Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
10. بَابُ صِفَةِ النَّارِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ:
باب: دوزخ کا بیان اور یہ بیان کہ دوزخ بن چکی ہے، وہ موجود ہے۔
حدیث نمبر: 3259
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ ذَكْوَانَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبْرِدُوا بِالصَّلَاةِ فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ذکوان نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3259 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3259  
حدیث حاشیہ:
مذکورہ احادیث پہلے کتاب المواقیت میں گزر چکی ہیں۔
ان احادیث کو یہاں بیان کرنے سے مقصود یہ ہے جہنم اب بھی موجود ہے اور اس میں آگ جلتی ہے اور اس کے جوش و خروش سے دنیا میں گرمی بڑھ جاتی ہے جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3259   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:538  
538. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ظہر کو ٹھنڈے وقت میں ادا کرو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہے۔ اس حدیث کی متابعت سفیان (ثوری)، یحییٰ اور ابوعوانہ نے اعمش کے واسطے سے کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:538]
حدیث حاشیہ:
(1)
نماز کو ٹھنڈا کرکے ادا کرنے کا حکم ظاہری طور پر مندرجہ ذیل حدیث کے مخالف ہے:
حضرت خباب بن ارت ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گرم ریت پر نماز پڑھنے کی شکایت کی تو آپ نے ہماری شکایت کا ازالہ فرمایا۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1406(619)
اس تعارض کو مندرجہ ذیل صورتوں سے ختم کیا جاسکتا ہے:
٭حضرت خباب بن ارت ؓ کی روایت میں جو درخواست کی گئی تھی وہ ابراد سے بھی زیادہ تاخیر کی تھی، یعنی زمین کی تپش ختم ہونے تک تاخیر کا مطالبہ تھا، جسے قبول کرنے میں اس بات کا اندیشہ تھا کہ مبادا اس کا وقت ہی نکل جائے، اس لیے مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا، البتہ گرمی کی شدت ختم ہونے تک تاخیر مستحب ہے۔
٭حضرت خباب بن ارت ؓ کی حدیث کو احادیث ابراد کے ساتھ منسوخ قرار دیا جائے، چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی ایک حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے، فرماتے ہیں:
ہم عین دوپہر کے وقت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے، پھر آپ نے حکم دیا کہ نماز ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔
(سنن ابی ماجة، الصلاة، حدیث: 680)
امام احمد ؒ سے مروی ہے کہ گرمی کی شدت میں نماز کو ٹھنڈا کرکے پڑھنا رسول اللہ ﷺ کا آخری فیصلہ تھا۔
(فتح الباري: 23/2)
بنابریں گرمی کی شدت میں ظہر کو قدرے تاخیر سے پڑھنا مستحب ہے۔
(2)
اس روایت کو بیان کرنے کہ بعد امام بخاری ؒ نے اس کی تائید کےلیے چند ایک متابعات بھی بیان کی ہیں کہ شدت گرمی میں نماز ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھنے کے متعلق حضرت اعمش سے بیان کرنے والے حفص بن غیاث اکیلے نہیں بلکہ ان الفاظ کو حضرت سفیان ثوری، یحییٰ بن سعید قطان اور ابو عوانہ بھی حضرت اعمش سے نقل کرتے ہیں اور یہ متابعات متصل اسناد کے ساتھ کتب حدیث میں موجود ہیں۔
(فتح الباري: 27/2) (3)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کی احادیث بیان کرتے وقت حسن ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے جوان کی دقت فہم اور بالغ نظری کی دلیل ہے، چنانچہ پہلی حدیث میں مطلق طور پر ابراد کا ذکر ہے۔
دوسری حدیث سے اس ابراد کے متعلق رہنمائی ملتی ہے کہ اسے ٹیلوں کا سایہ ظاہر ہونے تک گوارا کیا گیا ہے۔
اگلی حدیث میں اس سبب کو بیان کیا گیا ہے جس کی بنا پر اس مطلق کو مقید پر محمول کیاگیا ہے۔
آخری حدیث میں اس قید کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس سے مراد نماز ظہر ہے۔
(فتح الباري: 27/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 538