سلسله احاديث صحيحه
الحدود والمعاملات والاحكام
حدود، معاملات، احکام
مقتول کے لواحقین کو دو اختیار حاصل ہیں
حدیث نمبر: 1191
- (إنّ الله حبس عن مكة القتل- أو الفيل، شك أبو عبد الله-، وسلط عليهم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - والمؤمنين، ألا وإنها لم تحلّ لأحد قبلي، ولم تحل لأحد بعدي، ألا وإنها حلت لي ساعة من نهار، ألا وإنها ساعتي هذه حرامٌ؛ لا يختلى شوكها، ولا يعضدُ شجرها، ولا تلتقط ساقطتها إلا لمنشد، فمن قُُتلَ؛ فهو بخير النظرين: إما أن يعقل، وإما أن يُقاد أهل القتيل).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنو خزاعہ نے فتح مکہ والے سال اپنے ایک مقتول کے بدلے بنو لیث کا ایک آدمی قتل کیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہوئے اور خطبہ دیا، جس میں یہ بھی فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مکہ میں قتل کرنے سے منع کر دیا ہے اور رسول اللہ اور مومنوں کو ان پر مسلط کر دیا ہے۔ خبردار! یہ (حرم مکی) نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال تھا اور نہ (کسی کے لیے) بعد میں ہو گا۔ آگاہ رہو! اسے میرے لیے دن کی کچھ گھڑی کے لیے حلال کیا گیا۔ خبردار! اب اس وقت میں یہ حرام ہے، اس کے کانٹوں کو نہ اکھاڑا جائے، اس کے درختوں کو نہ کاٹا جائے اور اس کی گری پڑی چیز کو نہ اٹھایا جائے، مگر تشہیر کے لیے۔ اگر کوئی قتل ہو جائے تو (اس کے ورثا کو) دو اختیارات میں سے ایک کا حق حاصل ہے، یا تو وہ دیت لے لیں یا پھر قصاص۔“ ایک یمنی آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! (یہ خطبہ) میرے لیے لکھوا دیجئیے۔ آپ نے فرمایا: ”ابوفلاں کے لیے لکھ دو۔“ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کے دوران) ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! اذخر نامی گھاس (کو کاٹنے کی اجازت دے دیں) کیونکہ ہم اس گھاس کو گھروں اور قبروں میں استعمال کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”( ٹھیک ہے) اذخر گھاس ( کاٹ سکتے ہو)۔“ امام مسلم نے ( اس روایت کے الفاظ میں) یہ زیادتی کی ہے: ولید نے کہا: میں نے اوزاعی سے کہا: ”( یمنی نے جو یہ کہا: کہ) اے اللہ کے رسول! میرے لیے لکھوا دیں۔ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: وہ خطبہ جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔