام کا ذکر فرمایا اور تحت الباب میں جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے، اس میں واضح طور پر یوسف علیہ السلام کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اشارۃً ان کا ذکر ہے، علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:
«حديث ام رومان اورده هنا القول عائشة فيه: فمثلي ومثلك كمثل يعقوب وبنيه، فان يوسف داخل فيهم .»
یعنی امام رومان رضی اللہ عنہا کی حدیث کا باب سے تعلق عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول میں ہے کہ میری اور آپ کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی سی ہے، پس ان کے بیٹوں میں یوسف علیہ السلام داخل ہیں۔
مزید اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں، جس میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ کچھ اس طرح کے ہیں، مجھے یعقوب علیہ السلام کا نام یاد نہیں آیا تو میں نے یوسف علیہ السلام کے والد کہہ دیا۔
لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
فائدہ:۔
خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ایک اشکال مذکورہ حدیث کی سند پر لگایا ہے، کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے «مسروق عن ام رومان» کہ واسطے سے جو حدیث الافک روایت کی ہے، اس کو مسروق نے ام رومان رضی اللہ عنہا سے نہیں سنا، کیوں کہ ام رومان رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں انتقال فرما گئی تھیں، اور اس وقت مسروق چھ سال کے تھے، اس لئے مسروق کی روایت ام رومان رضی اللہ عنہا سے کس طرح درست ہو سکتی ہے؟ پس یہ علت روایت میں موجود ہے،
خطیب صاحب کے الفاظ یہ ہیں کہ:
«وخفيت هذه العلة على البخاري رحمه الله .»
پس یہ علت اس میں موجود ہے، جو امام بخاری رحمہ اللہ پر مخفی رہی۔
اس تنقید کہ ہم پیالہ کئی متاخرین کی جماعت بنی، لیکن اگر تحقیقی نگاہ سے دیکھا جائے تو خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا موقف کمزور ہے، بلکہ صحیح بات ان سے مخفی رہی، نہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ پر۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، امام بخاری رحمہ اللہ کی تحقیق کے قائل تھے، بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے خطیب رحمہ اللہ کا واضح طور پر رد فرمایا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
جس روایت سے ام رومان کا ۶ ھ میں انتقال ثابت کیا جاتا ہے، اس میں ایک سیئی الحفظ راوی زید بن جدعان ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ الصغیر اور تاریخ الاوسط میں اس کی نقل کردہ روایت کو ضعیف قرار دیا ہے اور «فيه نظر» فرما کر اس کا رد فرما دیا۔
مزید حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے محدث ابراہیم حربی رحمہ اللہ کا قول بھی نقل فرمایا ہے تاکہ مسروق اور ام رومان رضی اللہ عنہا کے انقطاع کا خدشہ دور ہو جائے اور ان کی لقاء و سماع ثابت ہو جائے۔
«وقد جزم ابراهيم الحربي الحافظ باٴن مسروقآ انما سمع من ام رومان فى خلافة عمر رضي الله عنه»
یقیناًً ابراہیم حربی نے جزم کے ساتھ ثابت فرمایا ہے کہ مسروق نے ام رومان سے خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سماعت فرمایا ہے۔
لہٰذا امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا بھی یہاں بآسانی رد ہوتا ہے کیونکہ آپ بھی خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے ہم پیالہ تھے، اس مسئلے میں امام ابونعیم الاصفھانی رحمہ اللہ نے فرمایا: جو یہ کہتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وہ انتقال کر گئی تھیں، تو اسے وہم ہو گیا ہے۔
«عاشت ام رومان بعد نبي صلى الله عليه وسلم دهرا»
یعنی ام رومان رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کئی سال زندہ رہیں۔
ان اقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ، ام رومان رضی اللہ عنہا کا سماع امام مسروق رحمہ اللہ سے ثابت ہے، لہٰذا خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا اعتراض کالعدم ٹھرا، مزید تفصیل کے لئے مراجعت کیجئے: [التوضيح لشرح الجامع الصحيح لابن الملقن: 19 / 38۔ 439]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 27   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3388  
حدیث حاشیہ:

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسروق کا اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سماع ثابت ہے چنانچہ ایک روایت میں ہےکہ مجھ سے اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4691)
اس لیے یہ کہنا کہ مسروق کا سماع رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ثابت نہیں محل نظر ہے۔

اس حدیث میں برادران یوسف کا ذکر ہے۔
اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں ذکر کیا ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے آپ نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہو جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:
مجھے دوران گفتگو میں حضرت یعقوب ؑ کا نام یاد نہ آیا تو میں نے یوسف کا باپ کہہ دیا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4141)
حضرت یعقوب ؑ کے سامنے جب برادران یوسف نے جعلی خون سے آلودہ قمیص پیش کی اور کہا:
یوسف کو بھیڑیے نے لقمہ بنا لیا ہے تو انھوں نے اپنے بیٹوں کو کچھ نہ کہا اور نہ انھیں کوئی طعن و ملامت ہی کی۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی غلط حرکت کر بیٹھیں صرف اتنا ہی کہا:
میری فریاد تو اللہ ہی سے ہے اور میں اسی سے مدد چاہتا ہوں۔
امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی اللہ ہی سے فریاد کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی براءت میں قرآن مجید کی اٹھارہ آیات نازل فرمائیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3388   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4691  
4691. حضرت مسروق بن اجدع سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ی والدہ حضرت ام رومان‬ ؓ ن‬ے بیان کیا کہ میں اور عائشہ‬ ؓ ب‬یٹھے ہوئے تھے، اس دوران میں عائشہ‬ ؓ ک‬و بخار چڑھ گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: غالبا یہ بخار ان باتوں کی وجہ سے ہے جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ حضرت ام رومان نے کہا: جی ہاں۔ اس کے بعد حضرت عائشہ ؓ اٹھ کر بیٹھ گئیں اور کہا: میری اور آپ لوگوں کی مثال حضرت یعقوب ؑ اور ان کے بیٹوں جیسی ہے۔ بلکہ تم لوگوں نے ایک بری بات کو بنا سنوار لیا ہے، خیر اب صبر ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو، اس کے متعلق میں اللہ ہی سے مدد چاہتی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4691]
حدیث حاشیہ:
ام رومان آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد بہت دنوں تک زندہ رہیں۔
جب ہی تو مسروق نے ان سے سنا جو تابعی ہیں اوریہ روایت صحیح نہیں ہے کہ ام رومان آںنحضرت ﷺ کی حیات میں مر گئی تھیں اور آپ ان کی قبر میں اترے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4691   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4143  
4143. حضرت مسروق بن اجدع سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے ام المومنین عائشہ‬ ؓ ک‬ی والدہ حضرت ام رومان‬ ؓ ن‬ے خبر دی کہ ایک دفعہ میں اور عائشہ‬ ؓ ب‬یٹھی ہوئی تھیں۔ اس دوران میں ایک انصاری عورت آئی اور کہنے لگی کہ اللہ فلاں کو ایسا ایسا کرے۔ ام رومان نے پوچھا: کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ میرا بیٹا بھی ان لوگوں کے ساتھ شریک ہو گیا ہے جنہوں نے اس طرح کی باتیں کی ہیں۔ ام رومان‬ ؓ ن‬ے پوچھا: وہ کیا باتیں ہیں؟ تو انہوں نے واقعہ بہتان ذکر کیا۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے بھی یہ باتیں سنی ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے پوچھا: کیا حضرت ابوبکر ؓ نے بھی سنی ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ حضرت عائشہ ؓ یہ سنتے ہی غش کھا کر گر پڑیں۔ جب انہین ہوش آیا تو انہیں سردی کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ میں نے ان پر کپڑا ڈال دیا اور انہیں ڈھانپ دیا۔ اس دوران میں نبی ﷺ تشریف لائے تو فرمایا: اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4143]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث پر منکرین حدیث کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ بقول واقدی حضرت ام رومان ؓ کا انتقال چار یا پانچ ہجری میں ہو چکا تھا اور حضرت مسروق صحابی نہیں ہیں کیونکہ وہ یمن سے آپ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر ؓ یا حضرت عمر ؓ کےکے دور خلافت میں آئے لہٰذا اس روایت میں انقطاع ہے۔
لیکن واقدی کا قول اس لیے قابل اعتبار نہیں کہ احادیث میں اس کی تردید موجود ہے کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ پر آیت تخبیر نازل ہوئی تو آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا:
میں تجھ پر ایک معاملہ پیش کرتا ہوں اپنے والدین حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت ام رومان ؓ سے مشورہ کر کے جواب دینا۔
(مسند أحمد: 212/5)
اور آیت تخبیرنو ہجری میں نازل ہوئی تھی اس کا مطلب یہ ہے کہ نو ہجری تک حضرت اُم رومان ؓ کا زندہ رہنا احادیث سے ثابت ہے نیز صحیح بخاری کی روایت بھی قول واقدی کے معارض ہے۔

ابراہیم حربی نے یقین سے کہا ہے کہ مسروق کا سماع اُم رومان ؓ سے ثابت ہے اور وہ سماع کے وقت پندرہ برس کے تھے، اس کے علاوہ ابو نعیم اصفہانی نے کہا:
اُم رومان ؓ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد زندہ ہیں لہٰذا مذکورہ روایت متصل اور صحیح ہے۔
(فتح الباري: 546/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4143   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4691  
4691. حضرت مسروق بن اجدع سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ی والدہ حضرت ام رومان‬ ؓ ن‬ے بیان کیا کہ میں اور عائشہ‬ ؓ ب‬یٹھے ہوئے تھے، اس دوران میں عائشہ‬ ؓ ک‬و بخار چڑھ گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: غالبا یہ بخار ان باتوں کی وجہ سے ہے جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ حضرت ام رومان نے کہا: جی ہاں۔ اس کے بعد حضرت عائشہ ؓ اٹھ کر بیٹھ گئیں اور کہا: میری اور آپ لوگوں کی مثال حضرت یعقوب ؑ اور ان کے بیٹوں جیسی ہے۔ بلکہ تم لوگوں نے ایک بری بات کو بنا سنوار لیا ہے، خیر اب صبر ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو، اس کے متعلق میں اللہ ہی سے مدد چاہتی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4691]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ اس حدیث کو مذکورہ عنوان کے تحت اس لیے لائے ہیں کہ اس میں "صبر جمیل" کا ایک عملی نمونہ مذکورہے اس میں حضرت یوسف ؑ اور ان کے والد گرامی کا ذکرہے۔

حضرت عائشہ ؓ کو اس قدرغم تھا کہ شدت صدمہ کی وجہ سے حضرت یعقوب ؑ کا نام بھی ذہن میں نہ آسکا۔
ایک روایت میں ہے کہ میں نے ذہن پر زور ڈالا لیکن حضرت یعقوب ؑ کا نام ذہن میں نہ آسکا۔
میں نے جلدی سے ابو یوسف ہی کہہ دیا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4757)
البتہ جن روایات میں حضرت ام رومان ؓ کا ذکر ہے ان میں حضرت عائشہ ؓ کی طرف سے حضرت یعقوب ؑ کے نام کی صراحت ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہےکہ جن روایات میں نام کی صراحت ہے وہ روایات بالمعنی ہیں کیونکہ ہشام کی روایت میں وضاحت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت یعقوب ؑ کا نام اپنے ذہن میں لانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکیں پھر آپ نے ان کی کنیت ذکر کردی۔
(فتح الباري: 604/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4691