Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
2. بَابُ مَا جَاءَ فِي سَبْعِ أَرَضِينَ:
باب: سات زمینوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3197
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الزَّمَانُ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلَاثَةٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ، وَذُو الْحِجَّةِ، وَالْمُحَرَّمُ، وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے ابوبکرہ کے صاحبزادے (عبدالرحمٰن) نے بیان کیا اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت پر آ گیا جیسے اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کی تھی۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، چار مہینے اس میں سے حرمت کے ہیں۔ تین تو پے در پے۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور (چوتھا) رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3197 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3197  
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ تھا کہ عربوں کی یہ بھی ایک جہالت تھی کہ وہ کبھی محرم کو صفر کردیتے۔
کہیں اپنے اغراض فاسدہ کے تحت ذی الحجہ کو محرم بنادیتے۔
غرض کچھ عجیب خبط مچارکھا تھا۔
آنحضرت ﷺ کو اللہ پاک نے صحیح مہینہ بتلادیا۔
زمانہ کے گھوم آنے سے یہی مطلب ہے کہ جو اصل مہینہ اس دن سے شروع ہوا تھا، جس دن اس نے زمین آسمان پیدا کئے تھے۔
اسی حساب سے اب صحیح مہینہ قائم ہوگیا۔
اس سے قمری مہینوں کی فضیلت بھی ثابت ہوئی، جن سے ماہ و سال کا حساب عین فطرت کے مطابق ہے۔
جس کا دن شام کو ختم ہوتا اور صبح سے شروع ہوتا ہے۔
اس کا مہینہ کبھی تیس دن کا اور کبھی29دن کا ہوتا ہے۔
اس کا حساب ہر ملک میں رؤیت ہلال پر موقوف ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3197   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3197  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3197 باب: «بَابُ مَا جَاءَ فِي سَبْعِ أَرَضِينَ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے سات زمینوں کا ذکر فرمایا ہے، دلیل کے طور پر قرآن مجید سے سورۃ طلاق کی آیت پیش کی ہے جو مکمل طور پر ترجمۃ الباب سے مطابقت رکھتی ہے، اس کے علاوہ سیدنا ابوسلمہ بن عبدالرحمن، سیدنا عبداللہ بن عمر، سیدنا زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہم سے احادیث نقل فرمائی ہیں جو کہ واضح ترجمۃ الباب سے مطابقت رکھتی ہیں۔ مگر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جو حدیث نقل فرمائی ہے اس میں زمین کا ذکر ضرور ہے مگر سات زمینوں کا ذکر موجود نہیں ہے، جس سے ترجمۃ الباب سے مطابقت نہیں بنتی۔
دراصل سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں آسمان اور زمین کی پیدائش کا ذکر کیا گیا ہے مگر بعض احادیث کی نصوص قرآن مجید کی آیات سے واضح ہوتا ہے کہ آسمان تعداد کے اعتبار سے سات ہیں اور زمینیں بھی سات ہی ہیں کیوں کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر آسمان کا ذکر واحد کے صیغے کے ساتھ کیا گیا ہے جو کہ تقریبا قرآن مجید میں 13 مقامات بنتے ہیں۔ [المعجم المفهرس لالفاظ القرآن الكريم] مگر وہ تمام آیات اسی امر پر محمول ہیں کہ وہ سات کی تعداد میں ہیں اور سورۃ طلاق میں «مثلهن» فرما کر زمین کی گنتی کا بھی واضح تعین فرما دیا گیا ہے، بعین اسی طرح سے امام بخاری رحمہ اللہ نے جو حدیث سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پیش کی ہے اس میں بھی واحد کے صیغے کے ساتھ «الأرض» کا ذکر ہے، مگر یہاں پر ایک ضروری قاعدہ یاد رکھنا چاہئے کہ:
ارض اور سماء اگرچہ واحد کے صیغے ہیں مگر یہاں پر مراد ہے جنس سماء اور جنس ارض عربیت کے قواعد کے اعتبار سے جس کا اطلاق ایک پر بھی ہوتا ہے ایک سے زائد بھی، لیکن قرآن مجید میں بتصریح آسمان کو سات آسمان قرار دیا ہے جس میں جنس کا تعین بھی ہوا اور تعداد کا بھی، زمین کیلئے «مثلهن» کہہ کر اس کو آسمان کے مثل قرار دیا گیا ہے کہ وہ بھی تہہ بہ تہہ سات ہیں۔ جس کی وضاحت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بایں طور پر ثابت ہوتی ہیں۔
امام الطبرانی رحمہ اللہ نے کتاب الدعا اور معجم الکبیر میں مرفوع حدیث کا ذکر فرمایا ہے کہ:
«أن رسول الله لم ير قرية يريد دخولها إلا قال حين يراها: اللهم رب السماوات السبع وما اظللن ورب الأرضين السبع وما اقللن و رب الشياطين و ما اضللن و رب الرياح وما زرين انا نسئلك خير هذا القرية وخير أهلها ونعوذبك من شرها و شر أهلها و شر ما فيها.» [كتاب الدعا للطبراني، ج 2، ص: 119 - المعجم الكبير للطبراني، ج 8، ص: 39 - عمل اليوم و الليل لابن السني، ص: 472]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی ایسی بستی کو دیکھتے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہونا چاہتے تو اسے دیکھتے ہی یہ دعا مانگتے تھے کہ اللہ! اے سات آسمانوں کے مالک اور ان چیزوں کے مالک جن پر یہ آسمان سایہ فگن ہے، اے سات زمینوں کے مالک اور ان چیزوں کے مالک جن کو یہ زمینیں اٹھائی ہوئی ہیں، اے شیطانوں کے مالک اور ان لوگوں کے مالک جن کو انہوں نے گمراہ کیا ہے، اے ہواؤں کے مالک اور ان چیزوں کے مالک جن کو یہ ہوائیں اڑا رہی ہیں، ہم سوال کرتے ہیں کہ اس بستی اور اس کے باشندوں کے خیر سے ہمیں فائدہ پہنچا اور ان کے باشندوں کے شر سے ہمیں بچا۔
معجم الکبیر کی حدیث سے زمینوں کا واضح تعین ہو گیا کہ آسمانوں کی طرح زمین بھی سات ہی ہیں، لہذا اس صورت میں صحیح البخاری کی حدیث جو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس پر غور فرمائیں کہ اس میں «سماوات» جمع کے ساتھ ہیں اور قرآن اور حدیث میں اس کا تعین سات کی تعداد میں موجود ہے، اور صحیح البخاری کی حدیث میں زمین واحد کے صیغہ کے ساتھ ذکر کی گئی ہے، اب قاعدہ یہ ہوا کہ جب آسمان سات ہیں تو زمین بھی سات ہی ہوں گی، لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
فائدہ 2:
جدید سائنس کا دائرہ کتنا بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے مگر وہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے بیانات کے مد مقابل کبھی نہیں آ سکتے، کیونکہ قرآن و حدیث کا تعلق وحی کے ساتھ ہے جس میں غلطی، لغزش اور خطا کا تصور بھی کفر ہے، کیوں کہ جدید سائنس انسانی کاوشوں اور تحقیق کا محور ہے جس میں اغلاط کے ہزارہا امکانات دامن گیر ہیں، ہم جانتے ہیں کہ سائنس کے بیانات میں کئی تعارضات پائے گئے ہیں، صدیوں قبل سائنسی بیانات کچھ اور تھے، جس طرح وقت بدلتا گیا تحقیق کے دریچے بڑھتے گئے اور جدید سائنس ترقی کرتی گئی لیکن 1400 سال قبل جو بیانات (Statement) قرآن و حدیث نے پیش کئے وہ اپنی جگہ آج بھی اٹل اور حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہذا ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر ایمان لانا چاہئے، اگر موجودہ تحقیقات بالفرض قرآن و حدیث کے مخالف ہوں گیں تو اس مقام پر یہی کہا جائے گا کہ ابھی سائنس کی تحقیقات میں کمی ہے جو کہ اصل حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کر پائی، بلکہ میں یہاں تک کہوں گا کہ ماڈرن سائنس (Modern Science) اگر قرآن و حدیث کے مخالف ہو گی تو وہ مردود ہو گی، ہمارے لئے نص حدیث اور واضح دلیل صرف کتاب و سنت ہی ہیں۔
سات زمینوں کی حقیقت اور اس کے محل وقوع پر علامہ طنطاوی اور علامہ آلوسی بغدادی رحمہما اللہ کی رائے:
سورۃ طلاق کی آیت پر مفسرین کرام نے مختلف توجیہات پیش فرمائی ہیں اور مختلف قسم کی آراء کا بھی اظہار فرمایا ہے جسے ہم احتمالی اور امکانی تاویلات سے تعبیر کریں گے، بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ سات زمینوں سے مراد «اقاليم سبعة» یعنی زمین کے مختلف براعظم مثلا ایشیا، افریقہ، امریکہ، یورپ وغیرہ، یہ ایک احتمالی ہے جس کا مفسرین نے ذکر فرمایا ہے، امام رازی رحمہ اللہ نے اس رائے کو احتمال کا درجہ دیا ہے، لیکن یہ احتمال واضح طور پر مرفوع حدیث کے مخالف ہے لہذا یہ قاعدہ بھی یاد رکھنا چاہے: مرفوع حدیث کے مقابلے میں کسی بڑے سے بڑے فقیہ اور محدث یا مفسر کی بات ہرگز مقبول نہ ہو گی بلکہ اس کی بات کو رد کر دیا جائے گا، چنانچہ مسند احمد و ترمذی کی مرفوع حدیث کے مطابق آسمانوں کی طرح زمینیں بھی تہہ بہ تہہ ہیں۔ اسی بناء پر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اور علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اس قول کا رد فرمایا ہے۔ دیکھئے: [البداية و النهاية، ج: 1، ص: 21 - روح المعاني، ج 28، ص: 144]
علامہ آلوسی رحمہ اللہ سات زمینوں کے بارے میں فرماتے ہیں:
«و قد غلب على ظن أكثر أهل الحكمة الجديدة أن القمر عالم كعالم أرضنا هذه و فيه جبال و بحار يزعمون أنهم يحسون بها بواسطه أرصادهم وهم مهتمون بالسعي فى تحقيق الأمر فيه فليكن ما نقول به من الأرضين على هذا النحو.» [روح المعاني، ج 14، ص: 339]
حکمت جدیدہ کے حکماء کی اکثریت کا گمان یہ ہے کہ چاند ہماری زمین کی طرح کا ایک ملک ہے جس پر پہاڑ بھی ہیں اور دریا بھی ہیں، ان کا دعوی ہے کہ ہم نے اپنی رصد گاہوں میں چاند پر ان چیزوں کو محسوس کیا ہے، یہ لوگ چاند کے بارے میں مزید تحقیق کا اہتمام کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ مزید معلومات کو حاصل کیا جائے اور ممکن ہے کہ ہم جن زمینوں کے قائل ہیں نہ اسی طرح کی ہوں جیسا کہ چاند ہے۔
نوٹ: یاد رہے علامہ آلوسی البغدادی رحمہ اللہ 1370ھ میں فوت ہوئے ہیں، اب کی تحقیقات میں کافی اضافہ ہو چکا ہے۔
علامہ آلوسی رحمہ اللہ کے دور کے حکماء کا خیال آپ نے پڑھا اور اس میں بعض باتیں صحیح بھی ثابت ہوئی ہیں، لیکن یہاں ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ علم جدید، اور حکمت جدیدہ کے مطابق ان کے نزدیک زمین سات نہیں ہیں بلکہ کروڑوں ہیں، مگر حدیث میں سات کے عدد کے ساتھ منقول ہیں۔ اسی بات کا جواب دیتے ہوئے علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ممکن ہے کہ زمینیں اور آسمان سات سے زائد ہوں، سات کے عدد تام کا ذکر اس بات کا تقاضا کرتا کہ اس سے زائد نہ ہوں اس لئے کہ عربیت کے ماہرین نے تصریح کی ہے کہ عدد کا مفہوم مخالف معتبر نہیں ہوتا۔ [روح المعاني، ج 14، ص: 340]
لہذا لفظ سات کا عدد زائد کی نفی نہیں کرتا، قرآن و حدیث میں کوئی ایسی صراحت نہیں جہاں یہ کہا گیا ہو کہ زمینیں اور آسمان صرف سات ہی ہیں لہذا اگر یہ ثابت ہو جائے کہ زمینیں زیادہ ہیں تب بھی قرآن و حدیث کے مخالف نہیں ہیں۔ واللہ اعلم
یہاں ایک بہت بڑا دوسرا اشکال وارد ہوتا ہے کہ سنن ترمذی کی حدیث میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ «ما تحت كم» کہ تمہارے لئے زمین کے نیچے یعنی باقی چھ زمینیں اس زمین کے نیچے ہیں، اب اگر چاند، مریخ، اور دوسرے کواکب کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو وہ ہمیں ہماری زمین سے اوپر دکھائی دیتے ہیں، اس کا جواب مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی زبانی سنیئے، آپ رقمطراز ہیں:
ممکن ہے کہ یہ زمینیں بعض حالات میں اس زمین کے تحت ہو جاتی ہوں اور بعض حالات میں اوپر ہو جاتی ہوں۔ [بيان القرآن، تفسير سورة طلاق، آيت 12]
علم الکونیات کے مشہور و معروف حکیم طنطاوی مصری زمینوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ زمینیں بھی آسمان کی طرح سات ہیں، مگر اس کے بعد وہ فرماتے ہیں:
یہ عدد حصر کا تقاضیٰ نہیں کرتا جب تم کسی سے کہو کہ میرے پاس اعلی نسل کے دو گھوڑے ہیں، ایک پر تم سوار ہو جاؤ اور دوسرے گھوڑے پر تمہارا بھائی، تو یہ بات اس کی نفی نہیں کرتی کہ تمہارے پاس ہزار گھوڑے ہیں۔ یہاں پر بھی اسی طرح ہے کہ کیوں کہ فلکیات کے ماہرین نے کہا ہے کہ کم سے کم ممکن زمینیں جو بڑے بڑے سورجوں کے گرد گھومتی ہیں اور جن کو ہم سیارے کہتے ہیں، تین سو ملین (3 کروڑ) زمینوں سے کم نہیں ہیں۔ [الجواهر فى تفسير القرآن الكريم، ج 12، ص: 195]
علامہ فرید واجدی بھی اسی بات کے قائل ہیں کہ زمینیں سات ہیں مگر ان سے مراد وہی کواکب ہیں جن کے بارے میں جدید ماہرین فلکیات کی رائے ہے کہ یہ ہماری زمین کی طرح ہے۔
دائرۃ المعارف القرن العشرین، ج 1، ص: 191، مادہ ارض، الموسوعۃ الکونیہ الکبری کے محقق ماہر احمد الصوفی فرماتے ہیں:
«بل أن الحقيقة ان فى الكون سبع سماوات وسبع أراضين أى سبع كواكب تشبه كوكبنا الأرض، ولاندري . . . ماذا سيكتشف العلم مستقبلا.» [الموسوعة الكونية الكبرى، آيات الله فى خلق الكون ونشأة الحياة فى السماء الدنيا والسموات السبع، ص: 75]
بلکہ یہ حقیقت ہے کہ سات آسمان اور سات زمین سے مراد کواکب ہیں جو کہ ہماری زمین سے مشابہت رکھتے ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ عنقریب کیا انکشافات ہوں گے مستقبل میں۔
خلاصہ بحث یہ ہے کہ «و من الأرض مثلهن» کے ظاہر اور احادیث کے پیش نظر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آسمانوں کی طرح زمینیں بھی اوپر نیچے سات ہیں جن کے درمیان بڑے بڑے طویل سفر اور فاصلے ہیں، ممکن ہے اس میں بھی اللہ تعالی کی مخلوقات رہتی ہوں۔
لہذا ہمیں قرآن و حدیث کے بیانات کے مطابق ہی اپنی گزارشات اور تحقیقات کو سامنے رکھنا چاہیے۔ جدید تحقیقات اور سائنس کا دائرہ چاہے کتنا ہی وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے مگر یہ تمام کاوش انسانی کاوشوں پر مبنی ہیں، جن میں صحت کے ساتھ اغلاط کثیر کے بھی کئی امکانات دامن گیر ہیں۔ لیکن اس کے بر عکس قرآن و حدیث سے نکلنے والے بیانات قطعی اور اٹل حقیقت ہیں، ان میں کسی قسم کی بھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہ دونوں وحی ہیں اور وحی کو اللہ تعالی نے ہر قسم کی تبدیلی سے محفوظ رکھا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 474   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1947  
´حرمت والے مہینوں کا بیان۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج میں خطبہ دیا تو فرمایا: زمانہ پلٹ کر ویسے ہی ہو گیا جیسے اس دن تھا جب اللہ نے آسمان اور زمین کی تخلیق فرمائی تھی، سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے حرام ہیں: تین لگاتار ہیں، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور ایک مضر کا رجب ہے ۱؎ جو جمادی الآخرہ اور شعبان کے بیچ میں ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1947]
1947. اردو حاشیہ:
➊ اہل عرب میں قدیم سے یہ روایت چلی آتی تھی کہ ذوالقعدہ ذوالحجہ محرم اور رجب کےمہینوں کو حرمت والے مہینے جانتے تھے اور ان میں قتل و غارت اور عام دنگا فساد سےپرہیز کرتے تھے۔چنانچہ اسلام نے بھی ان کی حرمت کو بحال رکھا ہے مگر اس کایہ مفہوم نہیں کہ باقی مہینوں میں جو چاہے کیاجائے نہیں بلکہ ہمیشہ ہی اللہ کی حرمت کا پاس رکھنا فرض اورواجب ہے مگر ان مہینوں میں اور زیادہ اہتمام کیا جانا چاہیے۔سورہ توبہ میں ہے: ﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهورِ‌ عِندَ اللَّهِ اثنا عَشَرَ‌ شَهرً‌ا فى كِتـٰبِ اللَّهِ يَومَ خَلَقَ السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَر‌ضَ مِنها أَر‌بَعَةٌ حُرُ‌مٌ﴾ (التوبه:36) مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں باره کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے اس میں سے چار حرمت وادب کے ہیں۔
➋ زمانہ گھوم آیاہے اس میں اہل جاہلیت کی اس قبیح رسم کی طرف اشارہ ہے کہ وہ لوگ مہینوں کو آگے پیچھے کر دیتے تھے۔مثلاً محرم کوصفر کی جگہ مؤخر اور صفر کومقدم کر دیا اور اسے نسیء سےتعبیر کرتے تھے۔ اس طرح سال کی تاریخوں میں بہت خرابی پیدا ہوگئی تھی۔اورجس سال نبی ﷺنے حج کیا اس سال اور تاریخ اپنے بالکل صحیح وقت پرآئی تھی۔قرآن کریم نے عمل نسیء کو کفریہ اعمال میں سے شمار کیا ہے اورآیندہ صحیح تاریخ کی حفاظت کی ترغیب دی ہے۔ ﴿انما النسىءزيادة فى الكفر .... الخ ﴾ (التوبه:37)
➌ ماہ رجب کو قبیلہ مضر کی طرف اس لیے منسوب کیا گیاہے کہ وہ لوگ اس کابہت زیادہ احترام کرتے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1947   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4383  
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمانہ گھوم کر اپنی اس حالت کی طرف آ گیا ہے، جس پر اس وقت تھا، جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا، سال کے بارہ (12) ماہ ہیں، جن میں سے چار محترم (عزت و احترام والے) ہیں، تین متواتر ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجۃ، محرم اور رجب مضریوں کا مہینہ جو جمادی ثانی اور شعبان کے درمیان میں آتا ہے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا: یہ کون سا ماہ ہے؟ ہم نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول ہی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4383]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
عربوں میں قدیم دور سے یہ معمول چلا آ رہا تھا کہ وہ سال کے بارہ مہینوں میں سے چار ماہ،
ذوالقعدہ،
ذوالحجہ،
محرم اور رجب،
محترم مہینے تصور کرتے تھے،
ان مہینوں میں لوگ جنگ و جدال اور خون ریزی سے بالکل پرہیز کرتے تھے حتی کہ ان مہینوں میں ان کے باپ کا قاتل بھی سامنے آ جاتا تو اس سے تعرض نہ کرتے تھے،
ان مہینوں میں چونکہ ذوالحجہ کے مہینہ میں حج کا اجتماع ہوتا تھا،
جس کی تیاری اور اہتمام کے لیے ذوالقعدہ میں ہی جنگ و جدل سے بیٹھ رہتے تھے اور پھر اس اجتماع حج سے وہ لوگ تجارتی اور ثقافتی فائدے بھی اٹھاتے تھے،
بڑے پیمانے پر تجارتی معاملات ہوتے اور ادبی محفلیں جمتیں،
اس لیے حج سے واپسی کے بعد محرم کا مہینہ بھی امن و سکون سے گزارتے اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے فائدہ اور منافع کے لیے آسمان و زمین کی تخلیق کے وقت سے ہی سال کا آغاز و اختتام اشهر حرم سے کیا اور ایک محترم مہینہ سال کے درمیان میں بھی رکھا اور بقول علامہ عبدالقدوس ہاشمی،
عرب میں زمانہ یادگار سے قمری سال رائج تھا اور مہینوں کے نام بھی یہی تھے،
محرم،
صفر،
وغیرہ اور دنیا کی تقریبا ہر زبان میں مہینہ کے لیے جو لفظ ہے،
وہ اس زبان میں چاند کے لفظ سے مشتق ہے،
جیسے ماہ،
مہینہ،
ماس،
مون اور منتھ وغیرہ،
جو اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ آغاز میں مہینوں کا شمار چاند ہی سے کرتے تھے اور یہی فطرتی اور الٰہی تقویم ہے،
کیونکہ سال میں بارہ مرتبہ چاند کا عروج و زوال ہوتا ہے کہ چاند،
انتیس دن یا تیس دنوں کے بعد باریک سا دکھائی دیتا ہے اور پھر اس کے بعد ہر روز بڑھتا رہتا ہے اور جب چاند پورا روشن ہو جاتا ہے تو پھر روز بروز گھٹنا شروع ہو جاتا ہے اور آخر میں ایک دو دن کے لیے گم ہو جاتا ہے اور پھر دو یا تین دن کے بعد باریک سا نمودار ہو جاتا ہے،
اس طرح نیا مہینہ معلوم کرنے کے لیے نہ کسی فلکیاتی حساب کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ کسی رصدگاہ کی،
اس کے بعد جب انسانوں نے بڑے بڑے عبادت خانے بنائے،
وہاں پر وہت مقرر کیے اور ان پر وہتوں اور مجاوروں کو نذرانے پیش کیے جانے لگے،
سالانہ مذہبی میلے ہونے لگے اور پروہتوں نے لوگوں پر یہ پابندی عائد کر دی کہ وہ اپنی زرعی پیداوار کا ایک حصہ ان کی نذر کریں اور صومعات،
کلیساؤں اور بت خانوں پر چڑھاوے چڑھائیں تو آہستہ آہستہ محسوس ہوا،
جن قمری مہینوں میں فصل تیار ہوتی تھی،
اب تین چار سال کے بعد ان ہی قمری تاریخوں میں فصل تیار نہیں ہو رہی،
بلکہ ان کی تیاری میں ایک ماہ کی تاخیر ہو گئی ہے،
اس لیے حاجیوں نے قمری تاریخوں میں سوندا اور کبسہ کا طریقہ رائج کیا اور شمسی سال اور قمری سال کو برابر کر دیا،
اس کے لیے وہ ہر سال گیارہ دن کا اضافہ کرتے یا تین سال بعد ایک ماہ بڑھا دیتے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے تقریبا سوا تین سو سال پہلے عرب لوگ بت پرستی سے آشنا ہوئے اور یہ مرض تمام دیگر خرابیوں کے ساتھ عرب کے گھر گھر میں پھیل گیا تو اب حج ایک بت پرستی کا میلہ بن گیا،
بیت اللہ میں تمام قبائل کے بت رکھ دئیے گئے اور اس میں طرح طرح کی رسومات کا رواج پڑ گیا،
قمری مہینے موسموں کا ساتھ نہیں دیتے تھے،
جب انہوں نے دیکھا،
حج کا وقت سال کے تمام موسموں میں گردش کرتا ہے،
کبھی گرمی میں آتا ہے اور کبھی سردی میں،
کبھی موسم خریف میں اور کبھی موسم بہار میں اور ان تمام موسموں میں ان کی فصلیں تیار ہوتی ہیں اور نہ جانوروں کے بچے خریدوفروخت کے لیے تیار ہوتے ہیں،
اس لیے انہوں نے یہودیوں سے کبیسہ یا لوند کا طریقہ سیکھ کر رائج کر لیا،
تاکہ ان کا تجارتی کاروبار متاثر نہ ہو،
ظاہر ہے اس سے حج متاثر ہوا اور وہ سال کے مختلف مہینوں میں گردش کرنے لگا،
کبھی ذوالحجہ میں آتا،
پھر محرم میں،
پھر صفر میں،
اس طرح تینتیس (33)
سال بعد پھر وہ ذوالحجہ میں آ جاتا،
یہ طریقہ حجۃ الوداع تک جاری رہا،
اس سال گردش یا دورہ کے بعد دوبارہ حج حقیقہ ذوالحجہ کی 9 تاریخ کو جمعہ کے دن ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا،
اب زمانہ پھر صحیح وقت پر آ گیا ہے،
آئندہ سے کبیسہ نہیں ہو گا،
عرب چار مہینوں کو حرمت والے قرار دیتے تھے،
جب حج کے مہینے بدل دئیے گئے تو لازما حرمت کے مہینوں میں ہو سکے،
بعض مفسرین نے قرآن مجید کے لفظ ﴿إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ﴾ کا مفہوم یہی لیا ہے اور یہ صحیح معلوم ہوتا ہے،
کیونکہ اس صورت میں حج کے مہینے متاثر ہوتے تھے،
لیکن بعض حضرات نے ایک دوسرا معنی مراد لیا ہے کہ عرب لوگوں کا پیشہ چونکہ جنگ و جدال اور قتل و غارت تھا اور ان کے لیے تین ماہ مسلسل قتل و غارت سے باز رہنا بڑا مشکل تھا،
اس لیے بنو کنانہ کا سردار ہر سال منیٰ کے دنوں میں یہ اعلان کر دیتا،
اس سال ہم نے محرم کی بجائے صفر کو محترم قرار دیا ہے اور محرم،
حلال ماہ شمار ہو گا،
جس میں قتل و غارت کی پابندی نہیں،
اگلے سال پھر محرم کو محترم ماہ قرار دیتا،
اس طرح یہ تقدیم و تاخیر محرم اور صفر کے مہینوں میں ہوتی،
ظاہر اس سے حج متاثر نہیں ہوتا تھا،
اس لیے اس حدیث کو اس پر محمول کرنا ممکن نہیں ہے،
علامہ تقی نے دو اور صورتیں بھی بیان کی ہیں،
جو دل کو لگتی نہیں ہیں۔
(تفصیل کے لیے دیکھئے،
تقویم تاریخی،
عبدالقدوس ہاشمی کا مقدمہ ماہ و سال کی داستان اور تکملۃ از تقی عثمانی ج 2 ص 361 تا 364)
(2)
رجب کی نسبت مضر کی طرف اس لیے کی گئی ہے کیونکہ وہ اس کی بہت زیادہ تعظیم کرتے تھے نیز جمادی و شعبان کے درمیان ہونے کی قید اس لیے لگائی تاکہ پتہ چل سکے کہ محترم مہینہ مضر والا رجب ہے،
ربیعہ والا رمضان نہیں ہے،
کیونکہ قبیلہ ربیعہ کے لوگ مضر کے مقابلہ میں رمضان کو حرمت والا مہینہ قرار دیتے تھے۔
(3)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین سوال کیے تھے اور بعد میں جواب بیان کرنے کے بعد کچھ توقف اور سکوت اختیار فرمایا تھا،
تاکہ لوگ پوری طرح متوجہ ہو کر اہتمام سے جواب سنیں،
پھر بعض لوگوں نے ان سوالوں کا جواب بھی دیا،
لیکن اکثریت نے ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور یہ سمجھ کر ان تینوں باتوں کا جواب تو معروف و مشہور ہے،
ہر کوئی جانتا ہے،
کوئی خاص سبب یا وجہ نہیں ہے کہ آپ ان معروف چیزوں کے بارے میں سوال کر رہے ہیں،
یہ جواب دیا اللہ اور اس کے رسول کو ہی بہتر علم ہے۔
(4)
اس ماہ،
شہر مکہ اور اس دن کی حرمت و تعظیم ان کے ہاں ایک مسلمہ حقیقت تھی،
جو ان کے دلوں میں جاگزیں تھی لیکن انسانی جان،
مال اور عزت و ناموس کی حرمت اور احترام ان کے دلوں میں پختہ نہیں تھا،
اس لیے مسلمہ حقیقت سے تشبیہ دے کر ان کی حرمت و احترام کو ان پر واضح فرمایا اور کافر و گمراہ نہ ہونا کا مفہوم و معنی کتاب الایمان میں گزر چکا ہے۔
(5)
يكون اوعی له:
وعی کا معنی حفظ و فہم اور قبول کرنا ہے،
اس سے ثابت ہوتا ہے،
دین کی تبلیغ اور نشرواشاعت ضروری ہے اور بسا اوقات تلامذہ،
حفظ و فہم اور قبولیت و عمل میں اساتذہ سے بڑھ جاتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4383   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4406  
4406. حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: زمانہ اس دن کی ہئیت سے گردش کر رہا ہے جس دن اللہ تعالٰی نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہے۔ اس میں چار مہینے حرمت والے ہیں، تین تو مسلسل ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ اور ایک رجب ہے جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے۔ ہم نے گمان کیا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ آپ نے فرمایا: کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں، پھر آپ نے فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے گمان کیا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے۔ آپ نے فرمایا: کیا مکہ مکرمہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا: جی ہاں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4406]
حدیث حاشیہ:
ہوایہ کہ مشرک کمبخت حرام مہینوں کو اپنے مطلب سے پیچھے ڈال دیتے۔
محرم میں لڑنا حرام تھامگر ان کو اگر اس ماہ میں لڑنا ہوتا تو محرم کو صفر بنادیتے اور صفر کومحرم قرار دے دیتے۔
اسی طرح مدتوں سے وہ اپنے اغراض کے تحت مہینوں کو الٹ پھیر کرتے چلے آرہے تھے۔
اتفاق سے جس سال آپ نے حجۃ الوداع کیاتو ذی الحجہ کا ٹھیک مہینہ پڑا جو واقعی حساب سے ہونا چاہئےے تھا۔
اس وقت آپ نے یہ حدیث فرمائی۔
مطلب آپ کا یہ تھا کہ اب آئندہ غلط حساب نہ ہونا چاہئے اور مہینوں کا شمار بالکل ٹھیک گنتی کے موافق ہونا چاہئے۔
ماہ رجب کو قبیلہ مضر کی طرف اس لیے منسوب کیاکہ قبیلہ مضر والے اور عربوں سے زیادہ ماہ رجب کی تعظیم کرتے، اس میں لڑائی بھڑائی کے لیے ہر گز تیار نہ ہوتے۔
اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے بہت سے اصولی احکام کا ابلاغ فرمایا اور مسلمانوں کو آپس میں لڑنے جھگڑنے سے خاص طور پر منع فرمایا، مگر صدافسوس! کہ امت میں اختلاف پھر انشقاق وافتراق کا جو منظر دیکھا جارہا ہے۔
اس سے اندازہ لگايا جاسکتاہے کہ مسلمانوں نے اپنے رسول اللہ ﷺ کی آخری وصیت پر کہاں تک عمل درآمد کیا ہے۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے روایت میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے۔
باب سے یہی وجہ مطابقت ہے۔
حضرت محمد بن سیرین تابعین میں بڑے زبردست عالم، فقیہ، محدث، متقی، باخدا بزرگ گزرے ہیں۔
اتنے نیک تھے کہ ان کو دیکھنے سے خدا یاد آجاتا تھا۔
موت کو بکثرت یاد فرماتے تھے۔
خواب کی تعبیر میں بھی امام فن تھے۔
77سال کی عمر پاکر110ھ میں انتقال فرمایا۔
رحمه اللہ تعالیٰ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4406   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5550  
5550. سیدنا ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت ہر آ گیا ہے جس حالت پر اس دن تھا جب اللہ تعالٰی نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں: تین مسلسل، یعنی ذی العقد ذولحجہ اور محرم اور چوتھا مہینہ رجب مضر جو جماری الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔ (پھر آپ نے فرمایا) یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ خاموش ہو گئے۔ ہم سمجھے کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا: کیا یہ ذوالحجہ نہیں؟ ہم نے کہا: ذوالحجہ ہی ہے، پھر آپ نے فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر آپ خاموش ہو گئے۔ ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ بالآخر آپ نے فرمایا: کیا یہ بلدہ یعنی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5550]
حدیث حاشیہ:
یوم النحر صرف دسویں ذی الحجہ ہی کو کہا جاتا ہے اس کے بعد قربانی 11-12-13 تک جائز ہے۔
یہ ایام تشریق کہلاتے ہیں۔
عربوں نے تاریخ کو سب الٹ پلٹ کر دیا تھا ایک مہینہ کو پیچھے ڈال کر دوسرا مہینہ آگے کر دیتے کبھی سال تیرہ ماہ کا کرتے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے حجۃ الوداع میں بتلا دیا کہ یہ مہینہ حقیقت میں ذی الحجہ کا ہے۔
اب سے حساب درست رکھو مضر ایک عربی قبیلہ تھا جو ماہ رجب کا بہت ادب کرتا تھا اسی لیے رجب اس کی طرف منسوب ہو گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5550   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7447  
7447. سیدنا ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتےہیں کہ آپ نےفرمایا: زمانہ اپنی اس قدیم حالت پر گھوم کر آ گیا ہے جس روز سے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہوتا ہے جن میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین مسلسل یعنی ذوالقعدہ ذوالحجہ اور محرم، ایک مضر قبیلے کا رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان میں آتا ہے۔ اور یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا: یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا: یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر آپ خاموش رہے حتیٰ کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نےفرمایا: کیا بلدہ طیبہ (مکہ) نہیں ہے؟ ہم نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7447]
حدیث حاشیہ:
یہاں یہ حدیث اس لیے لائے کہ اس میں اللہ سےملنے کا ذکر ہے۔
رجب کے ساتھ مضر قبیلہ کا ذکر اس لیے لائےکہ مضر والے رجب کا بہت ادب کیا کرتے تھے۔
آخر میں قرآن وحدیث یاد رکھنے والوں کا ذکر آیا۔
چنانچہ بعد کےزمانوں میں امام بخاری، امام مسلم جیسے محدثین کرام پیدا ہوئے جنہوں نے ہزاروں احادیث کو یاد رکھا اور فن حدیث کی وہ خدمت کی کہ قیامت تک آنے والے ان کے لیے دعاگو رہیں گے۔
اللہ ان سب کو جزائے خیر دے اوراللہ تعالیٰ تمام اگلوں او ر پچھلوں کو جنت الفردوس میں جمع فرمائے آمین یارب العالمین۔
اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ مسلمان کے بے عزتی کرنا کعبہ شریف کی مکۃ المکرمہ کی بے عزتی کرنے کےبرابر ہے مگر کتنے لوگ ہیں جو اس گناہ کے ارتکاب سےبچ گئےہیں۔
إلاماشاءاللہ۔
یہ بھی ظاہر ہوا کہ مسلمانوں کو خانہ جنگی بدترین گناہ ہے ان کے مال و جان پر ناحق ہاتھ ڈالنا بھی اکبر الکبائر گناہوں سے ہے۔
آخر میں تبلیغ کے لیے بھی آپ نے تاکید شدید فرمائی وفقنا اللہ بمایحب ویرضیٰ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7447   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4406  
4406. حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: زمانہ اس دن کی ہئیت سے گردش کر رہا ہے جس دن اللہ تعالٰی نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہے۔ اس میں چار مہینے حرمت والے ہیں، تین تو مسلسل ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ اور ایک رجب ہے جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے۔ ہم نے گمان کیا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ آپ نے فرمایا: کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں، پھر آپ نے فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش ہو گئے حتی کہ ہم نے گمان کیا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے۔ آپ نے فرمایا: کیا مکہ مکرمہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا: جی ہاں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4406]
حدیث حاشیہ:

عرب لوگ اپنے مفاد کی خاطر مہینوں کو آگے پیچھے کرلیتے تھے۔
اسے نسئی کہتے ہیں۔
قرآن کریم نے اس خرابی کاذکر کیا ہے۔
حسن اتفاق سے حجۃ الوداع کے موقع پر مہینوں کی اصل ترتیب تھی جس پرانھیں اللہ نے پیدا کیا تھا۔

مہینوں کی وجہ تسمیہ کے متعلق علامہ قسطلانی ؒ نے لکھا ہے:
جب عرب اپنی قتل وغارت کی عادت چھوڑدیں تو ماہ محرم، جب ان کے بدن کمزور اوررنگ زرد پڑجائیں تو صفر، جب باغات پھل پھول لے آئیں اورخوشبوئیں مہکنے لگیں تو ربیعان، جب پھلوں کی قلت ہوجائے اور پانی جم جائے توجمادیان، جب نہریں چالو ہوجائیں اوردرخت لہلانے لگیں تو رجب، جب اونٹنیوں کے بچے پاؤں سے الگ ہوجائیں اور قبائل پھیل جائیں تو شعبان، جب فضا میں گرمی آجائے اور انگارے دبکنے لگیں تورمضان، جب بادل قلیل اور مکھیوں کی بہتات ہو، جانور دُمیں اٹھانے لگیں تو شوال، جب تاجر، تجارتی سفر سے بیٹھ جائیں تو ذوالقعدہ اور جب حج کے لیے قافلے جارہے ہوں تویہ ذوالحجہ ہے۔
(إرشاد الساري للقسطلاني: 148/7)

حرمت والے چار مہینوں کی ترتیب میں یہ حکمت ہے کہ سال کا آغاز اور اختتام حرمت سے ہو اور درمیان میں بھی حرمت کی یاددہانی رجب سے کی جائے۔
آخر میں دو مہینے مسلسل اس لیے ہیں تاکہ خاتمہ کی برتری کوبرقراررکھاجائے کیونکہ اعمال کا دارومدار بھی خاتمے پر ہے۔
(فتح الباري: 135/8)
اس حدیث میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے،عنوان سے یہی وجہ مطابقت ہے۔
امام بخاری ؒ نے اسی غرض سے اسے بیان کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4406   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4662  
4662. حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: زمانہ گھوم گھ کر پھر اسی حالت پر آ گیا ہے جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ تعالٰی نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی تھی۔ سال بارہ ماہ کا ہوتا ہے۔ اس میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین تو لگاتار ہیں، یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب مضر جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4662]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک خطبہ دیاتھا، حدیث کے الفاظ اس خطبے سے تعلق رکھتے ہیں مقصد یہ ہے کہ مشرکین مکہ دور جاہلیت میں جو نسیئی کیا کرتے تھے، یعنی اپنی اغراض ومقاصد کے پیش نظر ان مہینوں میں تقدیم وتاخیر کردیتے تھے، اب اس سیاہ قانون کے خاتمے کا وقت آچکا ہے۔
اس سال، یعنی دس ہجری میں تمام مہینے اپنی اپنی جگہ پر آگئے ہیں جو ان کی دست وبردار اور خیانت سے پہلے تھے۔
آئندہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔

یاد رہے کہ ماہ رجب کو قبیلہ مضر کی طرف منسوب کیا گیا ہے کیونکہ یہ قبیلہ ماہ رجب کی بہت تعظیم کیا کرتا تھا۔
(فتح الباري: 413/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4662   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5550  
5550. سیدنا ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت ہر آ گیا ہے جس حالت پر اس دن تھا جب اللہ تعالٰی نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں: تین مسلسل، یعنی ذی العقد ذولحجہ اور محرم اور چوتھا مہینہ رجب مضر جو جماری الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔ (پھر آپ نے فرمایا) یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ خاموش ہو گئے۔ ہم سمجھے کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا: کیا یہ ذوالحجہ نہیں؟ ہم نے کہا: ذوالحجہ ہی ہے، پھر آپ نے فرمایا: یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے عرض کی: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر آپ خاموش ہو گئے۔ ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ بالآخر آپ نے فرمایا: کیا یہ بلدہ یعنی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5550]
حدیث حاشیہ:
(1)
عربوں نے تاریخ کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا تھا۔
ایک مہینے کو پیچھے کر کے دوسرا مہینہ آگے کر دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔
کبھی کبھی سال تیرہ ماہ کا بھی ہو جاتا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جس سال حج کیا تھا عربوں نے ماہ ذوالحجہ کو ایک مہینہ پیچھے کر دیا تھا، یعنی وہ حج ذوالقعدہ کے مہینے میں ہوا تھا۔
اسے وہ نسیئ کہتے تھے جس کی قرآن کریم نے تردید کی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حج کیا وہ ذوالحجہ کے مہینے ہی میں تھا۔
اسی بات کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کے آغاز میں کی ہے۔
(2)
جو حضرات دسویں ذوالحجہ کو قربانی کا دن قرار دیتے ہیں ان کا استدلال یہ ہے کہ حدیث میں یوم کی اضافت النحر کی طرف ہے جو اختصاص کے لیے ہے، یعنی نحر اسی دن میں منحصر ہے لیکن دوسری نصوص کو نظر انداز کر کے صرف عقلی بنیاد پر مسئلہ بنا لینا دانشمندی نہیں جبکہ قرآن کریم میں ہے:
اور قربانی کے ایام معلومات میں مویشی قسم کے چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں دیے ہیں۔
(الحج: 28)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ذبح کے لیے متعدد ایام ہیں، چنانچہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تمام ایام تشریق قربانی کے دن ہیں۔
(مسند أحمد: 82/4)
ایام تشریق یوم النحر اور اس کے بعد تین دن ہیں، یعنی 10 ذوالحجہ سے لے کر 13 ذوالحجہ کی شام تک قربانی کی جا سکتی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5550   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7447  
7447. سیدنا ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتےہیں کہ آپ نےفرمایا: زمانہ اپنی اس قدیم حالت پر گھوم کر آ گیا ہے جس روز سے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہوتا ہے جن میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین مسلسل یعنی ذوالقعدہ ذوالحجہ اور محرم، ایک مضر قبیلے کا رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان میں آتا ہے۔ اور یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نے فرمایا: یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا: یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ پھر آپ خاموش رہے حتیٰ کہ ہم نے خیال کیا کہ آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ نےفرمایا: کیا بلدہ طیبہ (مکہ) نہیں ہے؟ ہم نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7447]
حدیث حاشیہ:

مشرکین مکہ اپنی مرضی سے مہینوں کو آگے پیچھے کر لیتے تھے اسی طرح حرمت والے مہینے کو اپنے لیے حلال اور اس کی جگہ کسی دوسرے مہینے کو حرمت والا قرار دے لیتے۔
اس عمل کو (نسئي)
قرار دیا گیا قرآن کریم نے اس عمل کو کفر میں زیادتی کہا ہے حتی کہ انھوں نے حرمت والے مہینوں کی تخصیص بھی ختم کر دی تھی۔
وہ سال کے مطلق چار مہینوں کو حرام قرار دے لیتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حج کیا تواللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ تمام مہینے اپنے اصل حال پر لوٹ آئے تھے اور حج ذوالحجہ کے مہینے ہی میں ہوا تھا۔
حدیث کے آغاز میں اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے نیز رجب کو قبیلہ مضرکی طرف منسوب کیا گیا ہے کیونکہ یہ قبیلہ اس مہینے کا بہت احترام کرتا تھا۔

چونکہ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ سے ملنے کا ذکر ہے۔
اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے دیدار الٰہی کو ثابت کیا ہے۔
انھوں نے ان احادیث سے مختلف انداز میں رؤیت باری تعالیٰ کو ثابت فرمایا ہے جبکہ معتزلہ نے اپنی عقل کے بل بوتے پر اس کا انکار کیا ہے اس سلسلے میں کچھ آیات بھی پیش کی جاتی ہیں جن سے وہ اپنے خیال کے مطابق اپنا مدعا ثابت کرتے ہیں اور اپنے انکارکے لیے جواز مہیا کرتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں جبکہ وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے۔
(الأنعام: 103)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک موقع پر اس آیت کو اسی مقصد کے لیے پیش کیا تھا۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3068)
بلا شبہ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دنیا میں ان آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا البتہ قیامت کے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے ضرورمحو دیدار ہوں گے جیسا کہ کئی احادیث سے ثابت ہے جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے نیز اس آیت میں "ادراک" کی نفی ہے جس کے معنی کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنا ہیں البتہ رؤیت اور چیز ہے۔

منکرین رؤیت ایک دوسری آیت بھی اپنی مقصد بر آری کے لیے پیش کرتے ہیں حضرت موسیٰ نے باری تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا۔
(الأعراف: 143)
لیکن اس آیت سے بھی مدعا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ واقعی اس فانی دنیا میں ان فانی آنکھوں سے اس زندہ جاوید ہستی کا دیدار نا ممکن ہے لیکن جب یہ فانی دنیا تبدیل ہو جائے گی اور انسانی ساخت بالخصوص اس کی آنکھوں میں تبدیلی لائی جائے گی تو وہ دیدارالٰہی کی متحمل ہو سکیں گی۔
چنانچہ اُخروی زندگی میں اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہونا بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے رؤیت باری تعالیٰ سے متعلق بیس (20)
سے زیادہ احادیث جمع کی ہیں پھر امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے حادی الارواح میں ان کی پیروی کرتے ہوئے تیس (30)
احادیث جمع کی ہیں ان میں سے اکثر کی سندیں جید ہیں۔
امادارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے انھوں نے فرمایا:
رؤیت باری تعالیٰ سے متعلق میرے پاس سترہ (17)
صحیح احادیث موجود ہیں۔
(فتح الباري: 536/13)
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مسلمان کے لیے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ اہل ایمان قیامت کے دن میدان محشر میں اپنے رب کو ضرور دیکھیں گے۔
پھر جنت میں داخل ہونے کے بعد بھی دیدار الٰہی نصیب ہو گا۔
جیسا کہ متعدد متواتر احادیث سے ثابت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ ہم قیامت کے دن اپنے رب کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح چودھویں رات کے چاند کو دیکھتے ہیں یا سورج کو دوپہر کے وقت دیکھا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو دیکھنے میں کوئی وقت یا مشقت محسوس نہیں ہو گی۔
(مجموع الفتاوی: 485/6)
استاد محترم شیخ عبد اللہ بن محمد الغنیمان نے منکرین رؤیت کے عقلی اور نقلی دلائل ذکر کیے ہیں پھر ان کا شافی جواب دیا ہے۔
خوف طوالت سے ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7447