حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُرِيتُ النَّارَ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ يَكْفُرْنَ، قِيلَ: أَيَكْفُرْنَ بِاللَّهِ، قَالَ: يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ".
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 29
تشریح:
حضرت امام المحدثین قدس سرہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ کفر دو طرح کا ہوتا ہے ایک تو کفر حقیقی ہے جس کی وجہ سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے۔ دوسرے بعض گناہوں کے ارتکاب پر بھی کفر کا لفظ بولا گیا ہے۔ مگر یہ کفر حقیقی سے کم ہے۔ ابوسعید والی حدیث کتاب الحیض میں ہے۔ اس میں یہ ہے کہ آپ نے عورتوں کو صدقے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں نے دوزخ میں زیادہ تر تم کو دیکھا ہے۔ انہوں نے پوچھا کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لعنت بہت کرتی ہو اور خاوند کا کفر یعنی ناشکری کرتی ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث بڑی لمبی ہے۔ جو بخاری کی کتاب الکسوف میں ہے، یہاں استدلال کے لیے حضرت امام نے اس کا ایک ٹکڑا ذکر کر دیا ہے۔
امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وفي هذاالحديث وعظ الرئيس المروس وتحريضه على الطاعة ومراجعة المتعلم العالم والتابع المتبوع فيماقاله اذا لم يظهر له معناه الخ»
یعنی اس حدیث کے تحت ضروری ہوا کہ سردار اپنے ماتحوں کو وعظ ونصیحت کرے اور نیکی کے لیے ان کو رغبت دلائے اور اس سے یہ بھی نکلا کہ شاگرد اگر استاد کی بات پورے طور پر نہ سمجھ پائے تو استاد سے دوبارہ دریافت کر لے اور اس حدیث سے ناشکری پر بھی کفر کا اطلاق ثابت ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ معاصی سے ایمان گھٹ جاتا ہے۔ اس لیے کہ معاصی کو بھی کفر قرار دیا گیا ہے مگر وہ کفر نہیں ہے جس کے ارتکاب سے دوزخ میں ہمیشہ رہنا لازم آتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عورتوں کا ایمان جیسے خاوند کی ناشکری سے گھٹ جاتا ہے، ویسے ہی ان کی شکر گزاری سے بڑھ بھی جاتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔
حضرت امام نے «كفر دون كفر» کا ٹکڑا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول سے لیا ہے جو آپ نے آیت کریمہ «وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ» [المائدۃ: 44] کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ ”اور جو شخص اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے سو ایسے لوگ کافر ہیں۔“
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں وہ کفر مراد نہیں ہے جس کی سزا «خلود فى النار» ہے۔ اس لیے علماء محققین نے کفر کو چار قسمو ں پر تقسیم کیا ہے۔
➊ کفر بانکل انکار کے معنی میں ہے، یعنی اللہ پاک کا بالکل انکار کرنا اس کا وجود ہی نہ تسلیم کرنا، قرآن مجید میں زیادہ تر ایسے ہی کافروں سے خطاب کیا گیا ہے۔
➋ کفر جحود ہے یعنی اللہ کو دل سے حق جاننا مگر اپنے دنیاوی مفاد کے لیے زبان سے اقرار بھی نہ کرنا، مشرکین مکہ میں سے بعض کا ایسا ہی کفر تھا، آج بھی ایسے بہت لوگ ملتے ہیں۔
➌ کفر عناد یعنی دل میں تصدیق کرنا زبان سے اقرار بھی کرنا مگر احکام الٰہی کو تسلیم نہ کرنا اور توحید و رسالت کے اسلامی عقیدہ کو ماننے کے لیے تیار نہ ہونا، ماضی و حال میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں۔
➍ کفر نفاق یعنی زبان سے اقرار کرنا مگر دل میں یقین نہ کرنا جیسا کہ آیت شریف «وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـكِنْ لَا يَعْلَمُونَ» [البقرۃ: 13] میں مذکو رہے۔ (یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ) جب ان سے کہا جائے کہ تم ایسا پختہ ایمان لاؤ جیسا کہ دوسرے لوگ (انصار و مہاجرین) لائے ہوئے ہیں تو جواب میں کہنے لگ جاتے ہیں کہ کیا ہم بھی بے وقوفوں جیسا ایمان لے آئیں۔ یاد رکھو یہی (منافق) بے قوف ہیں۔ لیکن ان کو علم نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 29
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 29
حدیث حاشیہ:
حضرت امام المحدثین قدس سرہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ کفر دوطرح کا ہوتا ہے ایک تو کفرحقیقی ہے جس کی وجہ سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے۔
دوسرے بعض گناہوں کے ارتکاب پر بھی کفر کا لفظ بولا گیا ہے۔
مگریہ کفر حقیقی سے کم ہے۔
ابو سعید والی حدیث کتاب الحیض میں ہے۔
اس میں یہ ہے کہ آپ نے عورتوں کو صدقے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں نے دوزخ میں زیادہ تر تم کو دیکھا ہے۔
انھوں نے پوچھا کیوں؟ آپ نے فرمایا:
”تم لعنت بہت کرتی ہو اور خاوند کا کفر یعنی ناشکری کرتی ہو۔
“ ابن عباس ؓ کی یہ حدیث بڑی لمبی ہے۔
جو بخاری کی کتاب الکسوف میں ہے، یہاں استدلال کے لیے حضرت امام نے اس کا ایک ٹکڑا ذکر کردیا ہے۔
امام قسطلانی فرماتے ہیں:
"وفي هذا الحديث وعظ الرئيس الرؤوس وتحريضه على الطاعة ومراجعة المتعلم العالم والتابع المتبوع فيما قاله إذا لم يظهر له معناه." الخ یعنی اس حدیث کے تحت ضروری ہوا کہ سردار اپنے ماتحوں کو وعظ ونصیحت کرے اور نیکی کے لیے ان کو رغبت دلائے اور اس سے یہ بھی نکلا کہ شاگرد اگر استاد کی بات پورے طور پر نہ سمجھ پائے تو استاد سے دوبارہ دریافت کرلے اور اس حدیث سے ناشکری پر بھی کفر کا اطلاق ثابت ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ معاصی سے ایمان گھٹ جاتا ہے۔
اس لیے کہ معاصی کو بھی کفر قرار دیا گیا ہے مگر وہ کفر نہیں ہے جس کے ارتکاب سے دوزخ میں ہمیشہ رہنا لازم آتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عورتوں کا ایمان جیسے خاوند کی ناشکری سے گھٹ جاتا ہے، ویسے ہی ان کی شکر گزاری سے بڑھ بھی جاتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔
حضرت امام نے کفردون کفر کا ٹکڑا حضرت ابن عباس ؓ کے اس قول سے لیا ہے جو آپ نے آیت کریمہ ﴿وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ﴾ (المائدۃ: 44)
کی تفسیر میں فرمایا ہے۔
(اور جو شخص اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے سوایسے لوگ کافر ہیں)
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں وہ کفر مراد نہیں ہے جس کی سزا خلود فی النار ہے۔
اس لیے علماء محققین نے کفر کو چار قسمو ں پر تقسیم کیا ہے:
(1)
کفربالکل انکار کے معنی میں ہے، یعنی اللہ پاک کا بالکل انکار کرنا اس کا وجود ہی نہ تسلیم کرنا، قرآن مجید میں زیادہ تر ایسے ہی کافروں سے خطاب کیا گیا ہے۔
(2)
کفرجحود ہے یعنی اللہ کو دل سے حق جاننا مگر اپنے دنیاوی مفاد کے لیے زبان سے اقرار بھی نہ کرنا، مشرکین مکہ میں سے بعض کا ایسا ہی کفرتھا، آج بھی ایسے بہت لوگ ملتے ہیں۔
(3)
کفرعناد ہے یعنی دل میں تصدیق کرنا زبان سے اقرار بھی کرنا مگر احکام الٰہی کو تسلیم نہ کرنا اور توحید ورسالت کے اسلامی عقیدہ کو ماننے کے لیے تیار نہ ہونا، ماضی وحال میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں۔
(4)
کفرنفاق ہے یعنی زبان سے اقرار کرنا مگر دل میں یقین نہ کرنا جیسا کہ آیت شریف ﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ﴾ (البقرۃ: 13)
میں مذکور ہے۔
(یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ)
جب ان سے کہا جائے کہ تم ایسا پختہ ایمان لاؤ جیسا کہ دوسرے لوگ (انصار ومہاجرین)
لائے ہوئے ہیں توجواب میں کہنے لگ جاتے ہیں کہ کیا ہم بھی بے وقوفوں جیسا ایمان لے آئیں۔
یاد رکھو یہی (منافق)
بے وقوف ہیں۔
لیکن ان کو علم نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 29
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:29
حدیث حاشیہ:
1۔
(عشير)
سے مراد خاوند ہے کیونکہ عورت کی عشرت اس سے متعلق ہوتی ہے اوروہی اس کی تمام ضروریات کا کفیل ہوتا ہے اگر اسے اپنے عموم پر رکھا جائے تو اس سے مراد ہر وہ شخص ہو سکتا ہے جس سے عورت کا میل جول رہتا ہے، جیسے باپ بھائی وغیرہ مقصد یہ ہے کہ یہ جنس کسی کا احسان نہیں مانتی بلکہ جہاں کوئی بات خلاف طبع سامنے آتی ہے تو تمام کیے دھرے پر پانی پھیر دیتی ہے اسی ناسپاسی کی وجہ سے جہنم کا زیادہ حصہ ان سے بھرا ہوا دکھایا گیا۔
(شرح الکرماني: 1؍ 136)
۔
2۔
کفر کی مندرجہ ذیل چار اقسام ہیں اگر کسی نے ان میں سے ایک کا بھی ارتکاب کیا اور توبہ کے بغیر مر گیا تو اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں فرمائے گا اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔
1۔
کفر انکار:
دل اور زبان سے اللہ کی وحدانیت کا انکار کرے اور توحید کی باتوں پر کان نہ دھرے، 2۔
کفر جحود:
دل سے حقیقت کو پہچان لے لیکن زبان سے اس کا معترف نہ ہو جیسا کہ ابلیس لعین نے کفر کیا تھا۔
3۔
کفر عناد:
دل اور زبان سے حقیقت توحید کا معترف ہو لیکن اسے قبول نہ کرے جیسا کہ خواجہ ابو طالب نے کیا۔
4۔
کفر نفاق:
زبان سے اعتراف کرے اور اس کے مطابق احکام بھی بجالائے لیکن دل میں اس سے نفرت ہو جیسا کہ منافقین کا کفر ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان چاراقسام کے علاوہ ایک اور قسم بھی ہے جس کا نام کفر الحقوق ہے جس کے اثبات کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان قائم کیا ہے اور جس کا مرتکب دین اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔
3۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کفران نعمت سے ایمان میں کمی ہو جاتی ہے اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے نیز ایمان پر انسانی اعمال اثر انداز ہوتے ہیں عورتوں کو اسی بنا پر ناقصات الدین کہا گیا ہے۔
(شرح الکرماني: 1؍ 137)
۔
4۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب اور آئندہ چند ابواب سے ایمانیات کو مزید منقح کرنا چاہتے ہیں کیونکہ جس طرح کفر کے مراتب ہیں اسی طرح ایمان میں بھی فرق مراتب ہے ایمان کا ایک ایسا درجہ بھی ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو ہمیشہ کے لیے اس پر جنت حرام ہو جاتی ہے اور اگر وہ موجود ہو تو خلود فی النار کے لیے سدراہ بن جاتا ہے۔
ٹھیک اسی طرح مراتب کفر میں ایک ایسا درجہ ہے کہ معاذ اللہ اگر وہ انسان میں آجائے تو دخول جنت اس کے لیے شجر ممنوعہ بن جاتا ہےاور اس حالت میں مرنا خلود فی النار کا باعث ہے۔
اس سے یہ بات بصراحت معلوم ہوئی کہ معاصی ایمان کے لیے نقصان دہ ہیں اور طاعات سے ایمان کی نشوو نما ہوتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 29
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 98
´عورتوں کا عیدگاہ میں جانا`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ وَمَعَهُ بِلَالٌ، فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ، فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ عید کے موقع پر مردوں کی صفوں میں سے) نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کو خیال ہوا کہ عورتوں کو (خطبہ اچھی طرح) نہیں سنائی دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں علیحدہ نصیحت فرمائی اور صدقے کا حکم دیا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 98]
� تشریح:
اس حدیث سے مسئلہ باب کے ساتھ عورتوں کا عیدگاہ میں جانا بھی ثابت ہوا۔ جو لوگ اس کے مخالف ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ وہ ایسی چیز کا انکار کر رہے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مروج تھی۔ یہ امر ٹھیک ہے کہ عورتیں پردہ اور ادب و شرم و حیا کے ساتھ جائیں۔ کیونکہ بے پردگی بہرحال بری ہے۔ مگر سنت نبوی کی مخالفت کرنا کسی طرح بھی زیبا نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 98
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 863
863. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان سے کسی آدمی نے دریافت کیا: آیا رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ آپ کو کبھی باہر حاضر ہونے کا اتفاق ہوا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، اور اگر میرا مرتبہ اور مقام رسول اللہ ﷺ کے ہاں اتنا نہ ہوتا تو میں چھوٹے ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ حاضر نہیں ہو سکتا تھا۔ آپ پہلے اس نشان کے پاس آئے جو کثیر بن صلت کے مکان کے قریب ہے، وہاں آپ نے خطبہ دیا، پھر عورتوں کے پاس تشریف لائے، انہیں وعظ و نصیحت کی اور صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا، چنانچہ کوئی عورت (اپنی بالی کوئی انگوٹھی اور کوئی) اپنے زیور کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے اتار کر حضرت بلال ؓ کی چادر میں ڈالنے لگی۔ اس کے بعد آپ حضرت بلال ؓ کے ہمراہ اپنے گھر لوٹ آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:863]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس ؓ کمسن تھے، باوجود اس کے عید میں شریک ہوئے، یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے اور اس سے عورتوں کا عید گاہ میں جانا بھی ثابت ہوا۔
چونکہ احناف کے ہاں عید گاہ میں عورتوں کا جاناجائز نہیں ہے، اس لیے ایک دیوبندی ترجمہ بخاری میں یہاں ترجمہ ہی بدل دیا گیا ہے چنانچہ وہ ترجمہ یوں کرتے ہیں”ان سے ایک شخص نے یہ پوچھا کہ کیا نبی کریم ﷺ کے ساتھ آپ عیدگاہ گئے تھے۔
“ حالانکہ پوچھا یہ جارہا تھا کہ کیا تم نے عید کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عورتوں کا نکلنا دیکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہاں ضرور دیکھا ہے۔
یہ بدلا ہوا ترجمہ دیوبندی تفہیم البخاری پارہ: 4 ص: 32 پر دیکھا جا سکتا ہے۔
غالباً ایسے ہی حضرات کے لیے کہا گیا ہے خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں وفقنا اللہ لما یحب ویرضی۔
آمین!
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 863
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5880
5880. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں عید کے موقع پر نبی ﷺ کے ہمراہ تھا آپ نے خطبے سے پہلے نماز پڑھائی ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر آپ عورتوں کے پاس تشریف لے گئے (آپ نے انہیں صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی) تو انہوں نےحضرت بلال ؓ کی جھولی میں انگوٹھیاں اور چھلے ڈالنا شروع کر دیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5880]
حدیث حاشیہ:
ثابت ہو اکہ عہد رسالت میں عورتوں میں انگوٹھی پہننے کا عام دستور تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5880
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5881
5881. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ عید کے دن باہر تشریف لے گئے اور دو رکعت پڑھائیں آپ نے نماز عید سے پہلے یا بعد کوئی نوافل نہیں پڑھے۔ پھر آپ ﷺ عورتوں کے پاس تشریف لے گئے انہیں صدقہ کرنے کا شوق دلایا تو انہوں نے اپنی بالیاں اور خوشبو دار ہار صدقہ کرنا شروع کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5881]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ عید گاہ میں عورتوں کا جانا عہد نبوی میں عام طور پر معمول تھا بلکہ آپ نے اس قدر تاکید کی تھی کہ حیض والی بھی نکلیں جو صرف دعا میں شریک ہوں۔
تعجب ہے ان لوگوں پر جو آج اس کو معیوب جانتے ہیں حالانکہ آج کل قدم قدم پر پولیس کا انتظام ہوتا ہے اور کوئی بد مزگی نہیں ہوتی پھر بھی بعض الناس مختلف حیلوں بہانوں سے اس کی تاویل کرتے رہتے اور لوگوں کو عورتوں کے روکنے کا حکم کرتے رہتے ہیں۔
روایت میں عورتوں کا صدقہ میں بالیاں اور ہار دینا مذکور ہے یہی باب سے مناسبت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5881
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1494
´سورج گرہن کی نماز میں قرأت کی مقدار کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھ لوگوں نے نماز پڑھی، آپ نے قیام کیا تو لمبا قیام کیا، اور سورۃ البقرہ جیسی سورت پڑھی، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، پھر ایک لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا، پھر ایک لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج صاف ہو چکا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ دونوں کسی کے مرنے سے نہیں گہناتے ہیں، اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے، چنانچہ جب تم انہیں گہنایا ہوا دیکھو تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرو“، لوگوں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنی جگہ میں کسی چیز کو آگے بڑھ کر لے رہے تھے، اور پھر ہم نے دیکھا آپ پیچھے ہٹ رہے تھے؟ تو آپ نے فرمایا: ”میں نے جنت کو دیکھا یا مجھے جنت دکھائی گئی تو میں اس میں سے پھل کا ایک گچھا لینے کے لیے آگے بڑھا، اور اگر میں اسے لے لیتا تو تم اس سے رہتی دنیا تک کھاتے، اور میں نے جہنم کو دیکھا چنانچہ میں نے آج سے پہلے اس بھیانک منظر کی طرح کبھی نہیں دیکھا تھا، اور میں نے اہل جہنم میں زیادہ تر عورتوں کو دیکھا“، انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ایسا کیوں ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”ایسا ان کے کفر کی وجہ سے ہے“، پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”(نہیں بلکہ) وہ شوہر کے ساتھ کفر کرتی ہیں (یعنی اس کی ناشکری کرتی ہیں) اور (اس کے) احسان کا انکار کرتی ہیں، اگر تم ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کرو، پھر اگر وہ تم سے کوئی چیز دیکھے تو وہ کہے گی: میں نے تم سے کبھی بھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔“ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1494]
1494۔ اردو حاشیہ:
➊ نمازکسوف میں لمبا قیام وغیرہ سورج کو روشن کرنے کے لیے نہیں، اس نے اپنے معمول کے مطابق روشن ہوہی جانا ہوتا ہے، کوئی نماز پڑھے یا نہ پڑھے یا گالیاں دے کیونکہ وہ تکوینی چیز ہے۔ یہ تو صرف وقتی فریضہ ادا کرنے کے لیے ہے، جیسے صبح کی نماز لمبی پڑھی جاتی ہے۔ عموماً کسوف کا وقت طویل ہوتا ہے۔ خصوصاً آپ کے دور کا کسوف مکمل سورج گرہن تھا اور مکمل سورج گرہن ختم ہونے میں کافی وقت لگتا ہے، لہٰذا اس نماز میں طوالت مستحب اور وقتی تقاضا ہے۔
➋ کفر کے معنی انکار کرنا بھی ہیں، ناشکری کرنا بھی۔ یہاں دوسرے معنی مراد ہیں۔ اور جہنم میں یہ دخول عارضی ہے کیونکہ گناہ گار مومنوں کا اصل اور مستقل ٹھکانا جنت ہے، ہاں حقیقی کافر دائمی جہنمی ہیں اور جہنم ان کا مستقل ٹھکانا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1494
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:98
98. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ (عید کے دن مردوں کی صف سے عورتوں کی جانب) نکلے اور آپ کے ہمراہ حضرت بلال ؓ تھے، آپ کو خیال ہوا کہ شاید عورتوں تک میری آواز نہیں پہنچی، اس لیے آپ نے انہیں نصیحت فرمائی اور صدقہ و خیرات دینے کا حکم دیا، تو کوئی عورت اپنی بالی اور کوئی اپنی انگوٹھی ڈالنے لگی اور حضرت بلال ؓ (ان زیورات کو) اپنے کپڑے میں جمع کرنے لگے۔ اس حدیث کو اسماعیل (ابن علیہ) نے ایوب سے، انہوں نے عطاء سے، انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: میں نبی ﷺ پر گواہی دیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:98]
حدیث حاشیہ:
1۔
مرد گھر کا نگران ہونے کی حیثیت سے اپنے اہل و عیال کی تعلیم و تربیت کا ذمے دار ہے لیکن اس کے باوجود تعلیم نسواں کے متعلق امام کی ذمے داری ختم نہیں ہو جاتی کیونکہ اول تو ہر شخص اصول تعلیم سے واقف نہیں ہو تا۔
اگر وہ تعلیم یافتہ ہے تو اسے معلوم نہیں ہوتا کہ عورتوں کی تعلیم کے لیے کن کن باتوں کا ہونا ضروری ہے۔
اس لیے امام کو چاہیے کہ عورتوں کی تعلیم کے لیے علیحدہ درسگاہ کا اہتمام کرے۔
ان کی ضرورت کے پیش نظر نصاب تعلیم مرتب کرے پھر اس نصاب کو پڑھانے کے لیے قابل اساتذہ کا اہتمام کرے۔
عورتوں کی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ چادر و چار دیواری کے تحفظ کا پورا اہتمام ہو اور مردوں کا داخلہ ممنوع ہو۔
نیز تعلیم مخلوط نہ ہو کیونکہ مخلوط تعلیم میں فتنہ و فساد کے اتنے دروازے کھلتے ہیں کہ تعلیم کا مفاد اس کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا۔
3۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو وعظ فرمایا:
جس کی تفصیل دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
”میں نے تمھاری اکثریت باہمی لعن طعن اور کفران عشیر کی وجہ سے جہنم میں دیکھی ہے اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ صدقہ و خیرات کثرت سے کیا کرو۔
“ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 29)
4۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدقہ و خیرات کے لیے شوق دلانا اور سفارش کرنا بڑے ثواب کا کام ہے نیز عورتوں کے لیے انگوٹھی، چھلا، ہار، گلو بند اور بالیاں وغیرہ پہننے کا جواز ہے۔
5۔
آج کل چونکہ لاؤڈ سپیکر لگے ہوئے ہیں۔
امام کے وعظ و نصیحت کو مرد عورتیں برابر سنتے ہیں اس لیے مستقل طور پر عورتوں کے پاس آنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔
6۔
اس حدیث سے عورتوں کا عید گاہ جانا بھی ثابت ہوا لیکن پردے اور سادگی کے احکام کے ساتھ جانا چاہیے نمودو نمائش سے ثواب ضائع اور گناہ لازم ہو جاتا ہے۔
جو حضرات اس سنت (عورتوں کے عیدگاہ جانے)
کی مخالفت کرتے ہیں، انھیں اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 98
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:863
863. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان سے کسی آدمی نے دریافت کیا: آیا رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ آپ کو کبھی باہر حاضر ہونے کا اتفاق ہوا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، اور اگر میرا مرتبہ اور مقام رسول اللہ ﷺ کے ہاں اتنا نہ ہوتا تو میں چھوٹے ہونے کی وجہ سے آپ کے ساتھ حاضر نہیں ہو سکتا تھا۔ آپ پہلے اس نشان کے پاس آئے جو کثیر بن صلت کے مکان کے قریب ہے، وہاں آپ نے خطبہ دیا، پھر عورتوں کے پاس تشریف لائے، انہیں وعظ و نصیحت کی اور صدقہ و خیرات کرنے کا حکم دیا، چنانچہ کوئی عورت (اپنی بالی کوئی انگوٹھی اور کوئی) اپنے زیور کی طرف ہاتھ بڑھا کر اسے اتار کر حضرت بلال ؓ کی چادر میں ڈالنے لگی۔ اس کے بعد آپ حضرت بلال ؓ کے ہمراہ اپنے گھر لوٹ آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:863]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ عنوان بندی کے سلسلے میں بہت محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں، چنانچہ آپ نے بچوں کے وضو کے متعلق وثوق اور جزم کے ساتھ کوئی فیصلہ نہیں کیا، صرف اس کی مشروعیت بیان کی ہے کیونکہ اگر اسے استحباب کا درجہ دیتے تو اس کا تقاضا تھا کہ بچوں کی وضو کے بغیر بھی نماز صحیح ہو جائے اور اگر اس کے واجب ہونے کا فیصلہ کرتے تو ضروری تھا کہ بچے کو اس کے ترک پر سزا دی جاتی کیونکہ واجب کا تارک سزا کا حق دار ہوتا ہے، اس لیے امام بخاری نے ایک ایسا عنوان تجویز کیا جو اس قسم کے اعتراضات سے محفوظ ہے۔
پھر آپ نے بچوں کے متعلق غسل وغیرہ کا ذکر نہیں کیا کیونکہ ان کے لیے کوئی موجب غسل نہیں۔
(فتح الباري: 446/2) (2)
مذکورہ عنوان کئی ایک اجزاء پر مشتمل ہے:
پہلا جز بچوں کے لیے وضو کی مشروعیت ہے۔
دوسرا جز یہ ہے کہ ان پر غسل اور وضو کب واجب ہوتا ہے۔
تیسرا جز بچوں کے لیے نماز باجماعت، عیدین اور جنازوں میں شرکت کرنے سے متعلق ہے اور چوتھا جز ان کی صف بندی سے متعلق ہے۔
اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے سات احادیث ذکر کی ہیں:
پہلی حدیث ابن عباس ؓ کی ہے جس میں قبر پر نماز پڑھنے کا ذکر ہے۔
یہ حدیث لانے کا مقصد یہ ہے کہ بچوں کی نماز میں شرکت کو ثابت کیا جائے اور صف بندی کو بیان کیا جائے، چنانچہ اس حدیث میں صراحت کے ساتھ ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے نابالغ ہونے کے باوجود نماز میں شرکت کی اور صف بندی میں حصہ لیا۔
دوسری حدیث حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے جس سے ثابت کیا ہے کہ غسل جمعہ بچوں پر واجب نہیں کیونکہ اس کے وجوب کے لیے بالغ ہونا شرط ہے۔
جمہور علماء کا یہی موقف ہے کہ غسل کے وجوب کے لیے بلوغت شرط ہے۔
تیسری حدیث بھی حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے جس میں وضاحت ہے کہ انہوں نے وضو کیا اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مل کر نماز ادا کی۔
اس سے ان کا وضو اور نماز ادا کرنا صحیح ثابت ہوا۔
چوتھی حدیث حضرت انس ؓ کی ہے جس میں حضرت انس ؓ کے ساتھ ایک بچے کا صف بنانا اور نماز پڑھنا مذکور ہے۔
حدیث میں لفظ یتیم آیا ہے جس کا اطلاق قبل از بلوغ پر ہوتا ہے۔
پانچویں حدیث حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے جس میں نماز عشاء دیر سے پڑھنے کا ذکر ہے تاآنکہ حضرت عمر ؓ نے بآواز بلند کہا کہ اب تو بچے اور عورتیں ہو چکے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کے ساتھ بچے بھی نماز میں شرکت کے لیے موجود تھے۔
چھٹی حدیث حضرت ابن عباس ؓ کی ہے جس میں ان کے صف میں شامل ہونے اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز ادا کرنے کا ذکر ہے۔
اس میں صراحت ہے کہ آپ اس وقت قریب البلوغ تھے۔
آخر میں امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ ہی سے مروی ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز عید میں شرکت کی۔
اس طرح امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان کے تمام اجزاء کو احادیث سے ثابت کیا ہے۔
واضح رہے کہ ان کی صف بندی سے مراد ان کا لوگوں کے ساتھ صف میں کھڑا ہونا ہے، اس سے بچوں کی خاص صف مراد نہیں ہے۔
(فتح الباري: 447/2) (3)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ بچے جب سن شعور کو پہنچ جائیں تو وہ عیدین اور جنازوں میں شرکت کر سکتے ہیں اور انہیں وضو بھی کرنا ہو گا اگرچہ وہ ان احکام کے مکلف نہیں، تاہم انہیں عادت ڈالنے کے لیے ان باتوں پر صغر سنی ہی میں عمل کرانا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 863
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5880
5880. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں عید کے موقع پر نبی ﷺ کے ہمراہ تھا آپ نے خطبے سے پہلے نماز پڑھائی ایک روایت میں یہ اضافہ ہے کہ پھر آپ عورتوں کے پاس تشریف لے گئے (آپ نے انہیں صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی) تو انہوں نےحضرت بلال ؓ کی جھولی میں انگوٹھیاں اور چھلے ڈالنا شروع کر دیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5880]
حدیث حاشیہ:
(1)
عربی زبان میں فتخ وہ انگوٹھیاں ہیں جو عورتیں پاؤں کی انگلیوں میں پہنا کرتی تھیں۔
بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ نگینے کے بغیر انگوٹھی کو فتخ اور نگینے والی کو خاتم کہا جاتا ہے۔
(فتح الباري: 406/10) (2)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عورتیں انگوٹھیاں اور چھلے پہنا کرتی تھیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5880
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5881
5881. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ عید کے دن باہر تشریف لے گئے اور دو رکعت پڑھائیں آپ نے نماز عید سے پہلے یا بعد کوئی نوافل نہیں پڑھے۔ پھر آپ ﷺ عورتوں کے پاس تشریف لے گئے انہیں صدقہ کرنے کا شوق دلایا تو انہوں نے اپنی بالیاں اور خوشبو دار ہار صدقہ کرنا شروع کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5881]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ عورتوں نے اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں اتار کر دینا شروع کر دیں۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 98)
ایک دوسری روایت میں کنگن صدقہ کرنے کا بھی بیان ہے۔
(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1431)
ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ عید الفطر کا ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4895) (2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عہد نبوی میں عورتیں بھی عیدگاہ جاتی تھیں اور نماز میں شریک ہوتی تھیں۔
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ عورتیں سونے کے ہار اور خوشبودار پھولوں اور کلیوں کے ہار استعمال کر سکتی ہیں، کیونکہ یہ زینت کے لیے ہوتے ہیں اور عورتوں کو زینت کرنے کی اجازت ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5881