صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
11. بَابُ صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ:
باب: ابلیس اور اس کی فوج کا بیان۔
حدیث نمبر: 3294
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ عُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسَاءٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُكَلِّمْنَهُ وَيَسْتَكْثِرْنَهُ عَالِيَةً أَصْوَاتُهُنَّ، فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ قُمْنَ يَبْتَدِرْنَ الْحِجَابَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ، فَقَالَ: عُمَرُ أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ، قَالَ عُمَرُ: فَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كُنْتَ أَحَقَّ أَنْ يَهَبْنَ، ثُمَّ قَالَ: أَيْ عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ أَتَهَبْنَنِي، وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْنَ: نَعَمْ أَنْتَ أَفَظُّ وَأَغْلَظُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ قَطُّ سَالِكًا فَجًّا إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبدالحمید بن عبدالرحمٰن بن زید نے خبر دی، انہیں محمد بن سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ) نے خبر دی اور ان سے ان کے والد سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہ ایک دفعہ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔ اس وقت چند قریشی عورتیں (خود آپ کی بیویاں) آپ کے پاس بیٹھی آپ سے گفتگو کر رہی تھیں اور آپ سے (خرچ میں) بڑھانے کا سوال کر رہی تھیں۔ خوب آواز بلند کر کے۔ لیکن جونہی عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی، وہ خواتین جلدی سے پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو ہنساتا رکھے۔ یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا کہ مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا ابھی ابھی میرے پاس تھیں، لیکن جب تمہاری آواز سنی تو پردے کے پیچھے جلدی سے بھاگ گئیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، لیکن آپ یا رسول اللہ! زیادہ اس کے مستحق تھے کہ آپ سے یہ ڈرتیں، پھر انہوں نے کہا: اے اپنی جانوں کے دشمنو! مجھ سے تو تم ڈرتی ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں۔ ازواج مطہرات بولیں کہ واقعہ یہی ہے کیونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برخلاف مزاج میں بہت سخت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شیطان بھی کہیں راستے میں تم سے مل جائے، تو جھٹ وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3294 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3294
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ شیطان حضرت عمر ؓکے سایہ سے بھاگتا ہے۔
رافضیوں نے اس حدیث کی صحت پر اعتراض کیا ہے جو سراسر جہالت اور نفسانیت پر مبنی ہے آنحضرت ﷺ بادشاہ وقت رحمۃ للعالمین تھے اور بادشاہوں کا رحم و کرم اس درجہ ہوتا ہے کہ بدمعاشوں کو بھی بادشاہ سے فضل و کرم کی توقع ہوتی ہے۔
حضرت عمرؓ کوتوال کی طرح تھے۔
کوتوال کا اصلی فرض یہی ہوتا ہے کہ بدمعاشوں اور ڈاکوؤں کو پکڑے اور بدمعاش جتنا کوتوال سے ڈرتے ہیں، اتنا بادشاہ سے نہیں ڈرتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3294
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3294
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حقیقت کے علاوہ حضرت عمر ؓ کی دوخصوصیات نمایاں تھیں جو حسب ذیل ہیں:
الف۔
آپ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے میں کسی ملامت سے نہیں ڈرتے تھے اور نہ اس کی پرواہی کرتے تھے۔
کتب حدیث میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں اور یہ عنوان تو مستقل تصنیف کا تقاضا کرتاہے۔
ب۔
آپ دینی معاملات میں بہت سخت تھے۔
ان دوخصوصیات کی بنا پر آپ کو اللہ کی طرف سے یہ اعزاز ملا کہ شیطان آپ کا سامنا نہیں کرسکتا تھا۔
2۔
واضح رہے کہ اس سے آپ کا معصوم ہونا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ تو حضرات انبیاء ؑ کا خاصا ہے جس میں اور کوئی شریک نہیں ہے۔
3۔
شیطان کے فرار سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ وسوسہ اندازی سے بھی عاجز ہوگیا تھا۔
(فتح الباري: 61/7)
4۔
دینی پختگی اور فریضہ امر بالمعروف کی ادائیگی سے کسی حد تک شیطان کی شرارتوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
اگرچہ حضرت عمر ؓ جیسا امتیاز تو حاصل نہیں ہوسکتا، تاہم ان صفات سے شیطانی وساوس پر کنٹرول ہوسکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3294
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3683
3683. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی جبکہ اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ بہت اصرارکے ساتھ نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ ایسے حالات میں ان کی آوازیں آپ ﷺ کی آوازی سے بلند ہو رہی تھیں۔ جب حضرت عمر ؓ نے اجازت طلب کی تو وہ جلدی سے پردے میں چلی گئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اجازت دی، جب حضرت عمر ؓ اندر آئے تو رسول اللہ ﷺ مسکرارہے تھے۔ حضرت عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اللہ تعالیٰ آپ کے دندان مقدسہ کو ہمیشہ ہنستا رکھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”مجھے ان عورتوں پر ہنسی آرہی ہے جو ابھی میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں لیکن جب انھوں نے تمھاری آواز سنی تو جلدی سے پس پردہ چلی گئیں۔“ عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ زیادہ حق دار ہیں کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3683]
حدیث حاشیہ:
آپ نے دعا فرمائی تھی یا اللہ! اسلام کو عمر یا پھر ابوجہل کے اسلام سے عزت عطاکر۔
اللہ نے حضرت عمر ؓ کے حق میں آپ کی دعا قبول فرمائی۔
جن کے مسلمان ہونے پر مسلمان کعبہ میں اعلانیہ نماز پڑھنے لگے اور تبلیغ اسلام کے لیے راستہ کھل گیا۔
ان کے اسلام لانے کا واقعہ مشہور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3683
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6085
6085. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ اس وقت آپ کے پاس ازواج مطہرات کو قریش سے تعلق رکھتی تھیں آپ سے اخراجات کا تقاضا کر رہی تھیں اور بآواز بلند باتیں کر رہی تھیں جب حضرت عمر بن خطاب ؓ نے اجازت طلب کی تو وہ جلدی سے پس پردہ چلی گئیں۔ نبی ﷺ نے انہں اجازت دے تو وہ اندر آ گئے۔ نبی ﷺ اس وقت ہنس رہے تھے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اور اللہ تعالٰی آپ کو ہنساتا رہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ان پر مجھے حیرت ہوئی جو ابھی میرے پاس (اخراجات کا تقاضا کررہی) تھیں۔ جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو جلدی سے پس پردہ چلی گئیں۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ زیادہ حقدار ہیں کہ وہ آپ سے ہیبت زدہ ہوں۔ پھر انہوں نے عورتوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا: اپنی جانوں کی دشمنوں مجھ سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6085]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت عظمیٰ پر روشنی پڑتی ہے کہ شیطان بھی ان سے ڈرتا ہے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ شیطان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سائے سے بھاگتا ہے۔
اب یہ اشکال نہ ہوگا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی افضلیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نکلتی ہے کیونکہ یہ ایک خاص معاملہ ہے، چور ڈاکو جتنا کوتوال سے ڈرتے ہیں اتنا خود بادشاہ سے نہیں ڈرتے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6085
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3683
3683. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی جبکہ اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ بہت اصرارکے ساتھ نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ ایسے حالات میں ان کی آوازیں آپ ﷺ کی آوازی سے بلند ہو رہی تھیں۔ جب حضرت عمر ؓ نے اجازت طلب کی تو وہ جلدی سے پردے میں چلی گئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اجازت دی، جب حضرت عمر ؓ اندر آئے تو رسول اللہ ﷺ مسکرارہے تھے۔ حضرت عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اللہ تعالیٰ آپ کے دندان مقدسہ کو ہمیشہ ہنستا رکھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”مجھے ان عورتوں پر ہنسی آرہی ہے جو ابھی میرے پاس بیٹھی ہوئی تھیں لیکن جب انھوں نے تمھاری آواز سنی تو جلدی سے پس پردہ چلی گئیں۔“ عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ زیادہ حق دار ہیں کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3683]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے حضرت عمر ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ ان سے شیطان بھی ڈرتا ہے حتی کہ وہ حضرت عمر ؓ کو کسی راستے میں دیکھ کراپنا راستہ بدل لیتا ہے،یعنی خود شیطان بھی ان سے بہت ہبیت زدہ اور ہراساں ہے۔
2۔
حضرت عمر ؓ کو عورتوں کا ہیبت زدہ ہونا اسی طرح معلوم ہوا کہ وہ جلدی سےصرف آواز ہی سن کر پردے میں چلی گئیں،اگرصرف پردہ ہی مقصود تھا تو وہاں بیٹھی بیٹھی اپنی چادروں سے پردہ کرسکتی تھیں۔
اس کے علاوہ کچھ عورتیں حضرت عمر کی محارم تھیں جیسا کہ حضر ت حفصہ ؓہیں،ان سب کا پردے میں چلے جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سب حضرت عمر ؓ سے ہبیت زدہ تھیں اور آپ سے ڈرتی تھیں۔
صرف پردہ کرنے کے لیے ہی وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے نہیں اٹھی تھیں۔
3۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کے کردار پر اس لیے تعجب کیا کہ انھوں نے جلد بازی سے کام لیا اور اس امر کا انتظار نہیں کیا کہ حضرت عمر ؓکو اندر آنے کی اجازت ملتی ہے یا نہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3683