Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
9. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3365
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا كَانَ بَيْنَ إِبْرَاهِيمَ وَبَيْنَ أَهْلِهِ مَا كَانَ خَرَجَ بِإِسْمَاعِيلَ وَأُمِّ إِسْمَاعِيلَ وَمَعَهُمْ شَنَّةٌ فِيهَا مَاءٌ فَجَعَلَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ تَشْرَبُ مِنَ الشَّنَّةِ فَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ فَوَضَعَهَا تَحْتَ دَوْحَةٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِبْرَاهِيمُ إِلَى أَهْلِهِ فَاتَّبَعَتْهُ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ حَتَّى لَمَّا بَلَغُوا كَدَاءً نَادَتْهُ مِنْ وَرَائِهِ يَا إِبْرَاهِيمُ إِلَى مَنْ تَتْرُكُنَا، قَالَ: إِلَى اللَّهِ، قَالَتْ: رَضِيتُ بِاللَّهِ، قَالَ: فَرَجَعَتْ فَجَعَلَتْ تَشْرَبُ مِنَ الشَّنَّةِ وَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا حَتَّى لَمَّا فَنِيَ الْمَاءُ، قَالَتْ: لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ لَعَلِّي أُحِسُّ أَحَدًا، قَالَ: فَذَهَبَتْ فَصَعِدَتْ الصَّفَا فَنَظَرَتْ وَنَظَرَتْ هَلْ تُحِسُّ أَحَدًا فَلَمْ تُحِسَّ أَحَدًا فَلَمَّا بَلَغَتِ الْوَادِيَ سَعَتْ وَأَتَتْ الْمَرْوَةَ فَفَعَلَتْ ذَلِكَ أَشْوَاطًا، ثُمَّ قَالَتْ: لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ مَا فَعَلَ تَعْنِي الصَّبِيَّ فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ فَإِذَا هُوَ عَلَى حَالِهِ كَأَنَّهُ يَنْشَغُ لِلْمَوْتِ فَلَمْ تُقِرَّهَا نَفْسُهَا، فَقَالَتْ: لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ لَعَلِّي أُحِسُّ أَحَدًا فَذَهَبَتْ فَصَعِدَتْ الصَّفَا فَنَظَرَتْ وَنَظَرَتْ فَلَمْ تُحِسَّ أَحَدًا حَتَّى أَتَمَّتْ سَبْعًا، ثُمَّ قَالَتْ: لَوْ ذَهَبْتُ فَنَظَرْتُ مَا فَعَلَ فَإِذَا هِيَ بِصَوْتٍ، فَقَالَتْ: أَغِثْ إِنْ كَانَ عِنْدَكَ خَيْرٌ فَإِذَا جِبْرِيلُ، قَالَ: فَقَالَ: بِعَقِبِهِ هَكَذَا وَغَمَزَ عَقِبَهُ عَلَى الْأَرْضِ، قَالَ: فَانْبَثَقَ الْمَاءُ فَدَهَشَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ فَجَعَلَتْ تَحْفِزُ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ تَرَكَتْهُ كَانَ الْمَاءُ ظَاهِرًا، قَالَ: فَجَعَلَتْ تَشْرَبُ مِنَ الْمَاءِ وَيَدِرُّ لَبَنُهَا عَلَى صَبِيِّهَا، قَالَ: فَمَرَّ نَاسٌ مِنْ جُرْهُمَ بِبَطْنِ الْوَادِي فَإِذَا هُمْ بِطَيْرٍ كَأَنَّهُمْ أَنْكَرُوا ذَاكَ، وَقَالُوا: مَا يَكُونُ الطَّيْرُ إِلَّا عَلَى مَاءٍ فَبَعَثُوا رَسُولَهُمْ فَنَظَرَ فَإِذَا هُمْ بِالْمَاءِ فَأَتَاهُمْ فَأَخْبَرَهُمْ فَأَتَوْا إِلَيْهَا، فَقَالُوا: يَا أُمَّ إِسْمَاعِيلَ أَتَأْذَنِينَ لَنَا أَنْ نَكُونَ مَعَكِ أَوْ نَسْكُنَ مَعَكِ فَبَلَغَ ابْنُهَا فَنَكَحَ فِيهِمُ امْرَأَةً، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: لِأَهْلِهِ إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي، قَالَ: فَجَاءَ فَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيْنَ إِسْمَاعِيلُ؟، فَقَالَتْ: امْرَأَتُهُ ذَهَبَ يَصِيدُ، قَالَ: قُولِي لَهُ إِذَا جَاءَ غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِكَ فَلَمَّا جَاءَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَ: أَنْتِ ذَاكِ فَاذْهَبِي إِلَى أَهْلِكِ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: لِأَهْلِهِ إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي، قَالَ: فَجَاءَ فَقَالَ: أَيْنَ إِسْمَاعِيلُ؟، فَقَالَتْ: امْرَأَتُهُ ذَهَبَ يَصِيدُ، فَقَالَتْ: أَلَا تَنْزِلُ فَتَطْعَمَ وَتَشْرَبَ، فَقَالَ: وَمَا طَعَامُكُمْ وَمَا شَرَابُكُمْ؟، قَالَتْ: وَشَرَابُنَا الْمَاءُ: طَعَامُنَا اللَّحْمُ قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي طَعَامِهِمْ وَشَرَابِهِمْ، قَالَ: فَقَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَرَكَةٌ بِدَعْوَةِ إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمَا وَسَلَّمَ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهُ بَدَا لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: لِأَهْلِهِ إِنِّي مُطَّلِعٌ تَرِكَتِي فَجَاءَ فَوَافَقَ إِسْمَاعِيلَ مِنْ وَرَاءِ زَمْزَمَ يُصْلِحُ نَبْلًا لَهُ، فَقَالَ: يَا إِسْمَاعِيلُ إِنَّ رَبَّكَ أَمَرَنِي أَنْ أَبْنِيَ لَهُ بَيْتًا، قَالَ: أَطِعْ رَبَّكَ، قَالَ إِنَّهُ قَدْ أَمَرَنِي أَنْ تُعِينَنِي عَلَيْهِ، قَالَ: إِذَنْ أَفْعَلَ، أَوْ كَمَا قَالَ: قَالَ: فَقَامَا فَجَعَلَ إِبْرَاهِيمُ يَبْنِي وَإِسْمَاعِيلُ يُنَاوِلُهُ الْحِجَارَةَ وَيَقُولَانِ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ سورة البقرة آية 127، قَالَ: حَتَّى ارْتَفَعَ الْبِنَاءُ وَضَعُفَ الشَّيْخُ عَلَى نَقْلِ الْحِجَارَةِ فَقَامَ عَلَى حَجَرِ الْمَقَامِ فَجَعَلَ يُنَاوِلُهُ الْحِجَارَةَ وَيَقُولَانِ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ سورة البقرة آية 127".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر عبدالملک بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، ان سے کثیر بن کثیر نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی (سارہ علیہ السلام) کے درمیان جو کچھ جھگڑا ہونا تھا جب وہ ہوا تو آپ اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ (ہاجرہ علیہ السلام) کو لے کر نکلے، ان کے ساتھ ایک مشکیزہ تھا۔ جس میں پانی تھا، اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اسی مشکیزہ کا پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں۔ جب ابراہیم مکہ پہنچے تو انہیں ایک بڑے درخت کے پاس ٹھہرا کر اپنے گھر واپس جانے لگے۔ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں۔ جب مقام کداء پر پہنچے تو انہوں نے پیچھے سے آواز دی کہ اے ابراہیم! ہمیں کس پر چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ پر! ہاجرہ علیہ السلام نے کہا کہ پھر میں اللہ پر خوش ہوں۔ بیان کیا کہ پھر ہاجرہ اپنی جگہ پر واپس چلی آئیں اور اسی مشکیزے سے پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں جب پانی ختم ہو گیا تو انہوں نے سوچا کہ ادھر ادھر دیکھنا چاہئے، ممکن ہے کہ کوئی آدمی نظر آ جائے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہی سوچ کر وہ صفا (پہاڑی) پر چڑھ گئیں اور چاروں طرف دیکھا کہ شاید کوئی نظر آ جائے لیکن کوئی نظر نہ آیا۔ پھر جب وادی میں اتریں تو دوڑ کر مروہ تک آئیں۔ اسی طرح کئی چکر لگائے، پھر سوچا کہ چلوں ذرا بچے کو تو دیکھوں کس حالت میں ہے۔ چنانچہ آئیں اور دیکھا تو بچہ اسی حالت میں تھا (جیسے تکلیف کے مارے) موت کے لیے تڑپ رہا ہو۔ یہ حال دیکھ کر ان سے صبر نہ ہو سکا، سوچا چلوں دوبارہ دیکھوں ممکن ہے کہ کوئی آدمی نظر آ جائے، آئیں اور صفا پہاڑ پر چڑھ گئیں اور چاروں طرف نظر پھیر پھیر کر دیکھتی رہیں لیکن کوئی نظر نہ آیا۔ اس طرح ہاجرہ علیہ السلام نے سات چکر لگائے پھر سوچا، چلوں دیکھوں بچہ کس حالت میں ہے؟ اسی وقت انہیں ایک آواز سنائی دی۔ انہوں نے (آواز سے مخاطب ہو کر) کہا کہ اگر تمہارے پاس کوئی بھلائی ہے تو میری مدد کرو۔ وہاں جبرائیل علیہ السلام موجود تھے۔ انہوں نے اپنی ایڑی سے یوں کیا (اشارہ کر کے بتایا) اور زمین ایڑی سے کھودی۔ راوی نے بیان کیا کہ اس عمل کے نتیجے میں وہاں سے پانی پھوٹ پڑا۔ ام اسماعیل ڈریں۔ (کہیں یہ پانی غائب نہ ہو جائے) پھر وہ زمین کھودنے لگیں۔ راوی نے بیان کیا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ پانی کو یوں ہی رہنے دیتیں تو پانی زمین پر بہتا رہتا۔ غرض ہاجرہ علیہ السلام زمزم کا پانی پیتی رہیں اور اپنا دودھ اپنے بچے کو پلاتی رہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اس کے بعد قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وادی کے نشیب سے گزرے۔ انہیں وہاں پرند نظر آئے۔ انہیں یہ کچھ خلاف عادت معلوم ہوا۔ انہوں نے آپس میں کہا کہ پرندہ تو صرف پانی ہی پر (اس طرح) منڈلا سکتا ہے۔ ان لوگوں نے اپنا آدمی وہاں بھیجا۔ اس نے جا کر دیکھا تو واقعی وہاں پانی موجود تھا۔ اس نے آ کر اپنے قبیلے والوں کو خبر دی تو یہ سب لوگ یہاں آ گئے اور کہا کہ اے ام اسماعیل! کیا ہمیں اپنے ساتھ رہنے کی یا (یہ کہا کہ) اپنے ساتھ قیام کرنے کی اجازت دیں گی؟ پھر ان کے بیٹے (اسماعیل علیہ السلام) بالغ ہوئے اور قبیلہ جرہم ہی کی ایک لڑکی سے ان کا نکاح ہو گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ابراہیم علیہ السلام کو خیال آیا اور انہوں نے اپنی اہلیہ (سارہ علیہا السلام) سے فرمایا کہ میں جن لوگوں کو (مکہ میں) چھوڑ آیا تھا ان کی خبر لینے جاؤں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر ابراہیم علیہ السلام مکہ تشریف لائے اور سلام کر کے دریافت فرمایا کہ اسماعیل کہاں ہیں؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ شکار کے لیے گئے۔ انہوں نے فرمایا کہ جب وہ آئیں تو ان سے کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں۔ جب اسماعیل علیہ السلام آئے تو ان کی بیوی نے واقعہ کی اطلاع دی۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہیں ہو (جسے بدلنے کے لیے ابراہیم علیہ السلام کہہ گئے ہیں) اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو۔ بیان کیا کہ پھر ایک مدت کے بعد دوبارہ ابراہیم علیہ السلام کو خیال ہوا اور انہوں نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ میں جن لوگوں کو چھوڑ آیا ہوں انہیں دیکھنے جاؤں گا۔ راوی نے بیان کیا کہ ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ اسماعیل کہاں ہیں؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ شکار کے لیے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ ٹھہرئیے اور کھانا تناول فرما لیجئے۔ ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے پیتے کیا ہو؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت کھاتے ہیں اور پانی پیتے ہیں۔ آپ نے دعا کی کہ اے اللہ! ان کے کھانے اور ان کے پانی میں برکت نازل فرما۔ بیان کیا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی برکت اب تک چلی آ رہی ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر (تیسری بار) ابراہیم علیہ السلام کو ایک مدت کے بعد خیال ہوا اور اپنی اہلیہ سے انہوں نے کہا کہ جن کو میں چھوڑ آیا ہوں ان کی خبر لینے مکہ جاؤں گا۔ چنانچہ آپ تشریف لائے اور اس مرتبہ اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، جو زمزم کے پیچھے اپنے تیر ٹھیک کر رہے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا، اے اسماعیل! تمہارے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہاں اس کا ایک گھر بناؤں، بیٹے نے عرض کیا کہ پھر آپ اپنے رب کا حکم بجا لائیے۔ انہوں نے فرمایا اور مجھے یہ بھی حکم دیا ہے کہ تم اس کام میں میری مدد کرو۔ عرض کیا کہ میں اس کے لیے تیار ہوں۔ یا اسی قسم کے اور الفاظ ادا کئے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر دونوں باپ بیٹے اٹھے۔ ابراہیم علیہ السلام دیواریں اٹھاتے تھے اور اسماعیل علیہ السلام انہیں پتھر لا لا کر دیتے تھے اور دونوں یہ دعا کرتے جاتے تھے۔ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے یہ خدمت قبول کر۔ بیشک تو بڑا سننے والا، بہت جاننے والا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ آخر جب دیوار بلند ہو گئی اور بزرگ (ابراہیم علیہ السلام) کو پتھر (دیوار پر) رکھنے میں دشواری ہوئی تو وہ مقام (ابراہیم) کے پتھر پر کھڑے ہوئے اور اسماعیل علیہ السلام ان کو پتھر اٹھا اٹھا کر دیتے جاتے اور ان حضرات کی زبان پر یہ دعا جاری تھی۔ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے اسے قبول فرما لے۔ بیشک تو بڑا سننے والا بہت جاننے والا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3365 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3365  
حدیث حاشیہ:
اس طویل حدیث میں بہت سے امور مذکور ہوئے ہیں۔
شروع میں حضرت ہاجرہ ؑ کے کمر پٹہ باندھنے کا ذکر ہے۔
جس سے عورت جلد چل پھر کر کام کاج با آسانی کرسکتی ہے۔
بعض نے یوں ترجمہ کیا ہے، تاکہ اس کمر پٹہ سے اپنے پاؤں کے نشان جو راستے میں پڑتے ہیں وہ مٹاتی جائیں تاکہ حضرت سارہ ؑ ان کا پتہ نہ پاسکیں۔
ہوا یہ تھا کہ حضرت سارہ ؑ کے کوئی اولاد نہیں تھی (بعد میں ہوئی)
اور حضرت ہاجرہ ؑ جو ایک شاہ مصر کی شاہزادی تھیں اور جسے اس بادشاہ نے اس خاندان کی برکات دیکھ کر حضرت ابراہیم ؑ کے حرم میں داخل کردیا تھا چنانچہ حضرت ہاجرہ کو حمل رہ گیا اور حضرت اسماعیل ؑ عالم وجود میں آئے۔
حضرت سارہ ؑ کے رشک میں بہت اضافہ ہوگیا، تو اس ڈر سے حضرت ہاجرہ ؑ گھر سے نکلیں اور حضرت اسماعیل ؑ کو بھی ساتھ لے لیا اور کمر سے پٹہ باندھا تاکہ اس کے ذریعہ اپنے پاؤں کے نشانات کو مٹاتی چلیں۔
اس طرح حضرت سارہ ان کا پتہ نہ پاسکیں۔
اس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے ان کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین پر لابسایا جہاں اللہ پاک نے ان کے ہاتھوں اپنا گھر ازسرنوتعمیر کرایا۔
جرہم جس کا ذکر روایت میں آیا ہے، یمن کا ایک قبیلہ ہے۔
یہی قبیلہ حضرت ہاجرہ سے اجازت لے کر یہاں آباد ہوا اور جوان ہونے پر حضرت اسماعیل کی اسی خاندان میں شادی ہوگئی۔
پہلی شادی کو حضرت ابراہیم ؑ نے پسند نہیں فرمایا جو اشارہ سے طلاق کے لیے کہہ گئے۔
دوسری بیوی کو صابرہ و شاکرہ پاکر ان سے خوشی کا اظہار فرمایا، بے شک ان واقعات میں اہل بصیرت کے لیے بہت سے اسباق ہدایت پوشیدہ ہیں، جن کو سمجھنے کے لیے نظر بصیرت کی ضرورت ہے۔
اللہ پاک ہر بخاری شریف مطالعہ کرنے والے بھائی کو نظر بصیرت عطا فرمائے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3365   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3365  
حدیث حاشیہ:
حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ جب بیت اللہ کی بنیادیں اٹھارہے تھے تو انھوں نے مذکورہ دعا کے ساتھ مزید دعائیں بھی کیں جنھیں قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔
اللہ کے حضور ان الفاظ میں دعائیں کیں:
اے ہمارے پروردگار!ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولاد میں سے ایک مسلم جماعت بنا۔
ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری توبہ قبول فرما۔
بلاشبہ تو بڑا توبہ قبول کرنے والا،نہایت رحم کرنے والا ہے۔
اے ہمارے رب! ان میں ایک رسول بھیج جو انھی میں سے ہو۔
وہ ان پر تیری آیات تلاوت کرے۔
انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاکیزہ بنائے۔
بلاشبہ تونہایت غالب اور خوب حکمت والا ہے۔
(البقرة: 128/2، 129)
اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک ایک دعا کو شرف قبولیت سے نوازا، چنانچہ آپ سراپا تسلیم ورضا تھے۔
اللہ تعالیٰ نے جب ان سے فرمایا:
ابراہیم!تم فرمانبردار ہوجاؤ توانھوں نے فوراً جواب دیا:
میں جہانوں کے رب کا فرمانبردار بنتا ہوں۔
(البقرة: 131/2)
اس فرمانبرداری کی جھلک نمایاں طور پر اس وقت نظر آتی ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو خواب میں اشارے سے کہا:
اپنے بیٹے کومیری خاطر ذبح کردو تو فوراً تعمیل حکم کے لیے تیار ہوگئے۔
ان کی فرمانبرداری کو قرآن نے بیان کیا ہے:
جب وہ بیٹا (اسماعیل ؑ)
ان کے ہمراہ دوڑدھوپ کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم ؑ نے کہا:
پیارے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمھیں ذبح کررہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا:
اباجان! وہی کچھ کریں جو آپ کو حکم ہوا ہے۔
ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔
پھر جب دونوں نے سرتسلیم خم کردیا اور ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل گرادیا، تب ہم نے پکارا:
اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کردکھایا، ہم یقیناً نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی ان کافدیہ دیا اور پچھلے لوگوں میں ان کاذکرخیر چھوڑدیا۔
ابراہیم پر سلامتی ہو۔
(102/37، 109)
چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی اطاعت گزاری کے متعلق قائم کردہ مثال اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ قربانی کو مستقل سنت بنادیا۔
قیامت تک لوگ قربانی کرکے اس سنت کو زندہ کرتے رہیں گے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3365   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3364  
3364. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: عورتوں نے جب کمر بند تیار کیا تو انھوں نے وہ حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ حضرت ہاجرہ ؑ سے سیکھاہے، سب سے پہلے انھوں نے ہی کمر بند استعمال کیا تھا۔ ان کی غرض یہ تھی کہ حضرت سارہ ؑ ان کا سراغ نہ پاسکیں، واقعہ یہ ہواکہ حضرت ابراہیم ؑ اسے اور اس کے بیٹےحضرت اسماعیل ؑ کو لےآئے۔ اس وقت حضرت ہاجرہ ؑ حضرت اسماعیل ؑ کو دودھ پلاتی تھیں انھوں نےان دونوں کو خانہ کعبہ کے پاس ایک بڑےدرخت کے قریب، چاہ زم زم پر، مسجد حرام کی بلندجانب والی جگہ پر بٹھا دیا۔ اس وقت مکہ مکرمہ میں کسی آدمی کا نام و نشان تک نہ تھا اور نہ وہاں پانی ہی موجود تھا۔ بہر حال حضرت ابراہیم ؑ ان دونوں کو وہاں چھوڑگئے اور ان کے قریب ہی ایک تھیلا کھجوروں کا اور ایک مشکیزہ پانی کا رکھ دیا۔ پھر وہ وہاں سے واپس ہوئے تو حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ آپ کے پیچھے روانہ ہوئیں اور کہنے لگیں۔ اے ابراہیم ؑ! آپ کہاں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3364]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا آغاز کمربند باندھنے سے ہوا ہے۔
خدمت کرتے وقت خدام اپنی کمر کو جس کپڑے سے باندھتے ہیں عربی زبان میں اسے مِنطق کہاجاتا ہے۔
عورتیں گھروں میں کمر بند اس لیے باندھتی ہیں تاکہ گھر میں جلدی چل پھر کر کام کاج آسانی سے کیا جائے۔

سیدہ ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کمر بند کیوں باندھا؟ شارحین نے اس کے دومقاصد بیان کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
الف۔
یہ کمر بند باندھ کر حضرت سارہ کو خوش کرنا مقصود تھا، اس طرح انھوں نے اپنی حالت خادمہ جیسی بنائی تاکہ حضرت سارہ پر یہ ظاہر کیا جائے کہ وہ ان کی خدمت گزارہے، سوتن کی طرح نہیں۔
ب۔
حضرت سارہ کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی اور حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو ایک شاہ مصر کی بیٹی تھی اور جسے اس بادشاہ نے اس خاندان کی برکات دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کےحرم میں داخل کردیاتھا۔
حرم میں آنے کے بعد انھیں حمل ٹھہرگیا اور ان کے بطن سے حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے تو حضرت سارہ کے شک میں بہت اضافہ ہوگیا۔
اللہ کے حکم سے حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے لخت جگر کو لے کر حضرت ابراہیم ؑ کے ہمراہ اپنے گھر سے نکلیں اور کمر بند باندھا تاکہ اس کے ذریعے سے ان کے قدموں کے نشانات مٹتے رہیں۔
اس طرح حضرت سارہ کو ان کا سراغ نہ مل سکا۔
اورحضرت ابراہیم ؑ نے انھیں مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین میں لابسایا جہاں اللہ تعالیٰ نے باپ بیٹے کے ہاتھوں اپنا گھر ازسرنوتعمیر کروایا۔

کچھ لوگوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق ؑ ہیں کیونکہ اس حدیث کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کو شیرخوارگی کی حالت میں چھوڑ گئے تھے، پھر جب دیکھنے آئے تو وہ شادی شدہ تھے، اگرحضرت اسماعیل ؑ کوذبح کرنے کا ذکر ہوتا تو اس حدیث میں اس کا ذکر ضرورہوتا کہ حضرت ابراہیم ؑ ان کی شادی سے پہلے بھی آیا کرتے تھے لیکن ہمارے نزدیک یہ استدلال محل نظر ہے کیونکہ اس حدیث میں یہ قطعاً مذکور نہیں کہ زمانہ رضاعت سے لے کر شادی کے زمانے تک حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے نہیں آئے بلکہ آپ کا بار بارآنا ثابت ہے جیسا کہ ابوجہم کی روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ ہر مہینے براق پر سوار ہوکر صبح کے وقت مکہ مکرمہ آتے، پھر واپس چلے جاتے اور قیلولہ اپنے ملک شام میں جا کر کرتے تھے، نیز جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل ؑ کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی تو اس کے ساتھ صفت حلیم کا ذکرکیا اور اس کا تعلق قربانی سے ہے کیونکہ اس موقع پر ان کے بردبار ہونے کی طرف لطیف اشارہ ہے لیکن جب سیدنا اسحاق ؑ کی خوش خبری دی گئی تو صفت علیم ذکر کی گئی جس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔
اس کے علاوہ سورہ صافات میں پہلے سیدنا ابراہیم ؑ کے اس بیٹے کاذکر آیا جو فی الواقع ذبیح اللہ تھے۔
اس کے بعد سیدنا اسحاق ؑ کاذکر ہے۔
یہ ذکر واقعہ قربانی کے بعد ہے۔
اس کے بعد بھی پتہ چلتا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق ؑ نہیں بلکہ حضرت اسماعیل ؑ ہیں، نیز اسحاق ؑ کی خوشخبری کے وقت ان کے بیٹے یعقوب ؑ کی خوش خبری کا بھی ذکر ہے، یعنی وہ جوان ہوں گے اور آگے ان کی اولاد ہوگی تو پھر انھیں ذبح کرنے کا حکم دینے کا کیامطلب؟ اس لیے ذبيح سیدنا اسماعیل ؑ ہی تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3364