Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
3M. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ} إِلَى آخِرِ السُّورَةِ:
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان ”بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو ڈرا، اس سے پہلے کہ ان پر ایک درد ناک عذاب آ جائے“ آخر سورت تک۔
حدیث نمبر: 3339
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَجِيءُ نُوحٌ وَأُمَّتُهُ، فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: هَلْ بَلَّغْتَ؟، فَيَقُولُ: نَعَمْ أَيْ رَبِّ، فَيَقُولُ لِأُمَّتِهِ: هَلْ بَلَّغَكُمْ؟، فَيَقُولُونَ: لَا مَا جَاءَنَا مِنْ نَبِيٍّ، فَيَقُولُ: لِنُوحٍ مَنْ يَشْهَدُ لَكَ؟، فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمَّتُهُ فَنَشْهَدُ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ وَهُوَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ سورة البقرة آية 143 وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (قیامت کے دن) نوح علیہ السلام بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا، کیا (میرا پیغام) تم نے پہنچا دیا تھا؟ نوح علیہ السلام عرض کریں گے میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا۔ اے رب العزت! اب اللہ تعالیٰ ان کی امت سے دریافت فرمائے گا، کیا (نوح علیہ السلام نے) تم تک میرا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ جواب دیں گے نہیں، ہمارے پاس تیرا کوئی نبی نہیں آیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نوح علیہ السلام سے دریافت فرمائے گا، اس کے لیے آپ کی طرف سے کوئی گواہی بھی دے سکتا ہے؟ وہ عرض کریں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت (کے لوگ میرے گواہ ہیں) چنانچہ ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا پیغام اپنی قوم تک پہنچایا تھا اور یہی مفہوم اللہ جل ذکرہ کے اس ارشاد کا ہے «وكذلك جعلناكم أمة وسطا لتكونوا شهداء على الناس‏» اور اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ‘ تاکہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ اور «وسط» کے معنی درمیانی کے ہیں۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3339 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3339  
حدیث حاشیہ:

قرآن کریم میں ہے۔
آج ہم ان کی زبانوں پر مہر لگادیں گے تاکہ وہ بات نہ کر سکیں۔
(یٰس 36۔
65)

سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ان کی زبان بندی ہوگی تو وہ اللہ کے حضور کلام کیسے کریں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قیامت کے دن لوگ کئی قسم کے حالات سے دوچار ہوں گے۔
ایک وقت ایسا ہوگا کہ وہ باتیں کریں گے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ ان کی زبانوں پر مہر لگا دی جائے گی اور ان کے اعضاء ان کے خلاف گواہی دے گے۔

اس حدیث میں بھی حضرت نوح ؑ کا ذکر خیر ہے لہٰذا اسے مذکورہ عنوان کے تحت ذکر کیا گیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3339   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2961  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «وكذلك جعلناكم أمة وسطا» ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے (البقرہ: ۱۴۳) کے سلسلے میں فرمایا: «وسط» سے مراد عدل ہے (یعنی انصاف پسند)۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2961]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے (البقرۃ: 143)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2961   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2961  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «وكذلك جعلناكم أمة وسطا» ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے (البقرہ: ۱۴۳) کے سلسلے میں فرمایا: «وسط» سے مراد عدل ہے (یعنی انصاف پسند)۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2961]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے (البقرۃ: 143)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2961   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4487  
4487. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن حضرت نوح ؑ کو بلایا جائے گا تو وہ عرض کریں گے: پروردگار! میں حاضر ہوں۔ آپ کا جو ارشاد ہو میں اسے بجا لانے کے لیے تیار ہوں۔ پروردگار فرمائے گا: کیا تم نے لوگوں کو ہمارے احکام بتا دیے تھے؟ وہ کہیں گے: ہاں۔ پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا: کیا انہوں نے تمہیں میرا حکم پہنچایا تھا؟ وہ کہیں گے: ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں۔ اللہ تعالٰی حضرت نوح ؑ سے فرمائے گا: تمہارا کوئی گواہ ہے؟ وہ عرض کریں گے: حضرت محمد ﷺ اور ان کی امت گواہ ہے۔ پھر اس امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ حضرت نوح ؑ نے اللہ کا پیغام پہنچایا تھا۔ اور پیغمبر ؑ تم پر گواہ بنیں گے۔ اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے: اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تمہارے لیے گواہی دے۔ آیت میں لفظ وسط۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4487]
حدیث حاشیہ:
یہ جملہ حدیث میں داخل ہے راوی کا کلام نہیں ہے۔
وسط کے معنی بہتر کے ہیں۔
عرب لوگ کہتے ہیں۔
فلان وسط في قومه۔
یعنی فلاں اپنی قوم میں سب سے بہتر آدمی ہے۔
ابو معاویہ کی روایت میں اتنازیادہ ہے کہ پر ور دگا ر پوچھے گا تم کو کیسے معلوم ہوا، وہ عرض کریں گے ہمارے رسول کریم ﷺ نے ہم کو خبر دی تھی کہ اگلے پیغمبروں نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ کے حکم پہنچا دئیے اور ان کی خبر سچی ہے۔
اس حدیث سے یہ قانون نکلا کہ اگر سنی ہوئی بات کا یقین ہوجا ئے تو اس کی گواہی دینا درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4487   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7349  
7349. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سیدنا نوح ؑ کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہاں، اے ہمارے رب! پھر ان کی امت سے سوال کیا جائے گا: کیا انہوں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ تو وہ جواب دیں گے: ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ (اے نوح!) تمہارے گواہ کون ہیں؟ وہ کہیں گے: حضرت محمد ﷺ اور ان کی امت میرے گواہ ہیں، پھر تمہیں لایا جائے گا اور تم لوگ (ان کے حق میں) گواہی دو گے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اسی طرح ہم نے تمہیں افضل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر حق کی گواہی اور رسول تم پر گواہ بنے۔ وسطاً سے مراد عدلاً ہے۔ جعفر بن عون نے سیدنا اعمش سے انہوں نے ابو صالح سے انہوں نے سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7349]
حدیث حاشیہ:
حالانکہ مسلمانوں نے حضرت نوح علیہ السلام کو دنیا میں نہیں دیکھا نہ ان کی امت واولں کو مگر یقین کے ساتھ گواہی دیں گے کیونکہ جو بات اللہ اور رسول کے فرمانے سے اور تواتر کے ساتھ سنی جائے وہ مثل دیکھی ہوئی بات کے یقینی ہوتی ہے اور دنیا میں بھی ایسی گواہی لی جاتی ہے۔
مثلاً ایک شخص کسی کا بیٹا ہو اور سب لوگوں میں مشہور ہو تو یہ گواہی دے سکتے ہیں کہ وہ فلاں شخص کا بیٹا ہے حالانکہ اس کو پیدا ہوتے وقت آنکھ سے نہیں دیکھا۔
اس آیت سے بعضوں نے یہ نکالا ہے کہ اجماع حجت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو امت عادلہ فرمایا اور یہ ممکن نہیں کہ ساری امت کا اجماع نا حق اور باطل پر ہو جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7349   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4487  
4487. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن حضرت نوح ؑ کو بلایا جائے گا تو وہ عرض کریں گے: پروردگار! میں حاضر ہوں۔ آپ کا جو ارشاد ہو میں اسے بجا لانے کے لیے تیار ہوں۔ پروردگار فرمائے گا: کیا تم نے لوگوں کو ہمارے احکام بتا دیے تھے؟ وہ کہیں گے: ہاں۔ پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا: کیا انہوں نے تمہیں میرا حکم پہنچایا تھا؟ وہ کہیں گے: ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں۔ اللہ تعالٰی حضرت نوح ؑ سے فرمائے گا: تمہارا کوئی گواہ ہے؟ وہ عرض کریں گے: حضرت محمد ﷺ اور ان کی امت گواہ ہے۔ پھر اس امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ حضرت نوح ؑ نے اللہ کا پیغام پہنچایا تھا۔ اور پیغمبر ؑ تم پر گواہ بنیں گے۔ اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے: اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تمہارے لیے گواہی دے۔ آیت میں لفظ وسط۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4487]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت سے دریافت کرے گا۔
"تمھیں اس بات کا علم کیسے ہوا۔
؟" وہ عرض کریں گے ہمیں رسول اللہ ﷺ نے خبر دی تھی کہ تمام رسولوں نے اپنی اپنی امت کو اللہ کا حکم پہنچا دیا تھا۔
ان کی خبر صحیح تھی۔
اس پر ہم نے حضرت نوح ؑ کی تصدیق کردی۔
(مسند أحمد: 58/3)

اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ گواہی کے لیے کسی چیز کا مشاہدہ ضروری نہیں بلکہ کسی امر کے متعلق علم و اطلاع ہو نا ہی کافی ہے وگرنہ اس مات کے لوگ حضرت نوح ؑ کے متعلق کیونکر گواہی دیں گے کہ وہ حق پر ہیں کیا یہ لوگ اس وقت وہاں موجود تھے؟ انھیں اس کا علم رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سے ہوا اور اس علم کی بنیاد پر انھوں نے گواہی دی۔

واضح رہے کہ وسط کے لغوی معنی تو درمیان کے ہیں لیکن یہ لفظ بہتر اور افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں اس کی وضاحت کی ہے یعنی جس طرح تمھیں سب سے بہتر قبلہ عطا کیا گیا ہے اسی طرح تمھیں تمام امتوں سے افضل بنایا گیا ہے۔
وسط کے ایک معنی اعتدال بھی کیے گئے ہیں یعنی تم معتدل اور افراط و تفریط سے پاک ہو۔
یہ معنی اسلامی تعلیمات کے اعتبار سے ہیں یعنی دینی معامالات میں نہ تو عیسائیوں کی طرح غلو کا شکار ہیں اور نہ یہودیوں کی طرح تقصیر ہی کے مرتکب ہیں۔
(فتح الباري: 217/8)
صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وسط کے یہ معنی مرفوع حدیث کا حصہ ہیں جیسا کہ کتاب الاعتصام میں وسطاً عدلاً کے الفاظ ہیں۔
(صحیح البخاري، الاعضام بالکتاب والسنة، حدیث: 7349)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4487   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7349  
7349. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سیدنا نوح ؑ کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہاں، اے ہمارے رب! پھر ان کی امت سے سوال کیا جائے گا: کیا انہوں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ تو وہ جواب دیں گے: ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ (اے نوح!) تمہارے گواہ کون ہیں؟ وہ کہیں گے: حضرت محمد ﷺ اور ان کی امت میرے گواہ ہیں، پھر تمہیں لایا جائے گا اور تم لوگ (ان کے حق میں) گواہی دو گے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اسی طرح ہم نے تمہیں افضل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر حق کی گواہی اور رسول تم پر گواہ بنے۔ وسطاً سے مراد عدلاً ہے۔ جعفر بن عون نے سیدنا اعمش سے انہوں نے ابو صالح سے انہوں نے سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7349]
حدیث حاشیہ:

ہم لوگوں نے حضرت نوح علیہ السلام یا ان کی امت کونہیں دیکھا مگرقیامت کے دن یقین کےساتھ گواہی دیں گے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی اُمت کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا تھا۔
ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے سے اس حقیقت کا پتا چلا ہے، جو بات تواتر کے ساتھ سنی جائے وہ دیکھی ہوئی چیز کی طرح ہوتی ہے اور اس کے متعلق گواہی بھی دی جا سکتی ہے۔
مثلاً:
ایک شخص کا بیٹا ہے اور سب لوگوں کو اس کا علم ہوتو وہ اس کے متعلق گواہی دے سکتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں کا بیٹا ہے، حالانکہ کسی نے اسے پیدا ہوتے ہوئے اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا۔

اس آیت کریمہ سے بعض حضرات نے حجیت اجماع کو ثابت کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو اُمت وَسَط، یعنی عدل پسند فرمایا ہے اور یہ ممکن نہیں کہ ساری اُمت کا اجماع کسی باطل یا ناحق چیز پر ہو جائے، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ آیت کریمہ میں اس امت مرحومہ کا وصف "وَسَط" بیان ہوا ہے۔
اس سے مراد ان کا عدل پسند ہونا ہے، اس لیے اہل جہالت اور اہل بدعت قطعاً اس وصف کے لائق نہیں ہیں تو معلوم ہوا کہ اس سے مراد حقیقی اہل سنت والجماعت کے لوگ (اہل حدیث)
ہیں اور وہ حقیقی علم شرعی کے حاملین ہیں۔

احادیث میں جماعت سے چمٹے رہنے کا حکم ہے۔
شارح صحیح بخاری ابن بطال نے کہا ہے کہ اس عنوان میں جماعت کو مضبوطی سے پکڑے رکھنے کی ترغیب ہے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 387/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7349