Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
17. بَابُ إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي شَرَابِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْمِسْهُ، فَإِنَّ فِي إِحْدَى جَنَاحَيْهِ دَاءً وَفِي الأُخْرَى شِفَاءً:
باب: اس حدیث کا بیان جب مکھی پانی یا کھانے میں گر جائے تو اس کو ڈبو دے کیونکہ اس کے ایک پر میں بیماری ہوتی ہے اور دوسرے میں شفاء ہوتی ہے۔
حدیث نمبر: 3323
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مارنے کا حکم فرمایا ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3323 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3323  
حدیث حاشیہ:
شکار کے لیے یا گھر بار کی رکھوالی کے لیے کتے پالنے کی اجازت دی گئی ہے۔
پاگل یا جو کتے انسانوں کے دشمن ہوں اور کاٹنے کے لیے دوڑتے ہوں انہیں مارنے کا آپ نے حکم دیا ہے آپ کی مراد تمام کتوں سے نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3323   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3323  
حدیث حاشیہ:
باؤلے کتے اور سیاہ کتے کو مارنے پر اتفاق ہے دوسرے کتوں کو مارنے کاآپ نے حکم دیا تھا لیکن بعد میں منع کردیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3323   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 582  
ط´کالے کتے کو قتل کرنا جائز ہے`
«. . . 257- وبه: من رواية أحمد وحده: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بقتل الكلاب. . . .»
. . . اور صرف (ابو جعفر) احمد (ابن ابی سلیمان: راوی کتاب) کی روایت کے ساتھ اسی سند سے (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے قتل کا حکم دیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 582]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 3323، ومسلم 43/1570، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں شکاری، جانوروں کی حفاظت والے اور زمین کی رکھوالی والے کتوں کے علاوہ عام کتوں کے قتل کا حکم دیا تھا، پھر آپ نے اس حکم کو منسوخ فرماتے ہوئے کتوں کے قتل سے منع کردیا۔ دیکھئے [صحيح مسلم 1572، دارالسلام: 4020]
لیکن واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کالے کتے کو شیطان قرار دیا ہے بالخصوص جن کی آنکھوں پر دو نقطے ہوں اور انھیں مارنے کا حکم برقرار ہے، منسوخ نہیں ہوا۔ دیکھئے [صحيح مسلم 1572، سنن ابي داود 2846، وسنده صحيح]
سیدنا ابن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے بعد میں شکاری، جانوروں اور زمین کی رکھوالی کے لئے کتے رکھنے کی اجازت دے دی تھی۔ دیکھئے [صحيح مسلم 1573، دارالسلام: 4021، 4022]
لہٰذا کتوں کے قتل والا حکم منسوخ ہے۔
➋ کتا نجس ہے۔ ➌ دینِ اسلام کے ہر حکم میں لوگوں کی اصلاح اور خیر خواہی مطلوب ہے۔
➍ مسلمان کو تکلیف دینا حرام ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 257   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4282  
´کتوں کو مار ڈالنے کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا سوائے ان (کتوں) کے جو اس حکم سے مستثنی (الگ) ہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4282]
اردو حاشہ:
مستثنیٰ کتوں کا ذکر آئندہ حدیث میں آ رہا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4282   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3203  
´شکاری یا کھیت کی رکھوالی کرنے والے کتوں کے علاوہ دوسرے کتوں کو قتل کرنے کا حکم۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند آواز سے کتوں کے قتل کا حکم فرماتے ہوئے سنا: اور کتے قتل کئیے جاتے تھے بجز شکاری اور ریوڑ کے کتوں کے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3203]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حلال جانوروں کا شکار کرنا جائز ہے۔

(2)
  شکار میں کتوں سے مدد لینا جائز ہے۔

(3)
جائز مقصد کے لیے کتے پالنا جائز ہے۔

(4)
احادیث میں دو جائز مقصد مذکور ہیں:

شکار کرنا۔

کھیت، باغ یا مویشیوں کی حفاظت۔

بعد میں کتوں کے جائز استعمال کی اور بھی صورتیں سامنے آئی ہیں مثلاً:
مجرموں کا کھوج لگانا یا نابینا آدمی کی رہنمائی کرنا وغیرہ۔
اگر مستقل میں جائز مقصد کےلیے کوئی اور فائدہ بھی سامنے آیا تو اس مقصد کےلیے بھی کتا پالنا شرعاً جائز ہو گا۔

(5)
  محض دل لگی کے لیے شوق کے طور پر کتے پالنا اور گھروں میں رکھنا شرعاً ممنوع ہے جیسے اگلے باب میں مذکور ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3203   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4018  
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیتے تھے، تو ہم مدینہ کے اندر اور اس کے اطراف میں آدمی بھیجتے اور ہم کوئی کتا قتل کیے بغیر نہ چھوڑتے، حتی کہ ہم کسی جنگلی عورت کے پیچھے آنے والا کتا بھی قتل کر دیتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4018]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
مرية:
مراة کی تصغیر ہے،
یعنی عورت۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4018   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4019  
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری کتے، بکریوں یا مویشیوں کی حفاظت کرنے والے کتے کے سوا کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا گیا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کھیت کی رکھوالی کرنے والے کتے کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں تو ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کھیت کا مالک ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4019]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
باؤلے یا کاٹنے والے کتے کو بالاتفاق قتل کر دیا جائے گا،
اور جو کتے بے ضرر ہیں،
ان کے قتل کرنے میں اختلاف ہے،
اور جو کتے مستثنیٰ ہیں،
ان کے استثناء پر اتفاق ہے،
چونکہ آغاز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کا عمومی حکم دیا تھا،
اس لیے امام مالک،
مستثنیٰ کتوں کے سوا سب کے قتل کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں،
اور دوسرے ائمہ قتل کے عمومی حکم کو منسوخ قرار دیتے ہیں،
جیسا کہ آگے آ رہا ہے،
اس لیے ان کے نزدیک بے ضرر کتوں کو قتل نہیں کیا جائے گا۔
امام احمد،
بعض شوافع،
حسن بصری اور ابراہیم نخعی کے نزدیک سیاہ کتے کا شکار بھی مکروہ ہے،
لیکن امام ابو حنیفہ یا امام مالک،
امام شافعی کے نزدیک جائز ہے۔
تنبیہ:
۔
اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا گیا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کھیت کی حفاظت کرنے والے کتے کا بھی استثناء کرتے ہیں،
تو انہوں نے جواب دیا،
(ان لابي هريرة زرعا)
کیونکہ ابو ہریرہ کا کھیت ہے،
اس سے بعض ملحدوں نے یہ مطلب نکالا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پر شک کا اظہار کیا،
اور نعوذ باللہ ان پر پھبتی کسی کہ یہ ٹکڑا ان کا تراشیدہ ہے،
حالانکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ ابو ہریرہ کا کھیت ہے،
اس لیے انہوں نے اس کا حکم بھی یاد رکھا،
کیونکہ انسان کو جس چیز سے واسطہ پڑتا رہتا ہے،
اس کا حکم بھی اس کو خوب یاد رہتا ہے،
نیز یہ حکم تو خود ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بھی بیان کرتے ہیں،
جیسا کہ آگے ان کی روایت آ رہی ہے،
اور یہ بات دوسرے صحابہ کی روایات میں بھی آ رہی ہے،
اس لیے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما،
حضرت ابو ہریرہ پر طنز کس طرح کر سکتے ہیں؟
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4019