صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
9. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3364
وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ، أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ وَكَثِيرِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى الْآخَرِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاس:" أَوَّلَ مَا اتَّخَذَ النِّسَاءُ الْمِنْطَقَ مِنْ قِبَلِ أُمِّ إِسْمَاعِيلَ اتَّخَذَتْ مِنْطَقًا لَتُعَفِّيَ أَثَرَهَا عَلَى سَارَةَ، ثُمَّ جَاءَ بِهَا إِبْرَاهِيمُ وَبِابْنِهَا إِسْمَاعِيلَ وَهِيَ تُرْضِعُهُ حَتَّى وَضَعَهُمَا عِنْدَ الْبَيْتِ عِنْدَ دَوْحَةٍ فَوْقَ زَمْزَمَ فِي أَعْلَى الْمَسْجِدِ وَلَيْسَ بِمَكَّةَ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ فَوَضَعَهُمَا هُنَالِكَ وَوَضَعَ عِنْدَهُمَا جِرَابًا فِيهِ تَمْرٌ وَسِقَاءً فِيهِ مَاءٌ، ثُمَّ قَفَّى إِبْرَاهِيمُ مُنْطَلِقًا فَتَبِعَتْهُ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ، فَقَالَتْ: يَا إِبْرَاهِيمُ أَيْنَ تَذْهَبُ وَتَتْرُكُنَا بِهَذَا الْوَادِي الَّذِي لَيْسَ فِيهِ إِنْسٌ وَلَا شَيْءٌ، فَقَالَتْ لَهُ: ذَلِكَ مِرَارًا وَجَعَلَ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهَا، فَقَالَتْ لَهُ: آللَّهُ الَّذِي أَمَرَكَ بِهَذَا، قَالَ: نَعَمْ، قَالَتْ: إِذًا لَا يُضَيِّعُنَا ثُمَّ رَجَعَتْ فَانْطَلَقَ إِبْرَاهِيمُ حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ الثَّنِيَّةِ حَيْثُ لَا يَرَوْنَهُ اسْتَقْبَلَ بِوَجْهِهِ الْبَيْتَ ثُمَّ دَعَا بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ حَتَّى بَلَغَ يَشْكُرُونَ سورة إبراهيم آية 37 وَجَعَلَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ تُرْضِعُ إِسْمَاعِيلَ وَتَشْرَبُ مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ حَتَّى إِذَا نَفِدَ مَا فِي السِّقَاءِ عَطِشَتْ وَعَطِشَ ابْنُهَا وَجَعَلَتْ تَنْظُرُ إِلَيْهِ يَتَلَوَّى أَوْ، قَالَ: يَتَلَبَّطُ فَانْطَلَقَتْ كَرَاهِيَةَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَيْهِ فَوَجَدَتْ الصَّفَا أَقْرَبَ جَبَلٍ فِي الْأَرْضِ يَلِيهَا فَقَامَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَتِ الْوَادِيَ تَنْظُرُ هَلْ تَرَى أَحَدًا فَلَمْ تَرَ أَحَدًا فَهَبَطَتْ مِنْ الصَّفَا حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْوَادِيَ رَفَعَتْ طَرَفَ دِرْعِهَا، ثُمَّ سَعَتْ سَعْيَ الْإِنْسَانِ الْمَجْهُودِ حَتَّى جَاوَزَتِ الْوَادِيَ، ثُمَّ أَتَتِ الْمَرْوَةَ فَقَامَتْ عَلَيْهَا وَنَظَرَتْ هَلْ تَرَى أَحَدًا فَلَمْ تَرَ أَحَدًا فَفَعَلَتْ ذَلِكَ سَبْعَ مَرَّاتٍ، قَالَ: ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَذَلِكَ سَعْيُ النَّاسِ بَيْنَهُمَا فَلَمَّا أَشْرَفَتْ عَلَى الْمَرْوَةِ سَمِعَتْ صَوْتًا فَقَالَتْ صَهٍ تُرِيدُ نَفْسَهَا، ثُمَّ تَسَمَّعَتْ فَسَمِعَتْ أَيْضًا، فَقَالَتْ: قَدْ أَسْمَعْتَ إِنْ كَانَ عِنْدَكَ غِوَاثٌ فَإِذَا هِيَ بِالْمَلَكِ عِنْدَ مَوْضِعِ زَمْزَمَ فَبَحَثَ بِعَقِبِهِ أَوْ، قَالَ: بِجَنَاحِهِ حَتَّى ظَهَرَ الْمَاءُ فَجَعَلَتْ تُحَوِّضُهُ وَتَقُولُ بِيَدِهَا هَكَذَا وَجَعَلَتْ تَغْرِفُ مِنَ الْمَاءِ فِي سِقَائِهَا وَهُوَ يَفُورُ بَعْدَ مَا تَغْرِفُ، قَالَ: ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَرْحَمُ اللَّهُ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ لَوْ تَرَكَتْ زَمْزَمَ أَوْ قَالَ: لَوْ لَمْ تَغْرِفْ مِنَ الْمَاءِ لَكَانَتْ زَمْزَمُ عَيْنًا مَعِينًا، قَالَ: فَشَرِبَتْ وَأَرْضَعَتْ وَلَدَهَا، فَقَالَ لَهَا: الْمَلَكُ لَا تَخَافُوا الضَّيْعَةَ فَإِنَّ هَا هُنَا بَيْتَ اللَّهِ يَبْنِي هَذَا الْغُلَامُ وَأَبُوهُ وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَهْلَهُ وَكَانَ الْبَيْتُ مُرْتَفِعًا مِنَ الْأَرْضِ كَالرَّابِيَةِ تَأْتِيهِ السُّيُولُ فَتَأْخُذُ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ فَكَانَتْ كَذَلِكَ حَتَّى مَرَّتْ بِهِمْ رُفْقَةٌ مِنْ جُرْهُمَ أَوْ أَهْلُ بَيْتٍ مِنْ جُرْهُمَ مُقْبِلِينَ مِنْ طَرِيقِ كَدَاءٍ فَنَزَلُوا فِي أَسْفَلِ مَكَّةَ فَرَأَوْا طَائِرًا عَائِفًا، فَقَالُوا: إِنَّ هَذَا الطَّائِرَ لَيَدُورُ عَلَى مَاءٍ لَعَهْدُنَا بِهَذَا الْوَادِي وَمَا فِيهِ مَاءٌ فَأَرْسَلُوا جَرِيًّا أَوْ جَرِيَّيْنِ فَإِذَا هُمْ بِالْمَاءِ فَرَجَعُوا فَأَخْبَرُوهُمْ بِالْمَاءِ فَأَقْبَلُوا، قَالَ: وَأُمُّ إِسْمَاعِيلَ عِنْدَ الْمَاءِ، فَقَالُوا: أَتَأْذَنِينَ لَنَا أَنْ نَنْزِلَ عِنْدَكِ، فَقَالَتْ: نَعَمْ وَلَكِنْ لَا حَقَّ لَكُمْ فِي الْمَاءِ، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَأَلْفَى ذَلِكَ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ وَهِيَ تُحِبُّ الْإِنْسَ فَنَزَلُوا وَأَرْسَلُوا إِلَى أَهْلِيهِمْ فَنَزَلُوا مَعَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ بِهَا أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْهُمْ وَشَبَّ الْغُلَامُ وَتَعَلَّمَ الْعَرَبِيَّةَ مِنْهُمْ وَأَنْفَسَهُمْ وَأَعْجَبَهُمْ حِينَ شَبَّ فَلَمَّا أَدْرَكَ زَوَّجُوهُ امْرَأَةً مِنْهُمْ وَمَاتَتْ أُمُّ إِسْمَاعِيلَ فَجَاءَ إِبْرَاهِيمُ بَعْدَمَا تَزَوَّجَ إِسْمَاعِيلُ يُطَالِعُ تَرِكَتَهُ فَلَمْ يَجِدْ إِسْمَاعِيلَ فَسَأَلَ امْرَأَتَهُ عَنْهُ، فَقَالَتْ: خَرَجَ يَبْتَغِي لَنَا ثُمَّ سَأَلَهَا عَنْ عَيْشِهِمْ وَهَيْئَتِهِمْ، فَقَالَتْ: نَحْنُ بِشَرٍّ نَحْنُ فِي ضِيقٍ وَشِدَّةٍ فَشَكَتْ إِلَيْهِ، قَالَ: فَإِذَا جَاءَ زَوْجُكِ فَاقْرَئِي عَلَيْهِ السَّلَامَ وَقُولِي لَهُ يُغَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِهِ فَلَمَّا جَاءَ إِسْمَاعِيلُ كَأَنَّهُ آنَسَ شَيْئًا، فَقَالَ: هَلْ جَاءَكُمْ مِنْ أَحَدٍ، قَالَتْ: نَعَمْ جَاءَنَا شَيْخٌ كَذَا وَكَذَا فَسَأَلَنَا عَنْكَ فَأَخْبَرْتُهُ وَسَأَلَنِي كَيْفَ عَيْشُنَا فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّا فِي جَهْدٍ وَشِدَّةٍ، قَالَ: فَهَلْ أَوْصَاكِ بِشَيْءٍ، قَالَتْ: نَعَمْ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَيَقُولُ غَيِّرْ عَتَبَةَ بَابِكَ، قَالَ: ذَاكِ أَبِي وَقَدْ أَمَرَنِي أَنْ أُفَارِقَكِ الْحَقِي بِأَهْلِكِ فَطَلَّقَهَا وَتَزَوَّجَ مِنْهُمْ أُخْرَى فَلَبِثَ عَنْهُمْ إِبْرَاهِيمُ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ أَتَاهُمْ بَعْدُ فَلَمْ يَجِدْهُ فَدَخَلَ عَلَى امْرَأَتِهِ فَسَأَلَهَا عَنْهُ، فَقَالَتْ: خَرَجَ يَبْتَغِي لَنَا، قَالَ: كَيْفَ أَنْتُمْ وَسَأَلَهَا عَنْ عَيْشِهِمْ وَهَيْئَتِهِمْ، فَقَالَتْ: نَحْنُ بِخَيْرٍ وَسَعَةٍ وَأَثْنَتْ عَلَى اللَّهِ، فَقَالَ: مَا طَعَامُكُمْ، قَالَتْ: اللَّحْمُ، قَالَ: فَمَا شَرَابُكُمْ، قَالَتْ: الْمَاءُ، قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي اللَّحْمِ وَالْمَاءِ، قَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ يَوْمَئِذٍ حَبٌّ وَلَوْ كَانَ لَهُمْ دَعَا لَهُمْ فِيهِ، قَالَ: فَهُمَا لَا يَخْلُو عَلَيْهِمَا أَحَدٌ بِغَيْرِ مَكَّةَ إِلَّا لَمْ يُوَافِقَاهُ، قَالَ: فَإِذَا جَاءَ زَوْجُكِ فَاقْرَئِي عَلَيْهِ السَّلَامَ وَمُرِيهِ يُثْبِتُ عَتَبَةَ بَابِهِ فَلَمَّا جَاءَ إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: هَلْ أَتَاكُمْ مِنْ أَحَدٍ؟، قَالَتْ: نَعَمْ أَتَانَا شَيْخٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ وَأَثْنَتْ عَلَيْهِ فَسَأَلَنِي عَنْكَ فَأَخْبَرْتُهُ فَسَأَلَنِي كَيْفَ عَيْشُنَا فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّا بِخَيْرٍ، قَالَ: فَأَوْصَاكِ بِشَيْءٍ، قَالَتْ: نَعَمْ هُوَ يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَيَأْمُرُكَ أَنْ تُثْبِتَ عَتَبَةَ بَابِكَ، قَالَ: ذَاكِ أَبِي وَأَنْتِ الْعَتَبَةُ أَمَرَنِي أَنْ أُمْسِكَكِ ثُمَّ لَبِثَ عَنْهُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ جَاءَ بَعْدَ ذَلِكَ وَإِسْمَاعِيلُ يَبْرِي نَبْلًا لَهُ تَحْتَ دَوْحَةٍ قَرِيبًا مِنْ زَمْزَمَ فَلَمَّا رَآهُ قَامَ إِلَيْهِ فَصَنَعَا كَمَا يَصْنَعُ الْوَالِدُ بِالْوَلَدِ وَالْوَلَدُ بِالْوَالِدِ، ثُمَّ قَالَ: يَا إِسْمَاعِيلُ إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي بِأَمْرٍ، قَالَ: فَاصْنَعْ مَا أَمَرَكَ رَبُّكَ، قَالَ: وَتُعِينُنِي، قَالَ: وَأُعِينُكَ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَبْنِيَ هَا هُنَا بَيْتًا وَأَشَارَ إِلَى أَكَمَةٍ مُرْتَفِعَةٍ عَلَى مَا حَوْلَهَا، قَالَ: فَعِنْدَ ذَلِكَ رَفَعَا الْقَوَاعِدَ مِنْ الْبَيْتِ فَجَعَلَ إِسْمَاعِيلُ يَأْتِي بِالْحِجَارَةِ وَإِبْرَاهِيمُ يَبْنِي حَتَّى إِذَا ارْتَفَعَ الْبِنَاءُ جَاءَ بِهَذَا الْحَجَرِ فَوَضَعَهُ لَهُ فَقَامَ عَلَيْهِ وَهُوَ يَبْنِي وَإِسْمَاعِيلُ يُنَاوِلُهُ الْحِجَارَةَ وَهُمَا، يَقُولَانِ: رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ سورة البقرة آية 127، قَالَ: فَجَعَلَا يَبْنِيَانِ حَتَّى يَدُورَا حَوْلَ الْبَيْتِ وَهُمَا يَقُولَانِ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ سورة البقرة آية 127".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ایوب سختیانی اور کثیر بن کثیر بن مطلب بن ابی وداعہ نے۔ یہ دونوں کچھ زیادہ اور کمی کے ساتھ بیان کرتے ہیں، وہ دونوں سعید بن جبیر سے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، عورتوں میں کمر پٹہ باندھنے کا رواج اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ علیہا السلام) سے چلا ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے کمر پٹہ اس لیے باندھا تھا تاکہ سارہ علیہا السلام ان کا سراغ نہ پائیں (وہ جلد بھاگ جائیں) پھر انہیں اور ان کے بیٹے اسماعیل کو ابراہیم (علیہما السلام) ساتھ لے کر مکہ میں آئے، اس وقت ابھی وہ اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے دونوں کو کعبہ کے پاس ایک بڑے درخت کے پاس بٹھا دیا جو اس جگہ تھا جہاں اب زمزم ہے۔ مسجد کی بلند جانب میں۔ ان دنوں مکہ میں کوئی انسان نہیں تھا۔ اس لیے وہاں پانی نہیں تھا۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان دونوں کو وہیں چھوڑ دیا اور ان کے لیے ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجور اور ایک مشک میں پانی رکھ دیا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام (اپنے گھر کے لیے) روانہ ہوئے۔ اس وقت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہا کہ اے ابراہیم! اس خشک جنگل میں جہاں کوئی بھی آدمی اور کوئی بھی چیز موجود نہیں، آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ انہوں نے کئی دفعہ اس بات کو دہرایا لیکن ابراہیم علیہ السلام ان کی طرف دیکھتے نہیں تھے۔ آخر ہاجرہ علیہا السلام نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں۔ اس پر ہاجرہ علیہا السلام بول اٹھیں کہ پھر اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت کرے گا، وہ ہم کو ہلاک نہیں کرے گا۔ چنانچہ وہ واپس آ گئیں اور ابراہیم علیہ السلام روانہ ہو گئے۔ جب وہ ثنیہ پہاڑی پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو ادھر رخ کیا، جہاں اب کعبہ ہے (جہاں پر ہاجرہ اور اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑ کر آئے تھے) پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ اے میرے رب! میں نے اپنی اولاد کو اس بےآب و دانہ میدان میں تیری حرمت والے گھر کے پاس ٹھہرایا ہے (سورۃ ابراہیم) «يشكرون» تک۔ ادھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کو دودھ پلانے لگیں اور خود پانی پینے لگیں۔ آخر جب مشک کا سارا پانی ختم ہو گیا تو وہ پیاسی رہنے لگیں اور ان کے لخت جگر بھی پیاسے رہنے لگے۔ وہ اب دیکھ رہی تھیں کہ سامنے ان کا بیٹا (پیاس کی شدت سے) پیچ و تاب کھا رہا ہے یا (کہا کہ) زمین پر لوٹ رہا ہے۔ وہ وہاں سے ہٹ گئیں کیونکہ اس حالت میں بچے کو دیکھنے سے ان کا دل بے چین ہوتا تھا۔ صفا پہاڑی وہاں سے نزدیک تر تھی۔ وہ (پانی کی تلاش میں) اس پر چڑھ گئیں اور وادی کی طرف رخ کر کے دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی انسان نظر نہیں آیا، وہ صفا سے اتر گئیں اور جب وادی میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا لیا (تاکہ دوڑتے وقت نہ الجھیں) اور کسی پریشان حال کی طرح دوڑنے لگیں پھر وادی سے نکل کر مروہ پہاڑی پر آئیں اور اس پر کھڑی ہو کر دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔ اس طرح انہوں نے سات چکر لگائے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (صفا اور مروہ کے درمیان) لوگوں کے لیے دوڑنا اسی وجہ سے مشروع ہوا۔ (ساتویں مرتبہ) جب وہ مروہ پر چڑھیں تو انہیں ایک آواز سنائی دی، انہوں نے کہا، خاموش! یہ خود اپنے ہی سے وہ کہہ رہی تھیں اور پھر آواز کی طرف انہوں نے کان لگا دئیے۔ آواز اب بھی سنائی دے رہی تھی پھر انہوں نے کہا کہ تمہاری آواز میں نے سنی۔ اگر تم میری کوئی مدد کر سکتے ہو تو کرو۔ کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں اب زمزم (کا کنواں) ہے، وہیں ایک فرشتہ موجود ہے۔ فرشتے نے اپنی ایڑی سے زمین میں گڑھا کر دیا، یا یہ کہا کہ اپنے بازو سے، جس سے وہاں پانی ابل آیا۔ ہاجرہ نے اسے حوض کی شکل میں بنا دیا اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کر دیا (تاکہ پانی بہنے نہ پائے) اور چلو سے پانی اپنے مشکیزہ میں ڈالنے لگیں۔ جب وہ بھر چکیں تو وہاں سے چشمہ پھر ابل پڑا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ! ام اسماعیل پر رحم کرے، اگر زمزم کو انہوں نے یوں ہی چھوڑ دیا ہوتا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چلو سے مشکیزہ نہ بھرا ہوتا تو زمزم ایک بہتے ہوئے چشمے کی صورت میں ہوتا۔ بیان کیا کہ پھر ہاجرہ علیہ السلام نے خود بھی وہ پانی پیا اور اپنے بیٹے کو بھی پلایا۔ اس کے بعد ان سے فرشتے نے کہا کہ اپنے برباد ہونے کا خوف ہرگز نہ کرنا کیونکہ یہیں اللہ کا گھر ہو گا، جسے یہ بچہ اور اس کا باپ تعمیر کریں گے اور اللہ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا، اب جہاں بیت اللہ ہے، اس وقت وہاں ٹیلے کی طرح زمین اٹھی ہوئی تھی۔ سیلاب کا دھارا آتا اور اس کے دائیں بائیں سے زمین کاٹ کر لے جاتا۔ اس طرح وہاں کے دن و رات گزرتے رہے اور آخر ایک دن قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وہاں سے گزرے یا (آپ نے یہ فرمایا کہ) قبیلہ جرہم کے چند گھرانے مقام کداء (مکہ کا بالائی حصہ) کے راستے سے گزر کر مکہ کے نشیبی علاقے میں انہوں نے پڑاؤ کیا (قریب ہی) انہوں نے منڈلاتے ہوئے کچھ پرندے دیکھے، ان لوگوں نے کہا کہ یہ پرندہ پانی پر منڈلا رہا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے جب بھی ہم اس میدان سے گزرے ہیں یہاں پانی کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ آخر انہوں نے اپنا ایک آدمی یا دو آدمی بھیجے۔ وہاں انہوں نے واقعی پانی پایا چنانچہ انہوں نے واپس آ کر پانی کی اطلاع دی۔ اب یہ سب لوگ یہاں آئے۔ راوی نے بیان کیا کہ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ اس وقت پانی پر ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا آپ ہمیں اپنے پڑوس میں پڑاؤ ڈالنے کی اجازت دیں گی۔ ہاجرہ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں ہو گا۔ انہوں نے اسے تسلیم کر لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب ام اسماعیل کو پڑوسی مل گئے۔ انسانوں کی موجودگی ان کے لیے دلجمعی کا باعث ہوئی۔ ان لوگوں نے خود بھی یہاں قیام کیا اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلوا لیا اور وہ سب لوگ بھی یہیں آ کر ٹھہر گئے۔ اس طرح یہاں ان کے کئی گھرانے آ کر آباد ہو گئے اور بچہ (اسماعیل علیہ السلام جرہم کے بچوں میں) جوان ہوا اور ان سے عربی سیکھ لی۔ جوانی میں اسماعیل علیہ السلام ایسے خوبصورت تھے کہ آپ پر سب کی نظریں اٹھتی تھیں اور سب سے زیادہ آپ بھلے لگتے تھے۔ چنانچہ جرہم والوں نے آپ کی اپنے قبیلے کی ایک لڑکی سے شادی کر دی۔ پھر اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ علیہا السلام) کا انتقال ہو گیا)۔ اسماعیل علیہ السلام کی شادی کے بعد ابراہیم علیہ السلام یہاں اپنے چھوڑے ہوئے خاندان کو دیکھنے آئے۔ اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے۔ اس لیے آپ نے ان کی بیوی سے اسماعیل علیہ السلام کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ روزی کی تلاش میں کہیں گئے ہیں۔ پھر آپ نے ان سے ان کی معاش وغیرہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حالت اچھی نہیں ہے، بڑی تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے۔ اس طرح انہوں نے شکایت کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارا شوہر آئے تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں۔ پھر جب اسماعیل علیہ السلام واپس تشریف لائے تو جیسے انہوں نے کچھ انسیت سی محسوس کی اور دریافت فرمایا، کیا کوئی صاحب یہاں آئے تھے؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں ایک بزرگ اس اس شکل کے یہاں آئے تھے اور آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے، میں نے انہیں بتایا (کہ آپ باہر گئے ہوئے ہیں) پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر اوقات کا کیا حال ہے؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ہماری گزر اوقات بڑی تنگی سے ہوتی ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت کیا کہ انہوں نے تمہیں کچھ نصیحت بھی کی تھی؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں مجھ سے انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو سلام کہہ دوں اور وہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ بزرگ میرے والد تھے اور مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں جدا کر دوں، اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو۔ چنانچہ اسماعیل علیہ السلام نے انہیں طلاق دے دی اور بنی جرہم ہی میں ایک دوسری عورت سے شادی کر لی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور رہا، ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں نہیں آئے۔ پھر جب کچھ دنوں کے بعد وہ تشریف لائے تو اس مرتبہ بھی اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر پر موجود نہیں تھے۔ آپ ان کی بیوی کے یہاں گئے اور ان سے اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے لیے روزی تلاش کرنے گئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تم لوگوں کا حال کیسا ہے؟ آپ نے ان کی گزر بسر اور دوسرے حالات کے متعلق پوچھا، انہوں نے بتایا کہ ہمارا حال بہت اچھا ہے، بڑی فراخی ہے، انہوں نے اس کے لیے اللہ کی تعریف و ثنا کی۔ ابراہیم علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے کیا ہو؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت! آپ نے دریافت کیا فرمایا کہ پیتے کیا ہو؟ بتایا کہ پانی! ابراہیم علیہ السلام نے ان کے لیے دعا کی، اے اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت نازل فرما۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دنوں انہیں اناج میسر نہیں تھا۔ اگر اناج بھی ان کے کھانے میں شامل ہوتا تو ضرور آپ اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔ صرف گوشت اور پانی کی خوراک میں ہمیشہ گزارہ کرنا مکہ کے سوا اور کسی زمین پر بھی موافق نہیں پڑتا۔ ابراہیم علیہ السلام نے (جاتے ہوئے) اس سے فرمایا کہ جب تمہارے شوہر واپس آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہہ دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ باقی رکھیں۔ جب اسماعیل علیہ السلام تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا یہاں کوئی آیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ جی ہاں ایک بزرگ، بڑی اچھی شکل و صورت کے آئے تھے۔ بیوی نے آنے والے بزرگ کی تعریف کی پھر انہوں نے مجھ سے آپ کے متعلق پوچھا (کہ کہاں ہیں؟) اور میں نے بتا دیا، پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر بسر کا کیا حال ہے۔ تو میں نے بتایا کہ ہم اچھی حالت میں ہیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے تمہیں کوئی وصیت بھی کی تھی؟ انہوں نے کہا جی ہاں، انہوں نے آپ کو سلام کہا تھا اور حکم دیا تھا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بزرگ میرے والد تھے، چوکھٹ تم ہو اور آپ مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں۔ پھر جتنے دنوں اللہ تعالیٰ کو منظور رہا، کے بعد ابراہیم علیہ السلام ان کے یہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ اسماعیل زمزم کے قریب ایک بڑے درخت کے سائے میں (جہاں ابراہیم انہیں چھوڑ گئے تھے) اپنے تیر بنا رہے ہیں۔ جب اسماعیل علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو ان کی طرف کھڑے ہو گے اور جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ محبت کرتا ہے وہی طرز عمل ان دونوں نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ اختیار کیا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا، اسماعیل اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے۔ اسماعیل علیہ السلام نے عرض کیا، آپ کے رب نے جو حکم آپ کو دیا ہے آپ اسے ضرور پورا کریں۔ انہوں نے فرمایا اور تم بھی میری مدد کر سکو گے؟ عرض کیا کہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اسی مقام پر اللہ کا ایک گھر بناؤں اور آپ نے ایک اور اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے چاروں طرف! کہا کہ اس وقت ان دونوں نے بیت اللہ کی بنیاد پر عمارت کی تعمیر شروع کی۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے اور ابراہیم علیہ السلام تعمیر کرتے جاتے تھے۔ جب دیواریں بلند ہو گئیں تو اسماعیل یہ پتھر لائے اور ابراہیم علیہ السلام کے لیے اسے رکھ دیا۔ اب ابراہیم علیہ السلام اس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے۔ اسماعیل علیہ السلام پتھر دیتے جاتے تھے اور یہ دونوں یہ دعا پڑھتے جاتے تھے۔ ہمارے رب! ہماری یہ خدمت تو قبول کر بیشک تو بڑا سننے والا اور جاننے والا ہے۔ فرمایا کہ یہ دونوں تعمیر کرتے رہے اور بیت اللہ کے چاروں طرف گھوم گھوم کر یہ دعا پڑھتے رہے۔ ”اے ہمارے رب! ہماری طرف سے یہ خدمت قبول فرما۔ بیشک تو بڑا سننے والا بہت جاننے والا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3364 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3364
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کا آغاز کمربند باندھنے سے ہوا ہے۔
خدمت کرتے وقت خدام اپنی کمر کو جس کپڑے سے باندھتے ہیں عربی زبان میں اسے مِنطق کہاجاتا ہے۔
عورتیں گھروں میں کمر بند اس لیے باندھتی ہیں تاکہ گھر میں جلدی چل پھر کر کام کاج آسانی سے کیا جائے۔
2۔
سیدہ ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کمر بند کیوں باندھا؟ شارحین نے اس کے دومقاصد بیان کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
الف۔
یہ کمر بند باندھ کر حضرت سارہ کو خوش کرنا مقصود تھا، اس طرح انھوں نے اپنی حالت خادمہ جیسی بنائی تاکہ حضرت سارہ پر یہ ظاہر کیا جائے کہ وہ ان کی خدمت گزارہے، سوتن کی طرح نہیں۔
ب۔
حضرت سارہ کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی اور حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو ایک شاہ مصر کی بیٹی تھی اور جسے اس بادشاہ نے اس خاندان کی برکات دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کےحرم میں داخل کردیاتھا۔
حرم میں آنے کے بعد انھیں حمل ٹھہرگیا اور ان کے بطن سے حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے تو حضرت سارہ کے شک میں بہت اضافہ ہوگیا۔
اللہ کے حکم سے حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے لخت جگر کو لے کر حضرت ابراہیم ؑ کے ہمراہ اپنے گھر سے نکلیں اور کمر بند باندھا تاکہ اس کے ذریعے سے ان کے قدموں کے نشانات مٹتے رہیں۔
اس طرح حضرت سارہ کو ان کا سراغ نہ مل سکا۔
اورحضرت ابراہیم ؑ نے انھیں مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین میں لابسایا جہاں اللہ تعالیٰ نے باپ بیٹے کے ہاتھوں اپنا گھر ازسرنوتعمیر کروایا۔
3۔
کچھ لوگوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق ؑ ہیں کیونکہ اس حدیث کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کو شیرخوارگی کی حالت میں چھوڑ گئے تھے، پھر جب دیکھنے آئے تو وہ شادی شدہ تھے، اگرحضرت اسماعیل ؑ کوذبح کرنے کا ذکر ہوتا تو اس حدیث میں اس کا ذکر ضرورہوتا کہ حضرت ابراہیم ؑ ان کی شادی سے پہلے بھی آیا کرتے تھے لیکن ہمارے نزدیک یہ استدلال محل نظر ہے کیونکہ اس حدیث میں یہ قطعاً مذکور نہیں کہ زمانہ رضاعت سے لے کر شادی کے زمانے تک حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے نہیں آئے بلکہ آپ کا بار بارآنا ثابت ہے جیسا کہ ابوجہم کی روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ ہر مہینے براق پر سوار ہوکر صبح کے وقت مکہ مکرمہ آتے، پھر واپس چلے جاتے اور قیلولہ اپنے ملک شام میں جا کر کرتے تھے، نیز جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل ؑ کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی تو اس کے ساتھ صفت حلیم کا ذکرکیا اور اس کا تعلق قربانی سے ہے کیونکہ اس موقع پر ان کے بردبار ہونے کی طرف لطیف اشارہ ہے لیکن جب سیدنا اسحاق ؑ کی خوش خبری دی گئی تو صفت علیم ذکر کی گئی جس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔
اس کے علاوہ سورہ صافات میں پہلے سیدنا ابراہیم ؑ کے اس بیٹے کاذکر آیا جو فی الواقع ذبیح اللہ تھے۔
اس کے بعد سیدنا اسحاق ؑ کاذکر ہے۔
یہ ذکر واقعہ قربانی کے بعد ہے۔
اس کے بعد بھی پتہ چلتا ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسحاق ؑ نہیں بلکہ حضرت اسماعیل ؑ ہیں، نیز اسحاق ؑ کی خوشخبری کے وقت ان کے بیٹے یعقوب ؑ کی خوش خبری کا بھی ذکر ہے، یعنی وہ جوان ہوں گے اور آگے ان کی اولاد ہوگی تو پھر انھیں ذبح کرنے کا حکم دینے کا کیامطلب؟ اس لیے ذبيح سیدنا اسماعیل ؑ ہی تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3364
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3365
3365. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی بیوی (سارہ) کے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا تو آپ حضرت اسماعیل ؑ اور ان کی والدہ ماجدہ کو ساتھ لے کر باہرنکل آئے جبکہ ان کے پاس صرف ایک مشکیزہ پانی کا تھا۔ حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ اس میں سے پانی پیتی رہیں اور ان کا دودھ بچے کے لیے جوش مارتا رہا حتی کہ جب وہ (حضرت ابراہیم ؑ) مکہ مکرمہ آئے تو انھیں ایک بڑےدرخت کے نیچے بٹھا دیا۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ اپنی بیوی سارہ کی طرف واپس چلے تو حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ ان کے پیچھے آئیں حتی کہ وہ مقام کداء میں پہنچے تو ان کے پیچھے سے آواز دی۔ اے ابراہیم ؑ!ہمیں کس کے پاس چھوڑ کر جارہے ہو؟انھوں نے جواب دیا: اللہ کے پاس، حضرت ہاجرہ نے کہا: میں اللہ پر راضی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ واپس چلی آئیں اور مشکیزے سے پانی پیتی رہیں اور بچے کے لیے دودھ جوش مارتا رہا حتی کہ جب پانی ختم ہو گیا تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3365]
حدیث حاشیہ:
اس طویل حدیث میں بہت سے امور مذکور ہوئے ہیں۔
شروع میں حضرت ہاجرہ ؑ کے کمر پٹہ باندھنے کا ذکر ہے۔
جس سے عورت جلد چل پھر کر کام کاج با آسانی کرسکتی ہے۔
بعض نے یوں ترجمہ کیا ہے، تاکہ اس کمر پٹہ سے اپنے پاؤں کے نشان جو راستے میں پڑتے ہیں وہ مٹاتی جائیں تاکہ حضرت سارہ ؑ ان کا پتہ نہ پاسکیں۔
ہوا یہ تھا کہ حضرت سارہ ؑ کے کوئی اولاد نہیں تھی (بعد میں ہوئی)
اور حضرت ہاجرہ ؑ جو ایک شاہ مصر کی شاہزادی تھیں اور جسے اس بادشاہ نے اس خاندان کی برکات دیکھ کر حضرت ابراہیم ؑ کے حرم میں داخل کردیا تھا چنانچہ حضرت ہاجرہ کو حمل رہ گیا اور حضرت اسماعیل ؑ عالم وجود میں آئے۔
حضرت سارہ ؑ کے رشک میں بہت اضافہ ہوگیا، تو اس ڈر سے حضرت ہاجرہ ؑ گھر سے نکلیں اور حضرت اسماعیل ؑ کو بھی ساتھ لے لیا اور کمر سے پٹہ باندھا تاکہ اس کے ذریعہ اپنے پاؤں کے نشانات کو مٹاتی چلیں۔
اس طرح حضرت سارہ ان کا پتہ نہ پاسکیں۔
اس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے ان کو مکہ کی بے آب و گیاہ سرزمین پر لابسایا جہاں اللہ پاک نے ان کے ہاتھوں اپنا گھر ازسرنوتعمیر کرایا۔
جرہم جس کا ذکر روایت میں آیا ہے، یمن کا ایک قبیلہ ہے۔
یہی قبیلہ حضرت ہاجرہ سے اجازت لے کر یہاں آباد ہوا اور جوان ہونے پر حضرت اسماعیل کی اسی خاندان میں شادی ہوگئی۔
پہلی شادی کو حضرت ابراہیم ؑ نے پسند نہیں فرمایا جو اشارہ سے طلاق کے لیے کہہ گئے۔
دوسری بیوی کو صابرہ و شاکرہ پاکر ان سے خوشی کا اظہار فرمایا، بے شک ان واقعات میں اہل بصیرت کے لیے بہت سے اسباق ہدایت پوشیدہ ہیں، جن کو سمجھنے کے لیے نظر بصیرت کی ضرورت ہے۔
اللہ پاک ہر بخاری شریف مطالعہ کرنے والے بھائی کو نظر بصیرت عطا فرمائے۔
آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3365
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3365
3365. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی بیوی (سارہ) کے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا تو آپ حضرت اسماعیل ؑ اور ان کی والدہ ماجدہ کو ساتھ لے کر باہرنکل آئے جبکہ ان کے پاس صرف ایک مشکیزہ پانی کا تھا۔ حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ اس میں سے پانی پیتی رہیں اور ان کا دودھ بچے کے لیے جوش مارتا رہا حتی کہ جب وہ (حضرت ابراہیم ؑ) مکہ مکرمہ آئے تو انھیں ایک بڑےدرخت کے نیچے بٹھا دیا۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ اپنی بیوی سارہ کی طرف واپس چلے تو حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ ان کے پیچھے آئیں حتی کہ وہ مقام کداء میں پہنچے تو ان کے پیچھے سے آواز دی۔ اے ابراہیم ؑ!ہمیں کس کے پاس چھوڑ کر جارہے ہو؟انھوں نے جواب دیا: اللہ کے پاس، حضرت ہاجرہ نے کہا: میں اللہ پر راضی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ واپس چلی آئیں اور مشکیزے سے پانی پیتی رہیں اور بچے کے لیے دودھ جوش مارتا رہا حتی کہ جب پانی ختم ہو گیا تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3365]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ جب بیت اللہ کی بنیادیں اٹھارہے تھے تو انھوں نے مذکورہ دعا کے ساتھ مزید دعائیں بھی کیں جنھیں قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔
اللہ کے حضور ان الفاظ میں دعائیں کیں:
”اے ہمارے پروردگار!ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولاد میں سے ایک مسلم جماعت بنا۔
ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری توبہ قبول فرما۔
بلاشبہ تو بڑا توبہ قبول کرنے والا،نہایت رحم کرنے والا ہے۔
اے ہمارے رب! ان میں ایک رسول بھیج جو انھی میں سے ہو۔
وہ ان پر تیری آیات تلاوت کرے۔
انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاکیزہ بنائے۔
بلاشبہ تونہایت غالب اور خوب حکمت والا ہے۔
“ (البقرة: 128/2، 129)
اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک ایک دعا کو شرف قبولیت سے نوازا، چنانچہ آپ سراپا تسلیم ورضا تھے۔
اللہ تعالیٰ نے جب ان سے فرمایا:
”ابراہیم!تم فرمانبردار ہوجاؤ توانھوں نے فوراً جواب دیا:
میں جہانوں کے رب کا فرمانبردار بنتا ہوں۔
“ (البقرة: 131/2)
اس فرمانبرداری کی جھلک نمایاں طور پر اس وقت نظر آتی ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو خواب میں اشارے سے کہا:
اپنے بیٹے کومیری خاطر ذبح کردو تو فوراً تعمیل حکم کے لیے تیار ہوگئے۔
ان کی فرمانبرداری کو قرآن نے بیان کیا ہے:
”جب وہ بیٹا (اسماعیل ؑ)
ان کے ہمراہ دوڑدھوپ کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم ؑ نے کہا:
پیارے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمھیں ذبح کررہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا:
اباجان! وہی کچھ کریں جو آپ کو حکم ہوا ہے۔
ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔
پھر جب دونوں نے سرتسلیم خم کردیا اور ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل گرادیا، تب ہم نے پکارا:
اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کردکھایا، ہم یقیناً نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی ان کافدیہ دیا اور پچھلے لوگوں میں ان کاذکرخیر چھوڑدیا۔
ابراہیم پر سلامتی ہو۔
“ (102/37، 109)
چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی اطاعت گزاری کے متعلق قائم کردہ مثال اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ قربانی کو مستقل سنت بنادیا۔
قیامت تک لوگ قربانی کرکے اس سنت کو زندہ کرتے رہیں گے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3365