صحيح البخاري
كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ
کتاب: وحی کے بیان میں
--. ( بَابٌ: )
باب: (وحی کی ابتداء)
حدیث نمبر: 3
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا، قَالَتْ:"أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ، فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، قَالَ: فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ:" اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ {1} خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ {2} اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ {3}" سورة العلق آية 1-3، فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ، وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ: لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي، فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ، فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ، وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ، فَيَكْتُبُ مِنَ الْإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ، فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ: يَا ابْنَ عَمِّ، اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ، فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: يَا ابْنَ أَخِي، مَاذَا تَرَى، فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَى، فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا، لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ، قَالَ: نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا، ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ".
ہم کو یحییٰ بن بکیر نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی ہم کو لیث نے خبر دی، لیث عقیل سے روایت کرتے ہیں۔ عقیل ابن شہاب سے، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور اچھے سچے پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا۔ پھر من جانب قدرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہائی پسند ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا میں خلوت نشینی اختیار فرمائی اور کئی کئی دن اور رات وہاں مسلسل عبادت اور یاد الٰہی و ذکر و فکر میں مشغول رہتے۔ جب تک گھر آنے کو دل نہ چاہتا توشہ ہمراہ لیے ہوئے وہاں رہتے۔ توشہ ختم ہونے پر ہی اہلیہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے اور کچھ توشہ ہمراہ لے کر پھر وہاں جا کر خلوت گزیں ہو جاتے، یہی طریقہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حق منکشف ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا ہی میں قیام پذیر تھے کہ اچانک جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے محمد! پڑھو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے بھینچا کہ میری طاقت جواب دے گئی، پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو، میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس فرشتے نے مجھ کو نہایت ہی زور سے بھینچا کہ مجھ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی، پھر اس نے کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے تیسری بار مجھ کو پکڑا اور تیسری مرتبہ پھر مجھ کو بھینچا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ پڑھو اپنے رب کے نام کی مدد سے جس نے پیدا کیا اور انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا، پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے۔ پس یہی آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام سے سن کر اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمبل اڑھا دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈر جاتا رہا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا اور فرمانے لگے کہ مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھارس بندھائی اور کہا کہ آپ کا خیال صحیح نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا۔ پھر مزید تسلی کے لیے خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو ان کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے، چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ (انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی پھر اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں ہوا۔ ورقہ اسی کو لکھتے تھے) وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی رخصت ہو چکی تھی۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کیے اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی! اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجیئے وہ بولے کہ بھتیجے آپ نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کی تفصیل سناؤ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از اول تا آخر پورا واقعہ سنایا، جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ تو وہی ناموس (معزز راز دان فرشتہ) ہے جسے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش، میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ (حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین و مقبول ہوں) ورقہ بولا ہاں یہ سب کچھ سچ ہے۔ مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے ہیں۔ اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا۔ مگر ورقہ کچھ دنوں کے بعد انتقال کر گئے۔ پھر کچھ عرصہ تک وحی کی آمد موقوف رہی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3 کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3
� لغوی توضیح:
«مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ» صبح کی روشنی کی مانند۔
«غَارِ حِرَاءٍ» حراء پہاڑ مکہ سے تین میل کے فاصلے پر ہے۔ اس میں ایک سوراخ ہے جسے غار حراء کہا جاتا ہے۔
«يَتَزَوَّدُ» زاد راہ یعنی توشہ لینا۔
«جَاءَهُ الْحَقُّ» حتی کہ آپ کے پاس حق یعنی وحی آ گئی۔
«غَطَّنِیْ» مجھے اپنے ساتھ ملا کر خوب زور سے دبایا۔
«الْعَلَقَ» جامد خون۔
«یَرجُفُ» کانپ رہا تھا۔
«زَمُّلُوْنِیْ» مجھے چادر اوڑھا دو۔
«الرَّوْعُ» گھبراہٹ۔
«تَحْمِلُ الْکَلَّ» بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
«تَکْسِبُ الْمَعْدُمَ» مفلس، محتاج اور کام سے عاجز لاگوں کو کما کر دیتے ہیں۔
«تَقْرِِئ الضَّیْفَ» مہمان نوازی کرتے ہیں۔
«تَنَصَّرَ» عیسائی مذہب قبول کر لیا۔
«النَّامُوْسُ» خیر کا رازداں مراد جبرئیل علیہ السلام ہیں۔
«مُؤَزَّراً» قوی، شدید، زیادہ۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 99
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3
حدیث حاشیہ:
1۔
اچھے اور سچے خواب نبوت کا حصہ ہیں۔
وحی الٰہی سے مشرف اور مانوس کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ عرصے تک سچے خواب دکھائے گئے، چنانچہ آپ جو خواب بھی دیکھتے عالم شہادت، یعنی دنیا میں اس کا ظہور بلا کم وکاست ہوجاتا تھا۔
اس طرح آپ کا رابطہ عالمِ مثال سے کرا دیا گیا جو عالم غیب، یعنی منبع وحی سے تعلق کا پیش خیمہ ثابت ہوا، گویا سچے خوابوں کے ذریعے حقائق نبوت سے آپ کو آگہی کرادی گئی۔
2۔
خواب میں ہم مادی امور سے ایک حد تک قطع تعلق ہوجاتے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے خوابوں کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بیداری میں بھی خلوت گزینی محبوب بنادی، چنانچہ غارحرا کاانتخاب اسی روحانی تربیت کانتیجہ تھا۔
3۔
عرصہ وحی 23 برس پر محیط ہے۔
ان میں چھ ماہ سچے خوابوں پر مشتمل ہیں، غالباً اسی لیے حدیث میں سچے خوابوں کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ قراردیا گیا ہے۔
(صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 6989)
لیکن حصہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوئی آدمی محض رؤیائے صادقہ کے بل بوتے پر نبی بن جائے، جیسے اذان کے کسی کلمے کو بآواز بلند کہنے والے کو مؤذن نہیں کہا جا سکتا اسی طرح ضروری نہیں کہ ہر سچے خواب دیکھنے والا نبی ہو۔
اس کے علاوہ بعض روایات میں وضاحت ہے کہ نبوت ورسالت ختم ہوچکی ہے۔
میرے بعد کوئی نبی یارسول نہیں آئے گا، البتہ مبشرات، یعنی رؤیائے صادقہ باقی ہیں۔
(جامع الترمذي، الرؤیا، حدیث: 2272، ومسند الإمام احمد: 267/3 والخبر صحیح.)
اس سے معلوم ہوا کہ نبوت اور چیز ہے اور مبشرات چیزے دیگر است۔
4۔
اس روایت میں کچھ اختصار ہے۔
صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں [تَصدُقُ الحَديثَ] کے الفاظ بھی ہیں، یعنی آپ گفتار میں سچے ہیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کے متعلق اپنے پاکیزہ خیالات کا اظہار کرکے آپ کے اخلاق فاضلہ کی بہترین تصویر کشی فرمائی ہے۔
یقیناً یہ چھ خصلتیں مکارم اخلاق کی بنیاد ہیں اور ان کا حامل انسان معاشرے میں باعزت اور اس کامستقبل انتہائی تابناک ہوتا ہے۔
5۔
ناموس وحی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین دفعہ بھینچا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بھینچنے سے عموماً جذبات برانگیختہ ہوتے اورخفیہ قوتیں جاگ اٹھتی ہیں، غالباً اسی بنا پر آپ کو بھینچا گیا کہ آپ کے قوائے نبوت بیدار ہوجائیں اورآپ پوری یکسوئی سے وحی الٰہی کی سماعت فرمائیں۔
یا اس وجہ سے کہ سینے سے لگا کر بھینچنے سے باہم موانست پیدا ہوتی ہے اوروحشت وبیگانگی کافور ہوجاتی ہے۔
6۔
وحی کے موقوف ہونے کے زمانے میں صرف نزول قرآن موقوف ہواتھا، تاہم جبرئیل علیہ السلام کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رابطہ منقطع نہیں ہواتھا، چنانچہ جب آپ توقف وحی سے پریشان ہوئے تو جبرئیل علیہ السلام نے بار بار تسلی دی اور آپ کو نبی برحق ہونے کا مژدہ جانفزا سنایا۔
(صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 6982)
7۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ انسان جب کسی اہم حادثے سے دو چار ہوتو کسی قابل اعتماد ساتھی، خواہ وہ خاتون خانہ ہی ہو، سے اس کا ذکر کرے، اور مخلص ساتھی کو بھی چاہیے کہ وہ حوصلہ افزائی اور تسلی کا انداز اپنائے تاکہ حادثے سے دوچار شخص کے دل سے خوف اور گھبراہٹ کے اثرات دور ہوجائیں۔
علاوہ ازیں ایسے موقع پر کسی تجربہ کار اور سمجھ دابزرگ سے رابطہ کرنا مفید ہے تاکہ وہ صحیح مشورہ دے سکے۔
(فتح الباري: 1؍25)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3