صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
8. بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ الْجَنَّةِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ:
باب: جنت کا بیان اور یہ بیان کہ جنت پیدا ہو چکی ہے۔
حدیث نمبر: 3250
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَوْضِعُ سَوْطٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جنت میں ایک کوڑے کی جگہ دنیا سے اور جو کچھ دنیا میں ہے، سب سے بہتر ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3250 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3250
حدیث حاشیہ:
کوڑے کا اس لیے ذکر کیا ہے کہ جب سوارگھوڑے سے نیچے اترنے کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے اپنا کوڑا زمین پر پھینکتا ہے تاکہ اس جگہ پر اورکوئی قبضہ نہ کرے جنت میں کوڑے کی مقدار جگہ دنیا و مافیھا سے بہتر ہے کیونکہ یہ جگہ ہمیشہ رہے گی اور کبھی فنا سے دوچار نہیں ہوگی۔
اس کے برعکس دنیا اور اس کی ہر چیز فانی ہے اور تباہی سے دوچار ہونے والی ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3250
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4330
´جنت کے احوال و صفات کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایک کوڑے کی جگہ «دنيا وما فيها» سے بہتر ہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4330]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
گھوڑے کو چلانے کے لیے سوار جو چابک اور کوڑا استعمال کرتا ہے۔
وہ زمین پہ رکھا جاتا ہے تو بہت کم جگہ گھیرتا ہے۔
دنیا میں اتنی سی زمین کی کوئی اہمیت نہیں لیکن جنت کا اتنا سا حصہ بھی بے انتہا قیمتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت کی نعمتیں ابدی ہے جبکہ دنیا کی بڑی سے بڑی دولت بھی ختم ہونے والی ہے۔
(2)
کرہ ارض کا رقبہ کروڑوں مربع میل ہے۔
انسان کے لیے اس کی مٹی بھی قیمتی ہے ہم زمین کا ایک چھوٹا سا خالی ٹکڑا لاکھوں روپے دے کر خریدتے ہے پھر اس پر مزید اخراجات کے بعد مکان تعمیر ہوتا ہے۔
زمین کے اندر بہت سی اقسام کی معدنیات کے پیش بہا خزانے موجود ہیں سونے کی ایک کان یا پیٹرول کے ایک کنویں کی قیمت کا اندازہ لگانا مشکل ہے جبکہ زمین میں سونے سے زیادہ قیمتی معدنیات کے عظیم ذخائر موجود ہیں۔
زمین میں موجود فصلوں درختوں جڑی بوٹیوں مویشیوں جنگلی جانوروں وغیرہ میں سے کسی ایک کی کل مقدار کی قیمت کا اندازہ لگانا چاہیں تو حساب ممکن نہیں۔
اسکے علاوہ جو سمندر میں حیوانی، نباتی اور معدنی دولت موجود ہے وہ خشکی کے خزانوں سے کہیں زیادہ ہے۔
ان تمام دولتوں کی مجموعی مقدار کسقدر ہوسکتی ہے؟ انسان اسکا سادہ سا اندازہ لگانے سے بھی عاجز ہے۔
لیکن یہ سب خزانے مل کر بھی جنت کے چند انچ کے ٹکڑے کی قیمت بھی نہیں بن سکتے۔
(3)
کم سے کم درجے کے جنتی کو جنت میں دنیا کی بڑی سے بڑی سلطنت سے کئی گنا زیادہ جگہ ملے گی۔
اس میں طرح طرح کے محلات بھی ہونگے۔
ہر قسم کے پھل اور میوے بھی ہونگے۔
اور بے شمار نعمتیں بھی ہونگی۔
کتنا کم عقل ہے انسان کہ دنیا کے معمولی سے مفاد پر اتنی عظیم دولت عزت عظمت اور شان قربان کردیتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4330
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6415
6415. حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے:”جنت میں ایک کوڑا رکھنے کی جگہ دنیا وما فیھا سے بہتر ہے اور اللہ کے راستے میں صبح کو یا شام کو چلنا بھی دنیا ومافیھا سے بہتر ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6415]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر جنت میں چھڑی رکھنے کی جگہ دنیا وما فیھا سے بہتر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوڑے سے کم تر چیز دنیا وما فیھا کے برابر ہے۔
یہی حقیقت ایک دوسری حدیث میں بیان ہوئی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال بس ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی ایک انگلی دریا میں ڈبو کر نکال لے، پھر دیکھے کہ پانی کی کتنی مقدار اس (انگلی)
کو لگ کر آئی ہے۔
“ (صحیح مسلم، الجنة و نعیمھا، حدیث: 7197 (2858)
مطلب یہ ہے کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا اس قدر بے حقیقت اور بے حیثیت ہے جتنا کہ دریا کے مقابلے میں انگلی پر لگا ہوا پانی۔
(2)
یہ مثال بھی صرف سمجھانے کے لیے ہے ورنہ دنیا کی آخرت کے مقابلے میں یہ نسبت بھی نہیں ہے۔
دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب محدود اور متناہی اور اس کے مقابلے میں آخرت لامحدود اور لامتناہی ہے۔
محدود و متناہی اور لامحدود اور لامتناہی کے درمیان کوئی نسبت نہیں ہوتی۔
جب حقیقت یہ ہے تو وہ شخص کس قدر محروم ہے جو دنیا حاصل کرنے کے لیے تو خوب محنت کرے مگر آخرت کی تیاری کے لیے اسے کوئی فکر نہ ہو۔
واللہ المستعان (3)
اس سے بھی زیادہ وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک کان کٹے بکری کے مردہ بچے کے پاس سے ہوا تو آپ نے فرمایا:
”تم میں سے کوئی ایک درہم کے بدلے اس مرے ہوئے بچے کو خریدنا پسند کرے گا؟“ صحابہ نے کہا:
ہم تو اسے کسی قیمت پر خریدنا پسند نہیں کریں گے۔
آپ نے فرمایا:
”اللہ کی قسم! دنیا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جتنا ذلیل تمہارے نزدیک یہ بکری کا مردہ بچہ ہے۔
“ (صحیح مسلم، الزھد، حدیث: 7418 (2957)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6415