Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
1M. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں) یہ فرمانا ”اے رسول! وہ وقت یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک (قوم کو) جانشین بنانے والا ہوں“۔
حدیث نمبر: 3329
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا الْفَزَارِيُّ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَلَغَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ مَقْدَمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَأَتَاهُ، فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ، قَالَ: مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ وَمَا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ وَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ يَنْزِعُ الْوَلَدُ إِلَى أَبِيهِ وَمِنْ أَيِّ شَيْءٍ يَنْزِعُ إِلَى أَخْوَالِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَبَّرَنِي بِهِنَّ آنِفًا جِبْرِيلُ قَالَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ ذَاكَ عَدُوُّ الْيَهُودِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُ النَّاسَ مِنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ حُوتٍ وَأَمَّا الشَّبَهُ فِي الْوَلَدِ، فَإِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَشِيَ الْمَرْأَةَ فَسَبَقَهَا مَاؤُهُ كَانَ الشَّبَهُ لَهُ وَإِذَا سَبَقَ مَاؤُهَا كَانَ الشَّبَهُ لَهَا، قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ إِنْ عَلِمُوا بِإِسْلَامِي قَبْلَ أَنْ تَسْأَلَهُمْ بَهَتُونِي عِنْدَكَ فَجَاءَتْ الْيَهُودُ وَدَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ الْبَيْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ رَجُلٍ فِيكُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ، قَالُوا: أَعْلَمُنَا وَابْنُ أَعْلَمِنَا وَأَخْبَرُنَا وَابْنُ أَخْيَرِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ، قَالُوا: أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالُوا: شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا وَوَقَعُوا فِيهِ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو مروان فزاری نے خبر دی۔ انہیں حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے بارے میں پوچھوں گا۔ جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ قیامت کی سب سے پہلی علامت کیا ہے؟ وہ کون سا کھانا ہے جو سب سے پہلے جنتیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے گا؟ اور کس چیز کی وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے ابھی ابھی مجھے آ کر اس کی خبر دی ہے۔ اس پر عبداللہ نے کہا کہ ملائکہ میں تو یہی تو یہودیوں کے دشمن ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کی سب سے پہلی علامت ایک آگ کی صورت میں ظاہر ہو گی جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی، سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت کی دعوت کے لیے پیش کیا جائے گا، وہ مچھلی کی کلیجی پر جو ٹکڑا ٹکا رہتا ہے وہ ہو گا اور بچے کی مشابہت کا جہاں تک تعلق ہے تو جب مرد عورت کے قریب جاتا ہے اس وقت اگر مرد کی منی پہل کر جاتی ہے تو بچہ اسی کی شکل و صورت پر ہوتا ہے۔ اگر عورت کی منی پہل کر جاتی ہے تو پھر بچہ عورت کی شکل و صورت پر ہوتا ہے۔ (یہ سن کر) عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بول اٹھے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر عرض کیا، یا رسول اللہ! یہود انتہا کی جھوٹی قوم ہے۔ اگر آپ کے دریافت کرنے سے پہلے میرے اسلام قبول کرنے کے بارے میں انہیں علم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مجھ پر ہر طرح کی تہمتیں دھرنی شروع کر دیں گے۔ چنانچہ کچھ یہودی آئے اور عبداللہ رضی اللہ عنہ گھر کے اندر چھپ کر بیٹھ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تم لوگوں میں عبداللہ بن سلام کون صاحب ہیں؟ سارے یہودی کہنے لگے وہ ہم میں سب سے بڑے عالم اور سب سے بڑے عالم کے صاحب زادے ہیں۔ ہم میں سب سے زیادہ بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے صاحب زادے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، اگر عبداللہ مسلمان ہو جائیں تو پھر تمہارا کیا خیال ہو گا؟ انہوں نے کہا، اللہ تعالیٰ انہیں اس سے محفوظ رکھے۔ اتنے میں عبداللہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور کہا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اب وہ سب ان کے متعلق کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بدترین اور سب سے بدترین کا بیٹا ہے، وہیں وہ ان کی برائی کرنے لگے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3329 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3329  
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن سلام ؓ یہود کے بڑے عالم تھے جو آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر فوراً ہی صداقت محمدی کے قائل ہوگئے اور اسلام قبول کرلیا تھا۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
یہ جو بعض لوگ نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سلام نے آنحضرت ﷺ سے ہزار سوال کئے تھے، یہ غلط ہے اسی طرح ہزار مسئلہ کا رسالہ بھی مصنوعی ہے۔
تعجب ہے کہ مسلمان ایسے جھوٹے رسالوں کو پڑھیں اورحدیث کی صحیح کتابیں نہ دیکھیں۔
اسی طرح صبح کا ستارہ، وقائق الاخبار اور منبہات اور دلائل الخیرات کی اکثر روایتیں موضوع ہیں۔
آگ سے متعلق ایک روایت یوں ہے کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک حجاز میں ایک ایسی آگ نہ نکلے جس کی روشنی بصریٰ کے اونٹوں کی گردنوں کو روشن نہ کرے۔
یہ روایت صحیح مسلم اور حاکم میں ہے۔
امام نووی ؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ آگ ہمارے زمانے 654ھ میں مدینہ میں ظاہر ہوئی اور آگ اس قدر بڑی تھی کہ مدینہ کے مشرقی پہلو سے لے کر پہاڑی تک پھیلی ہوئی تھی، اس کا حال شام اور تمام شہروں میں بتواتر معلوم ہوا اور ہم سے اس شخص نے بیان کیا جو اس وقت مدینہ میں موجود تھا۔
ابوشامہ ایک معاصر مصنف کا بیان ہے کہ ہمارے پاس مدینہ سے خطوط آئے جن میں لکھا تھا کہ چہار شنبہ کی رات کو 3جمادی الثانی میں مدینہ میں ایک سخت دھماکہ ہوا، پھر بڑا زلزلہ آیا جو ساعت بہ ساعت بڑھتا رہا۔
یہاں تک کہ پانچویں تاریخ کو بہت بڑی آگ پہاڑی میں قريظہ کے محلہ کے قریب نمودار ہوئی، جس کو ہم مدینہ کے اندر اپنے گھروں سے اس طرح دیکھتے تھے کہ گویا وہ ہمارے قریب ہی ہے۔
ہم اسے دیکھنے کو چڑھے تو دیکھا کہ پہاڑ آگ بن کر بہہ رہے ہیں اور ادھر ادھر شعلے بن کر جارہے ہیں۔
آگ کے شعلے پہاڑ معلوم ہورہے تھے۔
محلوں کے برابر چنگاریاں اڑرہی تھیں۔
یہاں تک کہ یہ آگ مکہ مکرمہ اور صحرا سے بھی نظرآتی تھی، یہ حالت ایک ماہ سے زیادہ رہی (تاریخ الخلفاءبحوالہ ابوشامہ واقعات654ھ)
علامہ ذہبی ؒ نے بھی اس آگ کا ذکر کیا ہے (مختصر تاریخ الإسلام ذہبي، جلد: 2ص: 121، حیدرآباد)
حافظ سیوطی لکھتے ہیں کہ بہت سے لوگوں سے جو بصریٰ میں اس وقت موجود تھے یہ شہادت منقول ہے کہ انہوں نے رات کو اس کی روشنی میں بصریٰ کے اونٹوں کی گردنیں دیکھیں۔
(تاریخ الخلفاءسیوطی، 654، خلاصہ از سیرت النبی، جلد: 3، ص: 712)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3329   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3329  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒنے اس حدیث کو تخلیق اولاد آدم کی بنیاد ثابت کرنے کے لیے بیان کیا ہے۔
حضرت عائشہ ؓسے مروی ایک حدیث میں ہے۔
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آجائے تو بچے کی مشابہت ماموؤں سے ہوتی ہے اور جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آجائے تو بچے کی شکل و صورت چچاؤں سے ملتی جلتی ہے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 715۔
(313)
ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ آدمی کا پانی گاڑھا سفید ہوتا ہے جبکہ عورت کا پانی پتلا زرد ہوتا ہے۔
ان میں سے جو بھی غالب آجائے اس سے بچے کی مشابہت ہو جاتی ہے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 710۔
(311)

ان روایات میں "علو"سے مراد سبقت ہے یعنی شکل وصورت کی بنیاد رحم مادر میں پانی کا پہلے پہنچنا ہے البتہ حضرت ثوبان ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اگر آدمی کی منی عورت کی منی پر غالب آجائے تو اللہ کے حکم سے نرپیدا ہوتا ہے اور اگر عورت کا نطفہ مرد کے نطفے پر غلبہ پالے تو اللہ کے حکم سے لڑکی پیدا ہوتی ہے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 716۔
(315)
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ پانی کی سبقت سے شکل و صورت اور اس کے غلبے سے نر مادہ ہوتا ہے اس طرح چھ صورتیں ہمارےسامنے آتی ہیں۔
رحم مادر میں آدمی کا پانی پہلے نیچے پہنچے اور وہی غالب بھی آجائے تو لڑکا جو اپنے دوھیال کے مشابہ ہوگا۔
رحم مادر میں عورت کا پانی سبقت کرے اور وہی غالب بھی آئے تو لڑکی جو اپنے ننھیال سے ملتی جلتی ہوگی۔
رحم مادر میں آدمی کا پانی پہلے پہنچے لیکن غلبہ عورت کے پانی کو ہو تو لڑکی جو دوھیال کے مشابہ ہوگی۔
رحم مادر میں عورت کا پانی سبقت کرے لیکن غالب مرد کا پانی آئے تو لڑکا جو ننھیال سے ملتا جلتا ہوگا۔
رحم مادرمیں آدمی کا پانی پہلے جائےلیکن کسی کو غلبہ نہ ملے تو شکل وصورت دوھیال کی لیکن اس کا نر و مادہ واضح نہیں ہوگا۔
رحم مادر میں عورت کا پانی پہلے پہنچ جائے لیکن غلبہ کسی کو نہ ہوتو شکل و صورت ننھیال کی لیکن اس کا مذکر و مؤنث ہونا واضح نہ ہوگا۔
(فتح الباري: 342/7)
شاید آخری دو سورتیں تیسری مخلوق (یجڑے)
پیدا ہونے کا باعث ہوں یا مستورالاعضاء بچے پیدا ہونے کا سبب ہوں جن کے آپریشن کے ذریعے سے اعضائے تناسلی ظاہر کیے جاتے ہیں۔
اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3329   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 200  
´مرد اور عورت کی منی میں فرق کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مرد کی منی گاڑھی اور سفید ہوتی ہے، اور عورت کی منی پتلی زرد ہوتی ہے، تو دونوں میں جس کی منی سبقت کر جائے ۱؎ بچہ اسی کی ہم شکل ہوتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 200]
200۔ اردو حاشیہ: جماع سے مرد اور عورت کی منی مل جاتی ہے۔ منی دراصل جراثیم کا مجموعہ ہوتا ہے، جس منی کے جرثومے قوی ہوں گے، وہ دوسری پر غالب آ جائے گی اور بچے کی مشابہت اس سے ہو گی۔ بعض نے «سَبَقَ» کے معنی پہلے نکلنا بھی کیے ہیں۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 200   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3938  
3938. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کو خبر ملی کہ نبی ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لے آئے ہیں تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چند ایک چیزوں کے بارے میں پوچھا، چنانچہ انہوں نے کہا: میں آپ سے تین چیزوں کے متعلق دریافت کرتا ہوں جنہیں صرف نبی ہی جانتا ہے: قیامت کی پہلی علامت کیا ہے؟ پہلا کھانا جو اہل جنت تناول کریں گے وہ کیا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ بچہ کبھی باپ سے مشابہ ہوتا ہے اور کبھی ماں کی شکل و صورت پر ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے ابھی ابھی ان باتوں کی حضرت جبریل ؑ نے خبر دی ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے عرض کیا: فرشتوں میں وہ تو یہودیوں کا دشمن ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کی پہلی علامت آگ ہے جو لوگوں کو مشرق سے مغرب تک ہانک کر لائے گی۔ پہلا کھانا جو جنتی تناول کریں گے وہ مچھلی کے جگر کا بڑھا ہوا ٹکڑا ہو گا (جو نہایت لذیذ اور جلد ہضم ہونے والا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3938]
حدیث حاشیہ:
کہ یہودی جب میرے اسلام کا حال سنیں گے تو پہلے ہی برا کہیں گے تو آپ نے سن لیا ان کی بے ایمانی معلوم ہو گئی پہلے تو تعریف کی جب اپنے مطلب کے خلاف ہوا تو لگے برائی کرنے۔
بے ایمانوں کا یہی شیوہ ہے جو شخص ان کے مشرب کے خلاف ہو وہ کتنا عالم فاضل صاحب ہنر اچھا شخص ہو لیکن اس کی برائی کرتے ہیں۔
اب تو ہر جگہ یہ آفت پھیل گئی ہے کہ اگر کوئی عالم فاضل شخص علمائے سوء کا ایک مسئلہ میں اختلاف کرے تو بس اس کے سارے فضائل اور کمالات کو ایک طرف ڈال کر اس کے دشمن بن جاتے ہیں جو ادبار وتنزل کی نشانی ہے۔
اکثر فقہی متعصب علماء بھی اس مرض میں گرفتار ہیں۔
إلا ما شاء اللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3938   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3938  
3938. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کو خبر ملی کہ نبی ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لے آئے ہیں تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چند ایک چیزوں کے بارے میں پوچھا، چنانچہ انہوں نے کہا: میں آپ سے تین چیزوں کے متعلق دریافت کرتا ہوں جنہیں صرف نبی ہی جانتا ہے: قیامت کی پہلی علامت کیا ہے؟ پہلا کھانا جو اہل جنت تناول کریں گے وہ کیا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ بچہ کبھی باپ سے مشابہ ہوتا ہے اور کبھی ماں کی شکل و صورت پر ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے ابھی ابھی ان باتوں کی حضرت جبریل ؑ نے خبر دی ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے عرض کیا: فرشتوں میں وہ تو یہودیوں کا دشمن ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کی پہلی علامت آگ ہے جو لوگوں کو مشرق سے مغرب تک ہانک کر لائے گی۔ پہلا کھانا جو جنتی تناول کریں گے وہ مچھلی کے جگر کا بڑھا ہوا ٹکڑا ہو گا (جو نہایت لذیذ اور جلد ہضم ہونے والا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3938]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں قوم یہود کی ایک عادت بیان ہوئی ہے کہ جب وہ اپنے خلاف کسی سے کوئی بات سنتے ہیں تو اس کے خلاف بدزبانی کرناشروع کردیتے ہیں۔
بدکردار لوگوں کا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ جو شخص ان کے مزاج کے خلاف ہو، خواہ وہ کتنا بڑا عالم کیوں نہ ہو وہ اس کی بُرائی کریں گے۔
علماء سوء کا بھی یہی حال ہے کہ اگر کوئی عالم فاضل ان کے اختیار کردہ کسی مؤقف سے اختلاف کرے تو اس کے سب فضائل وکمالات ایک طرف ڈال کر اس کے دشمن بن جاتے ہیں۔
اکثر فقہی متعصب علماء اس مرض میں گرفتار ہیں۔

چونکہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کاذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیان فرمایا ہے۔

حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ مچھلی کا جگر انتہائی لذیذ اور بہترین کھانا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ اہل جنت کی جنت میں پہلے اس کھانے سے ضیافت فرمائے گا۔
حضرت ثوبان ؓ کی حدیث میں ہے کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو ان کا ناشتہ مچھلی کے جگر سے ہوگا اورچشمہ سلسبیل سے جام بھر بھر کر انھیں پلائے جائیں گے۔
(المعجم الکبیر للطبراني: 93/2، وفتح الباري: 341/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3938