صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
19. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ} :
باب: (یوسف علیہ السلام کا بیان) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں“۔
حدیث نمبر: 3383
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَكْرَمُ النَّاسِ، قَالَ:" أَتْقَاهُمْ لِلَّهِ، قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، قَالَ: فَأَكْرَمُ النَّاسِ يُوسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ ابْنُ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ نَبِيِّ اللَّهِ ابْنِ خَلِيلِ اللَّهِ، قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ، قَالَ: فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونِي النَّاسُ مَعَادِنُ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ خِيَارُهُمْ فِي الْإِسْلَامِ إِذَا فَقُهُوا".
مجھ سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے عبیداللہ نے بیان کیا ‘ انہیں سعید بن ابی سعید نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ سب سے زیادہ شریف آدمی کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو اللہ کا خوف زیادہ رکھتا ہو۔“ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مقصد یہ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر سب سے زیادہ شریف اللہ کے نبی یوسف بن نبی اللہ بن نبی اللہ بن خلیل اللہ ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مقصد یہ بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ عرب کے خانوادوں کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہو۔ دیکھو! لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے (کسی کان میں سے اچھا مال نکلتا ہے کسی میں سے برا) جو لوگ تم میں سے زمانہ جاہلیت میں شریف اور بہتر اخلاق کے تھے وہی اسلام کے بعد بھی اچھے اور شریف ہیں بشرطیکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3383 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3383
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ اسلام میں بنیاد شرافت دینداری اور دین کی سمجھ حاصل کرنا ہے جسے لفظ فقاہت سے یاد کیا گیا ہے۔
دوسری حدیث میں ہے:
مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ۔
اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے پر نظر کرم کرتا ہے اسے دین کی فقاہت یعنی سمجھ عطا کرتا ہے۔
اس سلسلہ میں امت کے سامنے زندہ مثالیں محدثین کرام کی ہیں جن کو اللہ پاک نے دینی فقاہت سے نوازہ کہ آج اسلام ان ہی کی مساعی جمیلہ سے زندہ ہے کہ سیرت نبوی احادیث صحیحہ کی روشنی میں مکمل طور پر مطالعہ کی جاسکتی ہے۔
اللہ پاک جملہ محدثین کرام و مجتہدین عظام کو امت کی طرف سے ہزاروں ہزار جزائیں عطافرمائے اور قیامت کے دن سب کو فردوس بریں میں جمع کرے اور مجھ ناچیز حقیر گنہگار ادنیٰ خادم اور میرے قدر دانوں کو باری تعالیٰ حشر کے میدان میں اپنے حبیب پاک اور جملہ بزرگان خاص کی رفاقت عطا فرمائے، آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3383
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3383
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں خاندانی شرافت کے اعتبار سے حضرت یوسف ؑ کو لوگوں میں قابل احترام قراردیا گیا ہے کہ آپ سلسلہ نبوت کا ایک حلقہ ہیں یعنی آپ کے نسب میں مسلسل چار انبیائے کرام ؑ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیاوی حکومت اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔
2۔
اس حدیث کے مطابق دین اسلام میں شرافت کی بنیاد دینداری اور دین میں سمجھ حاصل کرنا ہے جسے حدیث میں لفظ فقاہت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے۔
”اللہ تعالیٰ جس بندے کے ساتھ خیر خواہی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا کرتا ہے۔
“ (صحیح البخاري، العلم، حدیث: 71)
اس کی زندہ مثال محدثین کرام کی جماعت ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے دین میں فہم و بصیرت سے نوازا۔
ان کی مساعی جمیلہ سے آج اسلام زندہ ہے اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں سیرت طیبہ کا مکمل طور پر مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہم سب کو رسول اللہ ﷺ کے جھنڈے تلے جمع کرے اورمحدثین کی جماعت سے اٹھائے۔
آمین۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3383
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6161
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! لو گوں میں سب سے زیادہ کریم (معزز) کو ن ہے؟آپ نے فر یا:" جو ان میں سب سے زیادہ متقی ہو۔" صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: ہم اس کے متعلق آپ سے نہیں پوچھ رہے۔آپ نے فر یا:" تو (پھر سب سے بڑھ کر کریم) اللہ کے نبی حضرت یوسف ؑ ہیں اللہ کے نبی کے بیٹے ہیں وہ (ان کے والد) بھی اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6161]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جب لوگوں نے آپ سے اكرم الناس کا سوال کیا تو آپ نے خیال کیا،
ان صفات و خصائل کے بارے میں سوال کر رہے،
جن سے انسان عزت و شرف حاصل کرتا ہے،
اس لیے آپ نے فرمایا،
اللہ کی حدود کا سب سے زیادہ پابند،
جب انہوں نے کہا،
ہمارا سوال یہ نہیں ہے تو آپ نے سمجھا،
یہ ان صفات کے ساتھ،
خاندانی شرافت کی آمیزش چاہتے ہیں تو آپ نے یوسف علیہ السلام کا نام لیا،
کیونکہ وہ ان صفات کے ساتھ شرف نبوت اور نبوت کے خاندان کے فرد تھے،
تعبیر رؤیا کے ماہر تھے،
دنیوی سیادت و قیادت کے حامل تھے اور اعلیٰ سیرت و کردار کے ساتھ رعایا کے محافظ و نگران اور ان کے ہمدرد اور خیرخواہ تھے،
جب انہوں نے کہا،
ہمارا سوال یہ بھی نہیں ہے،
تب آپ نے فرمایا،
عربی قبائل کے بارے میں پوچھتے ہو اور قبائل کو معاون (کانیں)
قرار دیا ہے،
کیونکہ ان میں مختلف معدنیات ہوتی ہیں،
جن کی قدروقیمت اور مقام الگ الگ ہوتا ہے،
جیسا کہ قبائل مختلف خصائل و عادات کے حامل ہوتے ہیں،
اس لیے آپ نے فرمایا،
مکارم اخلاق اور عادات حسنہ سے متصف لوگ جو جاہلیت میں شرف و منزلت کے حامل تھے،
اسلام لانے کے بعد اگر دین کی سوجھ بوجھ اور اس کے فہم کا ملکہ پیدا کر لیں تو انہیں دین اسلام میں بھی قدرومنزلت حاصل ہو گی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6161
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3374
3374. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ سے عرض کیا گیا: لوگوں میں سے سب سے زیادہ مکرم کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ان میں زیادہ معزز و محترم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔“ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ہم آپ سے یہ نہیں پوچھتے۔ آپ نے فرمایا: ”لوگوں میں سب سے زیادہ مکرم یوسف بن نبی اللہ بن نبی اللہ بن نبی اللہ بن خلیل اللہ ہیں۔“ لوگوں نے کہا: ہم آپ سے اس کے متعلق بھی نہیں پوچھ رہے۔ (ہمارا مقصد یہ بھی نہیں۔) تو آپ نے فرمایا: ”تم خاندان عرب کے متعلق پوچھ رہے ہو؟“ انھوں نے کہا: جی ہاں، تو آپ نے فرمایا: ”تم میں سے جو جاہلیت میں اچھے تھے وہ اسلام میں بھی اچھے ہیں بشرطیکہ وہ دین میں فقاہت حاصل کریں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3374]
حدیث حاشیہ:
روایت میں حضرت یعقوب ؑ کا ذکر آیا ہے یہی وجہ مناسبت باب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3374
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4689
4689. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ لوگوں میں کون سب سے زیادہ باعزت اور معزز ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت اور معزز وہ شخص ہے جو اللہ تعالٰی سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔“ لوگوں نے کہا: ہم نے آپ سے اس کے متعلق سوال نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا: ”پھر سب سے زیادہ معزز اور بزرگ حضرت یوسف ؑ جو اللہ کے نبی ہیں اور اللہ کے نبی کے بیٹے، اللہ کے نبی کے پوتے اور خلیل اللہ کے پڑپوتے ہیں۔“ لوگوں نے کہا: ہمارے سوال کا مقصد یہ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اچھا تم لوگ عرب کے خانوادوں کے متعلق مجھ سے پوچھتے ہو؟“ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”جو لوگ زمانہ جاہلیت میں معزز اور بزرگ خیال کیے جاتے تھے اسلام لانے کے بعد بھی وہ معزز ہیں، بشرطیکہ دین میں سمجھ حاصل کر لیں۔“ ابو اسامہ نے عبیداللہ سے روایت کرنے میں عبدۃ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4689]
حدیث حاشیہ:
حدیث ہذا کی رو سے شرافت کی بنیاد دین داری اور دین کی سمجھ ہے، اس کے بغیر شرافت کا دعویٰ غلط ہے خواہ کوئی سیدھی کیوں نہ ہو۔
دینی فقاہت شرافت کی اولین بنیاد ہے۔
محض علم کوئی چیز نہیں جب تک اس کو صحیح طور پر سمجھا نہ جائے اسی کا نام فقاہت ہے۔
نام نہاد فقہاء مراد نہیں ہیں جنہوں نے بلا وجہ زمین وآسمان کے قلابے ملائے ہیں۔
جیسا کہ کتب فقہ سے ظاہر ہے، الا ما شاء اللہ۔
تفصیل کے لئے کتاب ”حقیقۃ الفقہ“ ملاحظہ ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4689
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3374
3374. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ سے عرض کیا گیا: لوگوں میں سے سب سے زیادہ مکرم کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ان میں زیادہ معزز و محترم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔“ انھوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ہم آپ سے یہ نہیں پوچھتے۔ آپ نے فرمایا: ”لوگوں میں سب سے زیادہ مکرم یوسف بن نبی اللہ بن نبی اللہ بن نبی اللہ بن خلیل اللہ ہیں۔“ لوگوں نے کہا: ہم آپ سے اس کے متعلق بھی نہیں پوچھ رہے۔ (ہمارا مقصد یہ بھی نہیں۔) تو آپ نے فرمایا: ”تم خاندان عرب کے متعلق پوچھ رہے ہو؟“ انھوں نے کہا: جی ہاں، تو آپ نے فرمایا: ”تم میں سے جو جاہلیت میں اچھے تھے وہ اسلام میں بھی اچھے ہیں بشرطیکہ وہ دین میں فقاہت حاصل کریں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3374]
حدیث حاشیہ:
1۔
لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرب کے خاندان کے متعلق پوچھا کہ ان میں معزز کون سا خاندان ہے؟ کیونکہ لوگ ان کی طرف خود کو منسوب کرتے تھے اور آپ میں اسے فخر کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔
2۔
ان خاندان کو معاون اس لیے کہا کہ ان میں مختلف استعداد قابلیت پائی جاتی ہے جیسا کہ کانوں میں نفیس اور غیر نفیس دونوں قسم کے جواہر ہوتے ہیں یا انھیں کانوں سے تشبیہ دی کہ وہ شرف و عزت کے محل ہیں جس طرح کانوں میں مختلف جواہرات پائے جاتے ہیں۔
(فتح الباري: 502/6)
2۔
اس حدیث کی مزید تشریح قبل ازیں حدیث 3358۔
میں ملاحظہ کریں۔
اس حدیث میں حضرت یوسف ؑ کا نسب نامہ بیان ہوا ہے کہ وہ یعقوب کے بیٹے ہیں نیز اس میں صراحت ہے کہ بیٹا، باپ، دادا اور پردادا چاروں اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں۔
علیه السلام۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3374
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3490
3490. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ (ایک مرتبہ) پوچھا گیا: اللہ کے رسول ﷺ! تمام لوگوں میں زیادہ عزت والا کون ہے؟ توآپ نے فرمایا: ”جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔“ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی: ہم اس کے متعلق آپ سے سوال نہیں کررہے۔ اس پر آپ نے فرمایا: ”پھر اللہ کے نبی حضرت یوسف ؑ سب سے زیادہ شریف تھے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3490]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒنے اس حدیث کو یہاں مختصر طور پر بیان کیا ہے قبل ازیں یہ روایت پوری تفصیل کے ساتھ ہی بیان ہوچکی ہے۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3374)
2۔
اس حدیث میں حضرت یوسف ؑ کی تخصیص دو وجہ سے ہے:
ایک تو شان نبوت کی وجہ سے ہے، دوسرے نسلی اعتبار سے چار پشتوں میں نبوت چلی آرہی ہے، یعنی ان کا نسب بھی عالی ہے اور حسب وکردار بھی بلند ہے۔
اگر عالی نسب کے ساتھ کردار اچھا ہوتو سونے پر سہاگہ والی بات ہے۔
ہرقل نے بھی کہا تھا:
انبیاء ؑ ہمیشہ عالی نسب ہوتے ہیں۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3490
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4689
4689. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ لوگوں میں کون سب سے زیادہ باعزت اور معزز ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت اور معزز وہ شخص ہے جو اللہ تعالٰی سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔“ لوگوں نے کہا: ہم نے آپ سے اس کے متعلق سوال نہیں کیا۔ آپ نے فرمایا: ”پھر سب سے زیادہ معزز اور بزرگ حضرت یوسف ؑ جو اللہ کے نبی ہیں اور اللہ کے نبی کے بیٹے، اللہ کے نبی کے پوتے اور خلیل اللہ کے پڑپوتے ہیں۔“ لوگوں نے کہا: ہمارے سوال کا مقصد یہ بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اچھا تم لوگ عرب کے خانوادوں کے متعلق مجھ سے پوچھتے ہو؟“ لوگوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”جو لوگ زمانہ جاہلیت میں معزز اور بزرگ خیال کیے جاتے تھے اسلام لانے کے بعد بھی وہ معزز ہیں، بشرطیکہ دین میں سمجھ حاصل کر لیں۔“ ابو اسامہ نے عبیداللہ سے روایت کرنے میں عبدۃ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4689]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں حضرت یوسف ؑ کی نسبی فضیلت بیان ہوئی ہے جو حضرت یوسف ؑ کے ساتھ خاص ہے۔
اس میں کوئی دوسرا پیغمبر ان کے ساتھ شریک نہیں۔
مذکورہ عنوان کے ساتھ اس حدیث کی یہی مناسبت ہے۔
2۔
معاون عرب سے مراد عرب کے خاندان ہیں جن کی طرف لوگ منسوب ہوتے ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں لوگوں کے کمال و نقصان کی وجہ سے انھیں سونے چاندی کی کانوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی۔
چنانچہ روایت میں صراحت ہے کہ لوگ سونے چاندی کی کانوں کی طرح ہیں۔
(مسند أحمد: 539/2)
اس حدیث کی روسے خاندانی شرافت کی بنیاد دین داری اور دین میں سمجھ بوجھ ہے، اس کے بغیر شرافت کا دعوی غلط ہے خواہ کوئی سیدہی کیوں نہ ہو۔
دینی فقاہت شرافت کی اولین بنیاد ہے۔
مخض علم کوئی چیز نہیں جب تک اسے صحیح طور پر سمجھا نہ جائے اسی کا نام فقاہت ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4689