Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
7. بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ آمِينَ. وَالْمَلاَئِكَةُ فِي السَّمَاءِ، فَوَافَقَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ:
باب: اس حدیث کے بیان میں کہ جب ایک تمہارا (جہری نماز میں سورۃ فاتحہ کے ختم پر باآواز بلند) آمین کہتا ہے تو فرشتے بھی آسمان پر (زور سے) آمین کہتے ہیں اور اس طرح دونوں کی زبان سے ایک ساتھ (با آواز بلند) آمین نکلتی ہے تو بندے کے گزرے ہوئے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
حدیث نمبر: 3235
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ ابْنِ الْأَشْوَعِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَأَيْنَ قَوْلُهُ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى {8} فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى {9} سورة النجم آية 8-9، قَالَتْ:" ذَاكَ جِبْرِيلُ كَانَ يَأْتِيهِ فِي صُورَةِ الرَّجُلِ، وَإِنَّهُ أَتَاهُ هَذِهِ الْمَرَّةَ فِي صُورَتِهِ الَّتِي هِيَ صُورَتُهُ فَسَدَّ الْأُفُقَ".
مجھ سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا بن ابی زائدہ نے بیان کیا، ان سے سعید بن الاشوع نے، ان سے شعبی نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا (ان کے اس کہنے پر کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا نہیں تھا) پھر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد «ثم دنا فتدلى * فكان قاب قوسين أو أدنى‏» کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ آیت تو جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں ہے، وہ انسانی شکل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتے تھے اور اس مرتبہ اپنی اس شکل میں آئے جو اصلی تھی اور انہوں نے تمام آسمان کے کناروں کو ڈھانپ لیا تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3235 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3235  
(8)
فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى﴾ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ آیت تو جبرئیل ؑ کے بارے میں ہے، وہ انسانی شکل میں آنحضرت ﷺ کے پاس آیا کرتے تھے اور اس مرتبہ اپنی اس شکل میں آئے جو اصلی تھی اور انہوں نے تمام آسمان کے کناروں کو ڈھانپ لیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
شب معراج میں آنحضرت ﷺ نے اللہ کو دیکھا تھا یا نہیں، اس بارے میں علماءمیں اختلاف ہے۔
حضرت عائشہ ؓ کا خیال یہی ہے کہ آپ نے اللہ پاک کو نہیں دیکھا۔
بہرحال آیت مذکورہ کے بارے میں حضرت عائشہ ؓ نے ان لوگوں کا رد کیا جو اس سے آپ کا دیدار الٰہی ثابت کرتے ہیں۔
فرمایا کہ آیت میں جس کی قربت کا ذکر ہے۔
اس سے حضرت جبرئیل ؑ مراد ہیں۔
وقال النووي الراجح المختار عندأکثر العلماء أنه رأہ ببصرہ واللہ أعلم التواقف فیها لعدم الدلائل الواضحة علی أحدالجانبین خیر۔
یعنی امام نووی ؒ نے کہا کہ اکثر علماء کے نزدیک یہی راجح ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھا چونکہ کسی خیال کی تائید میں واضح دلائل نہیں ہیں، اس لیے مسئلہ میں خاموش رہنا بہتر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3235   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3235  
تخريج الحديث:
[111۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 53 سورة النجم: 1 باب حدثنا يحييٰ۔۔۔ 3235۔ مسلم 177]
لغوی توضیح:
«قَفَّ شَعْرِيْ» میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
[112۔ البخاري فى: 59 كتاب بدي الخلق: 7 باب إذا قال أحدكم آمين۔۔۔۔]
فھم الحدیث: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ شب معراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شب معراج اللہ کو دیکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ تو نور ہے (یا نور کے پردے میں ہے) میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں؟ [مسلم: كتاب الايمان 178]
سابق مفتی اعظم سعودیہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دینا میں بیداری کی حالت میں کبھی بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ [مجموع فتاويٰ ابن باز 27/ 118]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 111   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3235  
حدیث حاشیہ:

ان تمام احادیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ کو ان کی اصل شکل وصورت میں دیکھا۔
انھوں نے آسمانوں کے کنارے بھردیے تھے۔
ان کے چھ سوپَر تھے اور ان کے دوپروں کے درمیان اتنا فاصلہ تھا جتنا مشرق اور مغرب کے درمیان ہے۔
سنن نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بہت وسیع وعریض سبز قالین پر حضرت جبرئیل ؑ کوبیٹھے دیکھا تھا۔
(السنن الکبریٰ للنسائي: 473/6)
اکثر اوقات وہ حضرت وحیہ کلبی ؓ اور کسی اعرابی کی شکل میں آیا کرتے تھے۔
صرف دو مرتبہ اپنی اصل شکل میں سامنے آئے:
ایک بار فضائے آسمان سے اُترے اور دوسری مرتبہ سدرۃ المنتہیٰ پر ظاہر ہوئے۔
صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
اللہ تعالیٰ تو ایک نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں؟ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 443(178)
اس سے حضرت عائشہ ؓ کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ا پنے رب کو کھلی آنکھ سے نہیں دیکھا۔
اس کے متعلق مکمل بحث ہم آئندہ کریں گے۔
إن شاء اللہ۔

ان احادیث سے مقصود صرف فرشتوں کا وجودثابت کرناہے، نیزاللہ تعالیٰ نے انھیں یہ سہولت دی ہے کہ وہ انسانی شکل وصورت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3235