Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
7. بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ آمِينَ. وَالْمَلاَئِكَةُ فِي السَّمَاءِ، فَوَافَقَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ:
باب: اس حدیث کے بیان میں کہ جب ایک تمہارا (جہری نماز میں سورۃ فاتحہ کے ختم پر باآواز بلند) آمین کہتا ہے تو فرشتے بھی آسمان پر (زور سے) آمین کہتے ہیں اور اس طرح دونوں کی زبان سے ایک ساتھ (با آواز بلند) آمین نکلتی ہے تو بندے کے گزرے ہوئے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
حدیث نمبر: 3237
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ إِلَى فِرَاشِهِ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَيْهَا لَعَنَتْهَا الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تُصْبِحَ" تَابَعَهُ شُعْبَةُ، وَأَبُو حَمْزَةَ، وابْنُ دَاوُدَ، وأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا، لیکن اس نے آنے سے انکار کر دیا اور مرد اس پر غصہ ہو کر سو گیا، تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ اس روایت کی متابعت، ابوحمزہ، ابن داود اور ابومعاویہ نے اعمش کے واسطہ سے کی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3237 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3237  
حدیث حاشیہ:
ابوعوانہ کے ساتھ اس حدیث کو شعبہ اور ابوحمزہ اور عبداللہ بن داؤد اور ابومعاویہ نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے۔
شعبہ کی روایت خود مؤلف نے کتاب النکاح میں وصل کی ہے اور ابوحمزہ کی روایت موصولاً نہیں ملی اور ابن داؤد کی روایت مسدد نے اپنی بڑی مسند میں وصل کی اور ابومعاویہ کی روایت امام مسلم اور نسائی نے موصولاً نکالی ہے۔
اس حدیث کو یہاں لانے سے فرشتوں کا وجود ثابت کرنا مقصود ہے کہ وہ ایسی نا فرمان عورت پر خدا کے حکم سے رات بھر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مرد کی اطاعت عورت کے لیے کتنی ضروری ہے۔
مرد کی خواہش کی قدر نہ کرنا عورت کے لیے بدبختی کا سبب بن سکتا ہے۔
عورت کی زینت یہی ہے کہ بچے سے اس کی گود بھرپور ہو اور بچہ کے لیے مرد سے ملاپ ضروری تھا جس کے لیے عورت نے انکار کردیا۔
ممکن ہے اسی ملاپ میں اس کو اولاد کی نعمت حاصل ہوجاتی، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مصالح ہیں جن کی بنا پر عورت کے لیے مرد کی اطاعت ضروری ہے۔
عدم اطاعت کی صورت میں بہت سے فسادات پیدا ہوسکتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3237   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3237  
حدیث حاشیہ:

ممکن ہے کہ اس ملاپ میں عورت کو اولاد کی نعمت حاصل ہو جو عورت کے لیے دنیا میں سب سے بڑی زینت ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مصالح ہیں جن کی بنا پر عورت کے لیے مرد کی خواہش کا احترام کرناضروری ہے۔
عدم اطاعت کی صورت میں بہت سے مفاسد پیدا ہوسکتے ہیں۔

حدیث میں رات کا ذکر عام حالات کے پیش نظر ہے بصورت دیگر یہ وعید تو حقوق زوجیت کے انکار پر ہے، خواہ دن کے وقت ہو۔

اس حدیث سے مقصود فرشتوں کا وجود ثابت کرنا ہے کہ وہ ایسی نافرمان عورت پر اللہ کے حکم سے رات بھر لعنت ونفرین بھیجتے رہتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3237   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 875  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مرد اپنی بیوی کو جنسی خواہش کے لئے اپنے بستر پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے اور خاوند ناراض ہو کر رات گزارے تو فرشتے صبح تک اس عورت پر لعنت و پھٹکار بھیجتے رہتے ہیں۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ اور مسلم میں ہے کہ جو آسمان میں ہے وہ اس پر ناراض رہتا ہے جب تک کہ خاوند بیوی سے خوش و راضی نہ ہو جائے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 875»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب إذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها، حديث:5193، 3237، ومسلم، النكاح، باب تحريم امتناعها من فراش زوجها، حديث:1436.»
تشریح:
1. اس حدیث کی رو سے خاوند کی جنسی خواہش پوری کرنے سے بیوی کا (بلاوجہ) انکار کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
2. یہ مرد کا عورت پر ایسا حق ہے جسے پورا کرنا عورت پر لازم ہے۔
لیکن مرد کے لیے بھی عورت کی صحت اور طبیعت کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 875   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2141  
´بیوی پر شوہر کے حقوق کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کرے اور اس کے پاس نہ آئے جس کی وجہ سے شوہر رات بھر ناراض رہے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2141]
فوائد ومسائل:
بنیادی حقیقت تو یہی ہے جو رسول ﷺبے فرما دی ہے کہ اس طرح بے شمار نفسیاتی اور اجتماعی شرور کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور انکار کی صورت میں بہت سے انفرادی، خاندانی اور معاشرتی فساد جنم لیتے ہیں۔
اس لئے عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ خاوند کے جذبات کا لحاظ رکھے تاہم اگر کوئی معقول عذرہو لیکن خاوند اسے اہمیت نے دے رہا ہو۔
مثلا بیوی بہت زیادہ بیمارہو اس کی صحت مرد کی خواہش پوری کرنے کی متحمل نہ ہو یا اور کسی قسم کا کا کوئی معقول عذر ہو تو بیوی کا انکار امید ہے کہ اللہ عزوجل کے ہاں قابل مواخذہ نہیں ہو گا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2141   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3541  
امام صاحب اپنے چار اساتذہ سے روایت کرتے ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر آنے کی دعوت دیتا ہے، اور وہ اس کے پاس نہیں آتی جس سے وہ ناراضگی کی حالت میں رات بسر کرتا ہے، تو فرشتے صبح ہونے تک اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3541]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بیوی کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے خاوند کی خواہش کا احترام کرے،
اور اس کے طلب کرنے یا اس کی خواہش کے مطابق اس کے بستر پر حاضر ہو،
اور بلا کسی عذر و مجبوری،
حاضری سے انکار نہ کرے،
حالت حیض میں بھی تعلقات زن و شوہر سے بچتے ہوئے باہمی میل جو اور محبت و پیارکے اظہار میں کوئی حرج نہیں ہے،
ہاں اگر جماع کا خطرہ ہو تو پھر خاوند کو احتراز کرنا چاہیے،
اور اگر خاوند اس کی خاطر بلائے توعورت کو انکار کردینا چاہیے اگر وہ بلا شرعی عذر یا مجبوری (بیماری لاغری وغیرہ)
کے انکار کرتی ہے تو پھروہ فرشتوں کی لعنت کی مستحق ٹھہرتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3541   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5193  
5193. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہےوہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب کوئی شوہر اپنی بیوی کو اپنے بستر ہر بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5193]
حدیث حاشیہ:
عورت کاغصہ بجا ہو یا بے جا مگر اطاعت کے پیش نظر اس کا فرض ہے خاوند کے بستر پر حاضری دینا اگر وہ خفگی میں رات کو ایسا نہ کرے تو بلا شک اس وعید شدید کی مستحق ہے۔
عورت کے لئے خاوند کی اطاعت ہی اس کی زندگی کو بہتر بنا سکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5193   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5193  
5193. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہےوہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب کوئی شوہر اپنی بیوی کو اپنے بستر ہر بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5193]
حدیث حاشیہ:
عام طور پر بیوی خاوند کاملاپ رات کے وقت ہوتا ہے، اس لیے"صبح تک" کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ورنہ یہ حکم دن رات دونوں وقتوں کو شامل ہے جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مجھے اس ذات قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو آسمان والا اس پر سخت ناراض ہوتا ہے حتی کہ شوہر اس سے راضی ہو جائے۔
(صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3540 (1436)
اس روایت میں رات کا ذکر نہیں ہے۔
معلوم ہوا کہ مذکورہ حکم رات اور دن دونوں کو شامل ہے۔
ایک روایت میں ہےکہ جب خاوند اس پر ناراض ہو تو وہ لعنت کی حق دار ہوتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ خاوند اگر ناراض نہ ہو تو عورت لعنت کی زد میں نہیں آئے گی۔
(فتح الباري: 365/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5193   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5194  
5194. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب کوئی عورت اپنے شوہر کے بستر سے الگ ہو کر رات گزارے تو اس کے واپس آنے تک اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5194]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دو آدمیوں کی نماز قبول نہیں ہوتی:
ایک بھگوڑا غلام حتی کہ وہ واپس آ جائے اور دوسری وہ عورت جس نے اپنے شوہر کی نافرمانی کی حتی کہ وہ اس سے باز آجائے۔
(سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: 288) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیوی کو شوہر کی موافقت کرنی چاہیے اور اس کا خیال رکھنا چاہیے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کا ترک جماع پر صبر کرنا مرد سے قوی ہے۔
مرد اس معاملے میں بہت کمزور واقع ہوا ہے۔
والله اعلم (فتح الباري: 366/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5194