صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
2. بَابُ الأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ:
باب: روحوں کے جتھے ہیں جھنڈ کے جھنڈ۔
حدیث نمبر: 3336
قَالَ: قَالَ: اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ"، وَقَالَ: يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ بِهَذَا.
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ لیث بن سعد نے روایت کیا یحییٰ بن سعید انصاری سے، ان سے عمرہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے ”روحوں کے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی ان میں یہاں بھی محبت ہوتی ہے اور جو وہاں غیر تھیں یہاں بھی وہ خلاف رہتی ہیں۔“ اور یحییٰ بن ایوب نے بھی اس حدیث کو روایت کیا، کہا مجھ سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، آخر تک۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3336 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3336
حدیث حاشیہ:
کتاب الانبیاء کے شروع میں حضرت آدم ؑ کا ذکر ہوا۔
اس سلسلے میں مناسب تھا کہ آدمیت کے کچھ نیک و بد خصائل، اس کی فطرت پر روشنی ڈالی جائے، تاکہ آدمی کی فطرت پڑھنے والوں کے سامنے آسکے۔
اس لیے حضرت امام ؒ ان احادیث مذکورہ کو یہاں لائے۔
اب حدیث آدم ؑکے بعد حضرت نوح ؑ کا ذکر خیر شروع ہوتا ہے جن کو قرآن میں میں عبدشکور کے نام سے پکاراگیا ہے، آپ رقت قلب سے بکثرت رویا کرتے تھے، اسی لیے لفظ نوح سے مشہور ہوگئے۔
واللہ أعلم۔
روحیں عالم ازل میں لشکروں کی طرح یکجا تھیں جن روحوں میں وہاں باہمی تعارف ہوگیا ان سے دنیا میں بھی کسی نہ کسی دن ملاپ ہوہی جاتا ہے اور جن میں باہمی تعارف نہ ہوسکا وہ دنیا میں بھی باہمی طور پر میل نہیں کھاتی ہیں۔
اس کے تحت ہمارے محترم مولانا وحیدالزماں صاحب مرحوم نے شرح وحیدی میں ایک مفصل نوٹ تحریر فرمایا ہے جو قارئین کرام کے لیے دلچسپی کا موجب ہوگا۔
مولانا فرماتے ہیں:
”بغیر مناسبت روحانی کے محبت ہو ہی نہیں سکتی، ایک بزرگ کا قول ہے اگر مومن ایسی مجلس میں جائے جہاں سو منافق بیٹھے ہوں اور ایک مومن ہو تو وہ مومن ہی کے پاس بیٹھے گا اور اگر منافق اسی مجلس میں جائے جہاں سو مومن ہوں اور ایک منافق ہو تو اس کی تسلی منافق ہی کے پاس سے ہوگی۔
اسی مضمون میں ایک شاعر نے کہا:
کندہم جنس باہم جنس پرواز، کبوتر باکبوتر باز با باز‘ (وحیدی)
دلی دوستی جو خالصاً للہ بلا غرض ہوتی ہے بغیر اتحاد روحانی کے نہیں ہوسکتی۔
ایک بدعتی کبھی کسی موحد متبع سنت کا دوست اور اسی طرح سخت قسم کا مقلد اہل حدیث کا ہوا خواہ نہیں ہوسکتا۔
ایک مجلس میں اتفاق سے ایک مولوی صاحب جو جہمیہ کے ہم مشرب ہیں مجھ سے ملے اور ایک بے عمل جاہل شخص سے کہنے لگے ہم میں اور تم میں الأرواح جنود مجندة اسی حدیث کی رو سے اتحاد ہے میں نے ان کا دل لینے کو کہا کیا ہم کو آپ کے ساتھ یہ اتحاد نہیں ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔
مجھ کو ان کی سچائی پر تعجب ہوا۔
واقعی جہمی اور اہل حدیث میں کسی طرح اتحاد نہیں ہوسکتا۔
جس دن سے یہ صحیح بخاری مترجم چھپنا شروع ہوئی ہے کیا کہوں بعض لوگوں کے دل پر سانپ لوٹتا ہے اور حدیث کی کتاب اس عمدگی کے ساتھ طبع ہونے سے دیکھ کر آپ ہی آپ جلے مرتے ہیں۔
اتحاد اور اختلاف روحانی کا اثر اسی سے معلوم کرلینا چاہئے حالانکہ اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں مگر حدیث شریف کی اشاعت ناپسند کرتے ہیں۔
اور ناچیز مترجم پر جھوٹے اتہام دھرکر یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح یہ ترجمہ ناتمام رہ جائے۔
﴿وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ﴾ (الصف: 8) (وحیدی)
حضرت مولانا وحیدالزماں مرحوم نے اپنے زمانے کے حاسدوں کا یہ حال لکھا ہے۔
مگر آج کل بھی معاملہ تقریباً ایسا ہی ہے۔
جو ناچیز (محمد ادؤد راز)
کے سامنے آرہا ہے۔
کتنے حاسدین اشاعت بخاری شریف مترجم اردو کا عظیم کام دیکھ کر حسد کی آگ میں جلے جارہے ہیں۔
اللہ پاک ان کے حسدسے محفوظ رکھے اور اس خدمت کو پورا کرائے۔
آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3336
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3336
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کا سبب ورودبیان ہوا ہے کہ مکہ مکرمہ میں ایک خوش طبع عورت تھی جب وہ مدینہ طیبہ آئی تو اس نے ایک ہنس مکھ عورت کے ہاں قیام کیا۔
جب حضرت عائشہ ؓ کو اس کا علم ہوا تو انھوں نے فرمایا:
”میرے محبوب نے سچ فرمایا تھا۔
اس کے بعد انھوں نے یہ حدیث بیان کی۔
“ (مسند أبي یعلیٰ7/344، طبع درالمامون للتراث دمشق)
2۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب روحوں کو پیدا کیا گیا تو وہ ایک دوسرے کے سامنے ائیں اور ایک دوسرے سے محبت کرنے لگیں۔
یا انھوں نے نفرت کا اظہار کیا۔
جب یہی روحیں جسموں سے مرکب ہوئیں تو ابتدائی خلقت کے اعتبار سے آپس میں محبت یا نفرت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ نیک آدمی نیکوں کو پسندکرتا ہے اور ان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے اور شریر انسان بروں سے محبت کرتا ہے اور ان کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔
3۔
اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ روحوں کی ابتدا جسموں سے پہلے ہے۔
4۔
کتاب الانبیاء سے اس عنوان کی مناسبت یہ ہے کہ حضرات انبیاء ؑ اور ان کے متبعین میں مناسبت قدیمہ ہے۔
اسی قدیمی اور پرانی آشنائی کی وجہ سے یہ لوگ اپنے انبیاء ؑ سے مانوس ہوتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3336