Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
15. بَابُ خَيْرُ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ:
باب: مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہیں جن کو چرانے کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پھرتا رہے۔
حدیث نمبر: 3309
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" بِقَتْلِ الْأَبْتَرِ، وَقَالَ: إِنَّهُ يُصِيبُ الْبَصَرَ وَيُذْهِبُ الْحَبَلَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دم بریدہ سانپ کو مار ڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ آنکھوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور حمل کو ساقط کر دیتا ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3309 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3309  
حدیث حاشیہ:
یعنی ان میں زہریلا مادہ اتنا زود اثر ہے کہ اس کی تیز نگاہی اگر کسی کی آنکھ سے ٹکراجائے تو بصارت کے زائل ہونے کا خوف ہے۔
اسی طرح حاملہ عورتوں کا حمل ساقط کرنے کے لیے بھی ان کی تیز نگاہی خطرناک ہے۔
پھر زہر کس قدر مہلک ہوگا اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3309   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2834  
´چھپکلی مارنے کا بیان۔`
تابعی سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ ایک عورت ام المؤمنین عائشہ کے پاس آئی، اور ان کے ہاتھ میں لوہے کی پھلی لگی ہوئی لاٹھی تھی، اس عورت نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ کہا: یہ ان چھپکلیوں (کے مارنے) کے لیے ہے۔ اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی آگ کو اس جانور کے سوا سبھی جانور بجھاتے تھے اسی وجہ سے آپ نے ہمیں اسے مارنے کا حکم دیا ہے۔ اور گھروں میں رہنے والے سانپ کے مارنے سے روکا ہے سوائے دو دھاریوں والے، اور دم بریدہ سانپ کے کی [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2834]
اردو حاشہ:
(1) چھپکلی اور اس نوع کے دوسرے جانور زہریلے ہوتے ہیں۔ کسی کھانے پینے کی چیز میں گر جائیں تو اسے زہریلا کر دیتے ہیں حتیٰ کہ موت کا سبب بن جاتے ہیں، لہٰذا انھیں مارنا بھی جائز ہے۔ اگرچہ اس روایت میں محرم کی صراحت نہیں مگر ایذا کی علت کی بنا پر وہ بھی اسے قتل کر سکتا ہے۔
(2) آگ بجھانے میں یہ دلیل ہے کہ یہ جانور (چھپکلی) طبعاً انسان کے لیے موذی ہے ورنہ اسے کیا پتا تھا کہ یہ آگ کس کو جلانے والی ہے؟ یہ بھی یاد رہے کہ اسے قتل کرنے کی اجازت اس کے طبعی ایذا کی وجہ سے ہے، نہ اس لیے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ میں ممد تھی کیونکہ وہ تو ایک مخصوص چھپکلی کا فعل تھا۔ اس کی سزا پوری نسل کو تو نہیں دی جا سکتی، نیز اس کے لیے تو نبی اور کافر برابر ہیں۔ وہ تو ہر ایک کو ایذا پہنچائے گی۔
(3) چھپکلی میں اسی نوع کے اس سے بڑے جانور، مثلاً چلپاسہ، یعنی کرلا اور اس جیسے دوسرے موذی جانور بھی آجائیں گے۔
(4) گھروں میں رہنے والے باریک سانپ کیونکہ یہ عموماً گھر والوں کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ بچوں تک کو نہیں کاٹتے۔ ان کے بارے میں قتل نہ کرنے کا حکم اس بنا پر بھی ہے کہ شاید یہ جن کی کوئی قسم ہوں۔ اور جنوں کو مارنا جائز نہیں، نیز قتل کی وجہ ایذا ہے۔ جب وہ ہمیں کچھ نہیں کہتے تو ہم انھیں کیوں کچھ کہیں؟ گھروں میں رہنے والے بڑے سانپ بھی گھر والوں کو کچھ نہیں کہتے بلکہ وہ نوع انسانی سے کچھ مالوف ہو جاتے ہیں، البتہ آبادی سے باہر رہنے والے سانپ موذی ہیں، لہٰذا انھیں فوراً مار دینا چاہیے۔
(5) دودھاری  یہ بہت زہریلا ہوتا ہے۔ اس کی پشت پر یہ دو دھاریاں بھی زہر کی بنا پر ہی ہوتی ہیں۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اس کے ماتھے پر دو سیاہ نشان ہوتے ہیں وغیرہ۔
(6) چھوٹا سانپ جسم میں چھوٹا مگر سخت زہریلا۔ اچانک حملہ کرتا ہے اور جان سے مار دیتا ہے۔ بعض نے اس کے معنیٰ چھوٹی دم والا سانپ، کیے ہیں مگر سانپ کی الگ دم نہیں ہوتی۔ ویسے آخری حصے کو دم کہا جائے تو الگ بات ہے۔
(7) نظر ختم کرتے ہیں… الخ یعنی اگر یہ کاٹ لیں یا ان سے آنکھیں چار ہو جائیں تو نظر ختم ہو جاتی ہے اور عورت کا حمل گر جاتا ہے۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2834