Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْحَيْضِ
کتاب: حیض کے احکام و مسائل
17. بَابُ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ:
باب: اللہ عزوجل کے قول «مخلقة وغير مخلقة» (کامل الخلقت اور ناقص الخلقت) کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 318
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَكَّلَ بِالرَّحِمِ مَلَكًا يَقُولُ يَا رَبِّ نُطْفَةٌ، يَا رَبِّ عَلَقَةٌ، يَا رَبِّ مُضْغَةٌ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ خَلْقَهُ، قَالَ: أَذَكَرٌ أَمْ أُنْثَى، شَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ، فَمَا الرِّزْقُ وَالْأَجَلُ، فَيُكْتَبُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے عبیداللہ بن ابی بکر کے واسطے سے، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رحم مادر میں اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اے رب! اب یہ «نطفة» ہے، اے رب! اب یہ «علقة» ہو گیا ہے، اے رب! اب یہ «مضغة‏» ہو گیا ہے۔ پھر جب اللہ چاہتا ہے کہ اس کی خلقت پوری کرے تو کہتا ہے کہ مذکر یا مونث، بدبخت ہے یا نیک بخت، روزی کتنی مقدر ہے اور عمر کتنی۔ پس ماں کے پیٹ ہی میں یہ تمام باتیں فرشتہ لکھ دیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 318 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 318  
تشریح:
اس باب کے انعقاد سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاملہ کو جو خون آ جائے وہ حیض نہیں ہے کیونکہ اگر حمل پورا ہے تو رحم اس میں مشغول ہو گا اور جو خون نکلا ہے وہ غذا کا باقی ماندہ ہے۔ اگر ناقص ہے تو رحم نے پتلی بوٹی نکال دی ہے تو وہ بچہ کا حصہ کہا جائے گا حیض نہ ہو گا۔

ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کی حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ حاملہ کا خون حیض نہیں ہے کیونکہ وہاں ایک فرشتہ مقرر کیا جاتا ہے اور وہ نجاست کے مقام پر نہیں جاتا۔ ابن منیر کے اس استدلال کو ضعیف کہا گیا ہے۔

احناف اور حنابلہ اور اکثر حضرات کا مذہب یہ ہے کہ حالت حمل میں آنے والا خون بیماری مانا جائے گا حیض نہ ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ بھی یہی ثابت فرما رہے ہیں۔ اسی مقصد کے تحت آپ نے عنوان «مخلقة و غير مخلقة» اختیار فرمایا ہے۔ روایت مذکورہ اسی طرف مشیر ہے، پوری آیت سورۃ حج میں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 318   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 318  
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
«قلتُ» بظاھر حدیث اور باب میں مناسبت انتہائی مشکل ہے مگر غور کرنے سے اس کا حل موجود ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں یہ ہے کہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حج کے دوران اپنے حیض کی شکایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فان ذالك شيئ كتبه الله على بنات آدم» یہ وہ چیز ہے جس کو آدم کی بیٹیوں کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے، اب اس حدیث کی طرف آئیے جس میں یہ لکھا گیا ہے کہ لڑکا ہو گا، لڑکی ہو گی وغیرہ وغیرہ لہٰذا کتاب الحیض میں تقدیر کی حدیث اس لیے درج فرمائی کہ بنت آدم کی قسمت میں حیض لکھ دیا گیا ہے اور حیض کا تعلق بھی تقدیر کے ساتھ ٹھہرا۔

شارحین نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد اس حدیث کو حیض کے بابوں میں داخل کرنے سے یہ مراد ہے کہ حاملہ عورت کو حمل کی حالت میں جو خون آتا ہے وہ حیض نہیں ہے اس لیے کہ اس وقت رحم بچہ کی تربیت میں مشغول ہے ساتھ خون حیض کے پس جو کبھی کبھی اس کے رحم سے خون آ جاتا ہے وہ حیض نہیں بلکہ وہ بچہ کی غذا کا فضلہ یا کسی بیماری کے سبب ہوتا ہے۔ [فتح الباري ج1 ص551]

ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و غرض البخاري بهذا الباب والله تعالیٰ اعلم، ان لا تحيض، وهو قول ابي حنيفة (والكوفين) والاوزاعي واحد قولي الشافعي، لان اشتمال الرحم صلى الولد يمنع الخروج» [التوضيح لشرح لجامع الصحيح، ج6، ص96]
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب سے غرض یہ ہے کہ (واللہ اعلم) حاملہ کو حیض نہیں آتا اور یہ قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (کوفیین) اوزاعی اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہم کا ہے۔ کیوں کہ جس رحم میں بچہ ہو وہ (حیض کے خون سے) روکتا ہے۔
فائدہ: تقدیر پر ایمان لانا ایمانیات میں داخل ہے اور اس کا انکار ایمانیات کا انکار ہے۔ تقدیر کے اہم مسئلہ پر کچھ سوالات ابھرتے ہیں
مثلاً بخاری شریف کی حدیث نے واضح کر دیا کہ ماں کے پیٹ میں جب بچے پر پھونک ماری جاتی ہے تو اسی وقت اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے مگر ایک اور حدیث ہے جس کو بخاری نے ذکر کیا ہے کہ:
«عن انس رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من احب ان يبسط له فى رزقه وينسا له فى اثره فليصل رحمه»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو یہ چاہتا ہو کہ اس کے رزق اور عمر میں برکت ہو تو وہ صلہ رحمی کرے [مشكوة المصابيح باب البر و الصلة ج3 ص327]
حدیث سے بائیں طور پر واضح ہوا کہ صلہ رحمی سے عمر اور رزق میں برکت ہوتی ہے حالانکہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
«فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ» [16-النحل: 61]
کہ جب موت کا وقت ان پر پہنچے گا تو نہ ہی ایک گھڑی آگے ہو گی اور نہ ہی پیچھے
قرآن مجید میں تقدیر کا مسئلہ کچھ اس طرح سے ہے کہ موت آگے پیچھے نہیں ہو سکتی اپنے مقررہ وقت کے لیکن بخاری و مسلم کی احادیث میں واضح ہے کہ موت آگے پیچھے ہو سکتی ہے اس تعارض اور الجھن کو دور کرنے کے لئے یہ تطبیق قابل غور ہے صاحب تنقیح الرواۃ علامہ ابوسعید المحدث الدھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس حدیث میں یہ مذکور ہے کہ صلہ رحمی سے عمر اور رزق میں اضافہ ہے اس حدیث کا تعلق فرشتوں کے علم کے ساتھ مقید ہے اور جس آیت میں موت کا ذکر ہے اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے علم کے ساتھ ہے۔ [ديكهئے تنقيح الرواة ج2 س337]
فائدہ نمبر 2: مذکورہ بالا حدیث میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نشانی کا اثبات ہے۔ ہم اس حدیث کو پڑھتے ضرور ہیں کہ ان تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ایک اللہ ہے مگر ہم نے اس کی نشانیوں پر کبھی غور نہیں کیا۔ مندرجہ بالا حدیث اور اس کے متعلق وہ احادیث جن کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب القدر میں ذکر فرمایا ہے ان احادیث کا تعلق مسائل جنین (Embryology) کے ساتھ ہے۔ قرآن مجید میں کئی آیات جنین کے مسائل کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں، مگر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ان مسائل پر گہرا تبصرہ موجود ہے جو اس بات کی مبین دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: جب نطفے پر بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس کی صورت اور کان آنکھ کھال گوشت اور ہڈیاں بناتا ہے۔ پھر عرض کرتا ہے اے پروردگار! یہ مرد ہے یا عورت؟ پھر جو مرضی الٰہی ہوتی ہے وہ فرماتا ہے، فرشتہ لکھ دیتا ہے، پھر عرض کرتا ہے۔ اے پروردگار! اس کی عمر کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے، اور فرشتہ وہ لکھ دیتا ہے پھر عرض کرتا ہے کہ اے پروردگار! اس کی روزی کیا ہے، چنانچہ پروردگار جو چاہتا ہے وہ حکم فرما دیتا ہے اور فرشتہ لکھ دیتا ہے اور پھر وہ فرشتہ وہ کتاب اپنے ہاتھ میں لے کر باہر نکلتا ہے، جس میں کسی بات کی کمی ہوتی ہے اور نہ زیادتی۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو الصادق المصدوق قال: إن احدكم يجمع خلقه فى بطن امه اربعين يوما ثم يكون علقة مثل ذلك ثم يكون مضغة مثل ذلك ثم يبعث الله ملكا فيؤمر باربع كلمات ويقال له: اكتب عمله ورزقه واجله وشقي او سعيد» [صحيح بخاري، باب بدء الخلق: 3208، صحيح مسلم كتاب القدر]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس طرح ہوتی ہے کہ وہ چالیس دن ماں کے پیٹ میں نطفے کی شکل میں رہتا ہے، پھر بندھا ہوا خون ہو کر چالیس دن رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیج کر اس میں روح پھونکتے ہیں اور چار چیزوں کا اس کے بارے میں فیصلہ فرماتے ہیں اس کی روزی، اس کی عمر، اس کے اعمال اور اس کا بد بخت یا نیک بخت ہونا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ان الله قد وكل بالرحم ملكا، ‏‏‏‏‏‏فيقول: ‏‏‏‏ اي رب نطفة، ‏‏‏‏‏‏اي رب علقة، ‏‏‏‏‏‏اي رب مضغة، ‏‏‏‏‏‏فإذا اراد الله ان يقضي خلقها، ‏‏‏‏‏‏قال: ‏‏‏‏ اي رب اذكر ام انثى، ‏‏‏‏‏‏اشقي ام سعيد، ‏‏‏‏‏‏فما الرزق، ‏‏‏‏‏‏فما الاجل، ‏‏‏‏‏‏فيكتب كذلك فى بطن امه» [صحيح بخاري، باب القدر، حديث 6595]
اللہ تعالیٰ نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر فرما رکھا ہے، وہ عرض کرتا ہے کہ اے میرے رب! گوشت کا لوتھڑا تیار ہو گیا اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ اس کی تخلیق کرنا چاہتے ہیں تو وہ فرشتہ دریافت کرتا ہے کہ اے میرے رب! نر ہے یا مادہ، بدبخت ہے یا نیک بخت، اس کی روزی کتنی ہے، عمر کتنی ہے؟ اس طرح رحم مادر میں ہی ان چیزوں کے بارے میں اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نطفہ، علقہ اور مضغہ کے مراحل کا تذکرہ فرمایا ہے جب کہ اس سے پہلے والی حدیث میں بیان ہوا ہے کہ نطفہ بننے کے بعد بیالیس راتیں گزرنے پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتہ آتا ہے اور وہ اس کی صورت سازی اور تخلیق کا کام انجام دیتا ہے۔ یہ مدت بالکل وہی ہے جس کے بارے میں علم جنین کے متعلق جدید تحقیقات بتاتی ہیں کہ اس مدت میں گوشت کے ٹکڑے میں موجود جسمانی حصے ہڈیوں اور پٹھوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ پھر ہڈیوں پر گوشت اور پٹھے چڑھتے ہیں، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جنین کی نشو و نما کے مراحل میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں مذکورہ مراحل اور علم جنین کے سلسلے کی جدید تحقیقات کے نتائج بالکل یکساں ہیں۔
لیکن فرشتے کے حاضر ہونے کے زمانے کے بارے میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیثوں میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ کیوں کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تو یہ ہے کہ فرشتہ بیالیس راتوں کے بعد حاضر ہوتا ہے جب کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتہ ایک سو بیس دن کے بعد حاضر ہوتا ہے، علماء نے ان دونوں احادیث کے درمیان تطبیق دی، ہے۔
چنانچہ اس ضمن میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پہلے چالیس دن کے بعد تخلیق کی ابتداء پر دلالت کرتی ہے، اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ تیسرے چلے کے بعد تخلیق کا آغاز ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان تطبیق کس طرح کی جائے، اس کا جواب یہ ہے کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث تخلیق کا آغاز چالیس روز کے بعد شروع ہو جانے کے سلسلے میں صریح ہے اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں صورت سازی اور تخلیق کے وقت سے تعارُض نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ اس میں نطفے کے مختلف ادوار کا بیان ہے اور اس بات کا تذکرہ ہے کہ ہر چالیس دن کے بعد نیا مرحلہ شروع ہوتا ہے اور تیسرے چلے کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے، اس چیز کا سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ذکر نہیں ہے بلکہ خاص طریقہ پر یہ چیز سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور ہے۔ لہٰذا یہ دونوں حدیثیں پہلے چلے کے بعد ایک خاص چیز کے پیدا ہونے پر متفق ہیں اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مخصوص طور پر یہ بات ہے کہ اس نطفے کی صورت سازی اور تخلیق کا عمل پہلے چلہ کے بعد شروع ہوتا ہے اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں خاص بات یہ مذکورہ ہے کہ جنین میں روح کا پھونکا جانا تیسرے چلے کے بعد ہوتا ہے اب یہ دونوں حدیثیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس دوران پیدا ہونے والے بچے کی تقدیر کے بارے میں فرشتہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کر کے لکھتا ہے اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام باتیں سچی ہو گئیں اور ایک حدیث دوسری حدیث کی تصدیق کرنے والی ہو گئی۔ [تحفة المودود: بأحكام المولود از ابن قيم الجوزي رحمه الله، ص224]
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی اس تشریح سے وہ اختلاف ختم ہو جاتا ہے جو سیدنا حذیفہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی حدیث کے درمیان محسوس ہوتا ہے کیونکہ سیدنا حذیفہ کی حدیث میں بیالیس راتوں کے بعد صورت سازی اور تخلیق کے آغاز کی طرف اشارہ ہے اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ جب جنین تخلیق کے مراحل پورے کر چکا تب اس میں روح پھونکی جاتی ہے اور تخلیق کی تکمیل رحمِ مادر میں نطفہ قرار پانے کے بعد ایک سو بیس دن میں مکمل ہوتی ہے، جنین میں روح پھونکے جانے کے بعد وہ ایک دوسری مخلوق ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ حرکت کرنے اور آوازوں کو سننے پر قادر ہو جاتا ہے اور اس کا دل برابر دھڑکنے لگتا ہے۔ اسی جانب قرآن مجید کے ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:
«ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ» [المؤمنون: 14]
ترجمہ: پھر ہم نے اس کو نئی صورت میں بنایا، لہٰذا اللہ تعالیٰ ہی سب سے اچھا پیدا کرنے والا ہے، بابرکت ہے۔‏‏‏‏
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تخلیق مکمل ہونے اور روح پھونکے جانے کا جو زمانہ بتایا گیا ہے وہ بالکل وہی ہے جو جدید علم جنین میں جنین کے اندر حرکت پیدا ہونے کے لئے بتایا گیا ہے۔ یعنی نطفہ ٹھہرنے کے بعد تیسرے مہینے کے آخر یا چوتھے مہینے کے شروع میں جنین کی نشو و نما کے مراحل کے بارے میں اس حدیث میں مذکورہ مراحل اور علم جنین کے سلسلہ کی جدید تحقیقات کے نتائج بالکل یکساں ہیں۔ ڈاکٹر کیتھ مور بھی مندرجہ بالا احادیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حدیث ذکر کی پہلی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر انسان کی تخلیق کے تخلیقی اجزاء چالیس دنوں (5 ہفتے اور 5 دنوں) میں جمع ہوتے ہیں۔ تخلیقی اجزاء کو سائنسی زبان میں (Primordia) کہتے ہیں۔ حدیث ذکر کے سلسلے کی جننیات تشریح میں جننیاتی دورانیہ (Embryonic Period) کا بیان آچکا ہے۔ یہ دورانیہ پانچ یا چھ ہفتوں میں مکمل ہوتا ہے جس میں تمام اہم اعضاء سوائے تولیدی اعضاء کے پرائیمورڈیا کی نمو ہو جاتی ہے۔ جدید سائنسی معلومات کے مطابق چھٹے ہفتے (42 دنوں) میں تولیدی ابھار گونیڈیل رجز نمودار ہوتے ہیں۔ جن کی طرف سے ابتدائی تخمی سیلز (Primordial Germ Cells) جمع ہونا شروع ہوتے ہیں۔ پھر ان سے ساتویں ہفتے میں تولیدی اعضاء کے پرائیمورڈ یا تشکیل ہو کر ان میں صنفی کرداروں (Secual Characters) کی ابتداء ہوتے ہے۔ [تخليق انساني اور معجزات قرآن ان كيته مور، ص89]
سلف صالحین سے بھی کئی اقوال موجود ہیں جس سے یہ واضح نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انسان کی مکمل تخلیق چار ماہ کے بعد ہوتی ہے۔

ابن الملقن رحمہ اللہ اپنی شرح میں فرماتے ہیں:
«واتفق العلماء على أن نفخ الروح لا يكون إلا بعد أربعة أشهر» [التوضيح، ج5، ص98]
اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ روح کو پھونکا جانا چار ماہ کے بعد ہوتا ہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ بھی اسی طرف اشارہ فرماتے ہیں دیکھئے۔ [تفسير القرطبي، ج12، ص8]
تینتالیس (43) ہفتوں میں یہاں تک کہ چار ماہ مکمل ہوتے ہیں تو روح میں پھونک ماری جاتی ہے۔ [التوضيح، ج5، ص98]
قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ولم يختلف ان نفخ الروح فيه يكون بعد مائة و عشرين يوما، و ذالك تمام اربعة اشهر» [اكمال المعلم بشرح صحيح مسلم۔ ج8۔ ص128]
ان اقتباسات اور تحقیقات سے واضح ہوا کہ چار ماہ کے اختتام پر انسان مکمل انسانی صورت رحم میں اختیار کر لیتا ہے۔
فائدہ نمبر 3: قرآن و سنت میں انسانی پیدائش پر تفصیلی بحث موجود ہے۔ جس طرح کہ ہم نے پچھلے اوراق میں واضح کیا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو کئی اطوار کے ذریعے پیدا فرمایا۔ ابن العماد الأقفھسی [المتوفی 867ھ] نے اپنی کتاب [الذريعة إلى معرفة الاعداد الواردة فى الشريعة] میں تفصیلی گفتگو فرمائی ہے اور آپ نے بارہ اطوار کا ذکر فرمایا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدائش سے لے کر قیامت تک بارہ اطوار میں تبدیل فرمائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «مَّا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّـهِ وَقَارًا ﴿﴾ وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا» [نوح: 13-14]
تمہیں کیا ہوا کہ تم اللہ کی عظمت کی توقیر نہیں کرتے۔ حالانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے پیدا فرمایا۔
ابن العماد نے جن بارہ اطوار کا ذکر فرمایا ہے آپ نے ان آیات سے استدلال کا اخذ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ﴿ ﴾ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ﴿ ﴾ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّـهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ» [المؤمنون: 12-14]
➊ ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا۔
➋ پھر اس کو ایک مضبوط جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا۔
➌ پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔
➍ پھر لوتھڑے کو بوٹی بنائی۔
➎ پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں۔
➏ پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا۔
➐ پھر اس کو ایک نئی صورت میں بنا دیا۔
➑ پھر اس کے بعد تم مر جاتے ہو۔
➒ پھر قیامت کے روز اٹھا کر کھڑے کیے جاؤ گے۔
اس کے بعد ابن العماد الأفقھسی رقمطراز ہیں:
«ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا» [40-غافر:67]
➓ پھر تم کو نکالتا ہے (کہ تم) بچے (ہوتے ہو)۔
⓫ پھر تم اپنی جوانی تک پہنچتے ہو۔
⓬ پھر بوڑھے ہو جاتے ہو۔
یعنی یہ تین اطوار ہیں جس کا ذکر بھی قرآن مجید نے ہی کیا ہے۔ یہ مکمل بارہ اطوار ہوئے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 150   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:318  
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ آیت کریمہ کی حدیث شریف سے تفسیر کرنا چاہتے ہیں، لیکن تفسیر کا مقام تو کتاب التفسیرہے، کتاب الحیض سے اس کا کیا تعلق ہے؟ تعلق بایں طور ہے کہ جب نطفہ رحم مادر میں جائے گا تو اس کی دو صورتیں ہوں گی۔
اس میں تخلیقی کیفیت پیدا کی جائے گی اور یہ اس وقت ممکن ہوتا جب رحم میں حیض کی صلاحیت ہو حیض کے بغیر نطفے میں تخلیقی تبدیلی لانا اللہ کے قانون کے خلاف ہے۔
اس میں تخلیقی کیفیت پیدا نہ کی جائے، اس طرح کے نطفے کو رحم باہر پھینک دیتا ہے، اس طرح حدیث کا کتاب الحیض سے ربط تو ہو گیا، لیکن امام بخاری کا اس عنوان بندی سے کیا مقصد ہے؟ اس کے متعلق شارح بخاری ابن بطال ؒ فرماتے ہیں:
اس عنوان سے امام بخاری ایک اختلافی مسئلے کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر حالت حمل میں عورت کو خون آجائے تو اس خون کو حیض قراردیا جائے گا، یا اسے استحاضہ شمار کریں گے؟ امام بخاری کے نزدیک ایام حمل میں آنے والا خون حیض نہیں ہو سکتا، اہل کوفہ اور اوزاعی نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔
(شرح ابن بطال: 444/1)

ایام حمل میں آنے والا خون حیض نہیں ہوتا، کیونکہ استقرارحمل کے بعد رحم کا منہ بند کردیا جاتا ہے اور خون حیض سے اللہ تعالیٰ بچے کی خوراک کا کام لیتا ہے اور جو نلکی بچے کی ناف سے لگی رہتی ہے وہ خون کو صاف بھی کرتی ہے اور اس کی وساطت سے صاف شدہ خون بچے کے لیے غذا کا کام بھی دیتا ہے، حمل قرارپانے کے بعد دوہی صورتیں ہیں۔
اس بچے کا (مُّخَلَّقَةٍ)
یعنی تام الخلقت ہونا مقدر ہوگا۔
پورا ہونا منظور نہ ہوگا۔
دوسری صورت میں سقط بن کر جائے گا۔
کرنے سے پہلے رحم کا منہ بندہے۔
وقت آنے پر رحم کا منہ کھول کر اسے گرادیا جائے گا اس لیے استقرارحمل کی صورت میں جو خون آرہا ہے وہ حیض کا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ رحم سے بر آمد نہیں ہوتا۔
اس لیے کہ اس کا منہ بند ہے نیز اس مقصد کو ثابت کرنے کے لیے بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ رحم کی صفائی معلوم کرنے کے لیے حیض کی آمد کو علامت قراردیا گیا ہے۔
اگر بحالت حمل بھی حیض آسکتا ہے تو استبرائے رحم کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ (فتح الباري: 543/1)

اگر نطفے سے اولاد کا ہونا اللہ کے ہاں مقدر نہیں ہوتا تو وہ خون حیض رحم میں بند ہو جاتا ہے اور وہ بچے کی پرورش پر صرف ہوتا ہے اور اگر اللہ کے ہاں اس نطفے سے اولاد کا ہونا مقدرنہیں ہوتا تو وہ خون کے ہمرا ہ رحم سے خارج ہوجاتا ہے. اولاد ہونے کی صورت میں اللہ کی طرف سے مختلف فرشتے متعین ہوتے ہیں جو مختلف اطوار میں بچے کی پرورش و پرواخت کرتے ہیں مختلف مراحل حسب ذیل ہیں۔
پہلے مرحلے میں نطفہ امشاج اپنی حالت میں چالیس دن تک رہتا ہے.
دوسرے مرحلے میں علقہ بن جاتا ہے اور چالیس دن اس خون بستہ پر گزرتےہیں۔
تیسرے مرحلے میں اسے مضغے کی شکل دی جاتی ہے اور چالیس دن اس گوشت کے لوتھڑے پر گزرتے ہیں۔
چوتھے مرحلے میں صورت ولد تیار ہوتی ہے اور اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ چار ماہ بعد اس میں روح پڑتی ہے اور یہ تمام امور فرشتےکی نگرانی میں انجام پاتے ہیں، ان مراحل کا ذکر احادیث میں ہے۔
(صحیح البخاي، بدء الخلق، حدیث: 3208)

امام بخاری ؒ نے صراحت کے ساتھ حاملہ کے حیض آنے یا نہ آنے کو ثابت نہیں فرمایا، بلکہ ان کے اندر اور اسلوب سے اشارہ ملتا ہے کہ حاملہ کو حیض نہیں آتا، کیونکہ رحم میں بچے کا محفوظ ہونا خون حیض کے خروج کے لیے ایک رکاوٹ ہے۔
حافظ ابن حجر نے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حدیث مذکورسے عدم اتیان حیض کا استدلال محل نظر ہے، کیونکہ حدیث سے صرف یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حاملہ رحم سے بر آمد ہونے والی چیز نا تمام بچہ ہے جس کی شکل و صورت نہیں ہوتی۔
اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ حاملہ کے رحم سے اگر بحالت حمل خون نکلے تو وہ حیض نہیں ہو گا۔
جن حضرات نے یہ دعوی کیا ہے کہ نکلنے والا خون بچے کی غذا کا فضلہ یا اس کے جسم سے ٹپکا ہے یا کسی بیماری کی وجہ سے وہ خون نکلا ہے تو اس دعوے کے ثبوت کے لیے دلیل درکار ہے اور جو اخبار وآثار اس سلسلے میں مروی ہیں وہ ثبوت دعوی کے لیے ناکافی ہیں، بلکہ یہ خون بھی دم حیض کی صفات کا حامل ہے اور اس وقت اس کے آنے کا امکان بھی ہوتا ہے، لہٰذا اسے دم حیض کا حکم دینا چاہیے اور جو اس کے خلاف دعوی کرتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے موقف کو دلیل سے ثابت کرے۔
(فتح الباري: 543/1)

آخر میں ہم زمین حجاز کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ کی تحقیق لکھتے ہیں جو انھوں نے اپنے ایک رسالے میں پیش کی ہے فرماتے ہیں:
عام طور پر جب عورت کو استقرار حمل ہوتا ہے تو خون حیض رک جاتا ہے، چنانچہ امام احمد ؒ فرماتے ہیں کہ عورتیں خون حیض کے رک جانے سے حمل کی پہچان کرتی ہیں۔
حاملہ کے خون دیکھنے کی دو صورتیں ہیں۔
اگر ولادت سے دو تین دن پہلے خون دیکھیں اور اس کے ساتھ دردزہ نہ ہو تو وہ نفاس کا خون ہوگا۔
* اگر ولادت سے بہت عرصہ پہلے خون دیکھیں یا چند دن پہلے کون آئے اور اس کے ساتھ دردِ زہ نہ ہو تو وہ نفاس نہیں ہوگا۔
نفاس نہ ہونے کی صورت میں اسے خون حیض قرار دیا جائے گا یا استحاضہ؟ اس میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحیح بات یہ ہے کہ اسے خون حیض شمار کیا جائے گا۔
بشرطیکہ حیض کے معتاد طریقے کے مطابق ہو، کیونکہ اصل یہی ہے کہ عورت کو جو خون آتا ہے وہ حیض کا ہو تا ہے، بشرطیکہ کوئی ایسا سبب حائل ہو جائے کہ اس کی موجودگی میں اسے حیض نہ قراردیا جاسکتا ہو۔
کتاب وسنت میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس کی روسے ہم فیصلہ کریں کہ حاملہ کو حیض نہیں آسکتا، امام شافعی ؒ اور امام مالک ؒ کا یہی موقف ہے اور حافظ ابن تیمیہ ؒ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔
کہ امام بیہقی ؒ نے امام احمد ؓ سے یہی بات نقل کی ہے، بلکہ انھوں نے فرمایا کہ امام احمد کا پہلے عدم حیض کا موقف تھا جس سے انھوں نے رجوع کر لیا تھا۔
اس بنا پر حاملہ کے حیض کے وہی احکام ہوں گے جو غیر حاملہ کے حیض کے لیے ہوتے ہیں۔
البتہ دو مسائل میں اس کا حکم الگ ہوگا۔
غیر حاملہ کو ایام حیض میں طلاق دینا درست نہیں، کیونکہ اس حالت میں طلاق دینے سے ارشاد نبوی کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے کہ تم عورتوں کو طلاق دینا چاہوں تو طلاق عدت کے دنوں میں دو۔
(الطلاق: 65۔
1)

لیکن حاملہ عورت کو بحالت حیض طلاق دینے سے یہ مخالفت لازم نہیں آتی، کیونکہ دوران حمل میں طلاق دینا اس سے عدت وضع حمل ہے جو ابھی نہیں ہو گا، اس لیے حاملہ کو دوران حیض میں طلاق دینا حرام نہیں، جبکہ غیر حاملہ کو دوران حیض میں طلاق دینا صحیح نہیں۔
حاملہ عورت کو اگر حیض آجائے تو اس سے عدت متاثر نہیں ہوگی اور نہ حیض سے اس کی عدت ہی شمار ہوگی، جبکہ غیر حاملہ کی عدت حیض ہی سے شمار ہوتی ہے، کیونکہ حاملہ کی عدت تو وضع حمل ہے، خواہ اسے حیض آئے یا نہ آئے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ﴾ حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنے حمل کو جنم دے دیں۔
(الطلاق: 65۔
4)

بہرحال اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ دوران حمل میں اگر خون آتا ہے تو عورت کو نماز روزہ ترک نہیں کرنا چاہیے اور نہ خاوند کو مقاربت کرنے ہی کی کوئی ممانعت ہے۔
واللہ أعلم۔
اس حدیث کے متعلق دیگر مباحث کتاب القدر میں بیان ہوں گے۔
بإذن اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 318   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6730  
حضرت انس بن مالک مرفوعاًبیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:" اللہ عزوجل (برتراور بزرگ)نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر فرمایا ہے وہ کہتا ہے اے میرے رب! یہ نطفہ ہے، اے میرے رب!(اب یہ)علفہ بن گیا ہے، اے میرے رب! اب یہ گوشت کا لوتھڑا بن گیا ہے، چنانچہ جب اللہ اس کی تخلیق کا فیصلہ کرلیتا ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے اے میرے رب!مذکرہے یا مؤنث ہے یا بد بخت ہے یا نیک بخت؟اس کا رزق کیا ہے؟ اس کی مدت حیات کتنی ہے؟ یہ سب کچھ اس کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6730]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ مضغہ گوشت کا لوتھڑا بننے کے بعد،
اعضاء اور جوارح کی تکمیل شروع ہوتی ہے اور اس وقت اس کے مذکر یا مؤنث ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے اور اس کی تقدیر لکھی جاتی ہے اور تقدیر لکھنے والا فرشتہ،
رحم پر مقرر فرشتہ سے الگ بھی ہو سکتا ہے اور دونوں کام کرنے والا فرشتہ ایک بھی ہو سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6730   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3333  
3333. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ نے رحم مادر کے لیے ایک فرشتہ مقرر کررکھا ہے جو عرض کرتا ہے: اےپروردگار! یہ نطفہ ہے۔ اے میرے مالک! یہ خون بستہ ہوگیا ہے۔ اے میرے رب! یہ اب گوشت کا ٹکڑا بن گیا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اس کی اتمام تخلیق کا ارادہ فرماتا ہے۔ توفرشتہ عرض کرتا ہے: اے میرے پروردگار! یہ مرد ہے یا عورت؟ اے میرے رب! یہ نیک بخت ہے یا بدبخت؟ اس کی روزی کتنی ہے؟ اور مدت زندگی کس قدر ہے؟ چنانچہ یہ تمام تفاصیل اس کی ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3333]
حدیث حاشیہ:
بچہ اپنی اسی فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ تقدیر اس کے سامنے آتا رہتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3333   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3333  
3333. حضرت انس بن مالک ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ نے رحم مادر کے لیے ایک فرشتہ مقرر کررکھا ہے جو عرض کرتا ہے: اےپروردگار! یہ نطفہ ہے۔ اے میرے مالک! یہ خون بستہ ہوگیا ہے۔ اے میرے رب! یہ اب گوشت کا ٹکڑا بن گیا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اس کی اتمام تخلیق کا ارادہ فرماتا ہے۔ توفرشتہ عرض کرتا ہے: اے میرے پروردگار! یہ مرد ہے یا عورت؟ اے میرے رب! یہ نیک بخت ہے یا بدبخت؟ اس کی روزی کتنی ہے؟ اور مدت زندگی کس قدر ہے؟ چنانچہ یہ تمام تفاصیل اس کی ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3333]
حدیث حاشیہ:

دوسری حدیث میں عمل کا ذکر نہیں کیونکہ سعادت و شقاوت (نیک بختی اور بدبختی)
کے ضمن میں عمل بھی آجاتا ہے رحم پر دو فرشتے مقرر ہیں۔
ایک مستقل طور پر ڈیوٹی دیتا ہے اور ایک ہنگامی طور پر تقدیر لکھنے کے لیے آتا ہے۔
اگرچہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ توازل سے ہو چکا ہوتا ہے۔
تاہم اللہ تعالیٰ اس فیصلے کو فرشتے کے لیے ظاہر کرتا ہے اور اس کے لکھنے کا حکم دیتاہے۔

اس حدیث کے مطابق حمل ٹھہرنے کے چوتھے مہینے میں روح ڈال دی جاتی ہے جبکہ طب جدید کا کہنا ہے کہ بچے میں حرکت وغیرہ اس سے پہلے پیدا ہو جاتی اس کا جواب یہ ہےکہ چار ماہ سے پہلے حرکت نمودار بڑھوتری کی حرکت ہوتی ہے جو نباتات میں بھی پائی جاتی ہے جہاں تک روح کا تعلق ہے جو امر ربی ہے جس سے انسان میں ادراک اور شعور پیداہوتا ہے۔
جس کی بنیاد پر جزا و سزا کا حق دار ہوگا اور مرنےکے بعد وہ اس سے الگ ہو جاتی ہے اور قیامت کے دن ہمیشہ کے لیے اسے جسم کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔
وہ چوتھے مہینے ہی ڈالی جاتی ہے۔

ان احادیث میں انسان کی تخلیق کے مراحل بیان ہوئے ہیں۔
اس لیے امام بخاری ؒ نے انھیں ذکر کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3333   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6595  
6595. حضر ت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے جو کہتا رہتا ہے کہ اے رب! یہ نطفہ قرار پایا ہے۔ اے رب! یہ خون بستہ بن گیا ہے، اے رب! یہ گوشت کے لوتھڑے کی صورت اختیار کر گیا ہے جب اللہ تعالیٰ اس کی پیدائش کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے: اے رب! یہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ نیک ہے یا بد؟ اس کا رزق کیا ہے؟ اس کی مدت حیات کیا ہے؟ اسی طرح یہ سب باتیں شکم مادر ہی میں لکھ دی جاتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6595]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مضمون بیان فرمائے ہیں:
شروع میں انسانی تخلیق کے ان چند مراحل کا ذکر ہے جن سے انسان نطفۂ امشاج کے بعد نفخ روح تک رحم مادر میں گزرتا ہے۔
ان مراحل کا ذکر اگلے مضمون کے لیے بطور تمہید ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس نوشتہ (لکھے ہوئے)
کا ذکر کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا فرشتہ نفخ روح کے وقت پیدا ہونے والے انسان کے متعلق لکھتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی نوشتۂ تقدیر کی وضاحت کے پیش نظر ان احادیث کو یہاں بیان کیا ہے۔
(2)
کچھ اہل علم نے تقدیر کی درج ذیل چار قسمیں بیان کی ہیں:
٭ تقدیر ازلی:
اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا ازلی اور ابدی علم ہے۔
کہیں بھی اس سے ذرہ بھر مختلف نہیں ہو سکتا، مگر یہ ازلی علم بندوں کو ان کے اعمال و کردار میں مجبور نہیں کرتا۔
اس ازلی تقدیر کی دو قسمیں ہیں:
(ا)
علم:
اللہ تعالیٰ کو اس سب کچھ کا علم ہے جو کائنات میں ہونے والا ہے یا اس کی مخلوق کرنے والی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے ازلی علم کے ذریعے سے ان تمام چیزوں کو اجمالاً و تفصیلاً جاننے والا ہے جو ظاہر ہو چکی ہیں یا وجود میں آنے والی ہیں۔
(ب)
کتابت:
اللہ تعالیٰ نے اپنے ازلی علم کے مطابق تمام اشیاء کو لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سب سے پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی وہ قلم تھی، پھر اسے فرمایا لکھ۔
اس نے عرض کی:
اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قیامت قائم ہونے تک ہر ہر چیز کی تقدیر لکھ دے، چنانچہ اس نے لکھ دیا۔
(سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4700)
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے کائنات میں ہونے والے تمام واقعات کو تحریر کر لیا تھا۔
(صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6748 (2653)
ان دونوں قسموں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے۔
(الحج: 70/22)
تقدیر عمری:
انسان نے عمر بھر میں جو کچھ کرنا ہے وہ الگ سے محفوظ ہے اس کی پھر دو قسمیں ہیں:
(ا)
اولاد آدم سے عہد و پیمان لیتے وقت لکھا گیا تھا جیسا کہ سورۂ اعراف کی آیت: 172 میں ہے۔
(ب)
شکم مادر میں تقدیر عمری کا بیان امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ پہلی حدیث میں ہے۔
٭ تقدیر یومی:
ہر روز اس کے تازہ فیصلے نافذ ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر روز کوئی بیمار ہو رہا ہے، کسی کو بیماری سے شفا دے رہا ہے، کوئی موت کے گھاٹ اتر رہا ہے:
ہر روز (ہر وقت)
وہ ایک (نئی)
شان میں ہے۔
(الرحمٰن: 29/55)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے روایات کے حوالے سے لکھا ہے کہ جو امور انسان کو دنیا میں پیش آنے والے ہوتے ہیں وہ سب لکھ دیے جاتے ہیں حتی کہ جو ذرا سی خراش بھی لگنی ہے وہ بھی لکھ دی جاتی ہے، اور ان امور کی کتابت کسی متعلق دفتر میں ہوتی ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے:
پھر یہ صحیفہ لپیٹ دیا جاتا ہے اور اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی۔
(صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6725 (2644)
، و فتح الباري: 588/11)

واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6595