Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
7. بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ آمِينَ. وَالْمَلاَئِكَةُ فِي السَّمَاءِ، فَوَافَقَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ:
باب: اس حدیث کے بیان میں کہ جب ایک تمہارا (جہری نماز میں سورۃ فاتحہ کے ختم پر باآواز بلند) آمین کہتا ہے تو فرشتے بھی آسمان پر (زور سے) آمین کہتے ہیں اور اس طرح دونوں کی زبان سے ایک ساتھ (با آواز بلند) آمین نکلتی ہے تو بندے کے گزرے ہوئے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
حدیث نمبر: 3232
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ، عَنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى {9} فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى {10} سورة النجم آية 9-10، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ مَسْعُودٍ: أَنَّهُ رَأَى" جِبْرِيلَ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق شیبانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زر بن حبیش سے اللہ تعالیٰ کے (سورۃ النجم میں) ارشاد «فكان قاب قوسين أو أدنى * فأوحى إلى عبده ما أوحى‏» کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کو (اپنی اصلی صورت میں) دیکھا، تو ان کے چھ سو بازو تھے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3232 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3232  
(9)
فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى﴾ کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابن مسعود ؓ نے بیان کیا تھا کہ آں حضرت ﷺ نے جبرئیل ؑ کو (اپنی اصلی صورت میں)
دیکھا، تو ان کے چھ سو بازو تھے۔
حدیث حاشیہ:
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3232   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3232  
تخريج الحديث:
[110- البخاري فى: 59 كتاب بدء الخلق: 7 باب إذا قال أحدكم آمين 3232۔ مسلم 174، ترمذي 3277]
فھم الحدیث:
آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور جبرئیل علیہ السلام کے درمیانی فاصلے کا ذکر ہے جیسا کہ حدیث بھی اسی کی وضاحت کر رہی ہے اور قرآن کے سیاق سے بھی یہی پتہ چلتا ہے اور جو لوگ اس آیت سے اللہ تعالیٰ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا درمیانی فاصلہ مراد لیتے ہیں ان کی رائے درست نہیں۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 110