صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ} :
باب: اور اللہ پاک نے فرمایا ”اللہ ہی ہے جس نے مخلوق کو پہلی دفعہ پیدا کیا، اور وہی پھر دوبارہ (موت کے بعد) زندہ کرے گا اور یہ (دوبارہ زندہ کرنا) تو اس پر اور بھی آسان ہے“۔
حدیث نمبر: 3193
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُرَاهُ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: شَتَمَنِي ابْنُ آدَمَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَشْتِمَنِي وَيُكَذِّبُنِي، وَمَا يَنْبَغِي لَهُ أَمَّا شَتْمُهُ، فَقَوْلُهُ: إِنَّ لِي وَلَدًا وَأَمَّا تَكْذِيبُهُ، فَقَوْلُهُ: لَيْسَ يُعِيدُنِي كَمَا بَدَأَنِي".
مجھ سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، ان سے ابواحمد نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم نے مجھے گالی دی اور اس کے لیے مناسب نہ تھا کہ وہ مجھے گالی دیتا۔ اس نے مجھے جھٹلایا اور اس کے لیے یہ بھی مناسب نہ تھا۔ اس کی گالی یہ ہے کہ وہ کہتا ہے، میرا بیٹا ہے اور اس کا جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ جس طرح اللہ نے مجھے پہلی بار پیدا کیا، دوبارہ (موت کے بعد) وہ مجھے زندہ نہیں کر سکے گا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3193 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3193
حدیث حاشیہ:
موت کے بعد اخروی زندگی کا تصور وہ ہے جس پر تمام انبیاءکرام کا اتفاق رہا ہے، تورات، زبور، انجیل، قرآن حتیٰ کہ اس ملک (ہندوستان)
کی مذہبی کتب میں بھی مرنے کے بعد ایک نئی زندگی کا تصور موجود ہے۔
اس کے باوجود کفار نے ہمیشہ اس عقیدے کی تکذیب کی اور اسے ناممکن قرار دیا ہے اور اس پر بہت سے استحالات پیش کرتے چلے آرہے ہیں جو سب باطل محض اور توہمات فاسدہ ہیں۔
اس حدیث میں اس عقیدہ پر وضاحت کی گئی ہے کہ آخرت کی زندگی کا انکار کرنا اللہ پاک کو جھٹلانا ہے۔
جس اللہ نے انسان کو پہلا وجود عطا فرمایا، اس کے لیے دوبارہ انسان کو پیدا کرنا کیوں مشکل ہوسکتا ہے۔
ایسا ہی باطل عقیدہ عیسائیوں کا ہے جو اللہ کے لیے ابنیت ثابت کرتے ہیں۔
حالانکہ یہ شان باری تعالیٰ کے اوپر بہت ہی بیہودہ الزام ہے، وہ اللہ ایسے الزامات سے مبرا ہے اور ایسی بے ہودہ بات منه سے نکالنا اور حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ کا بیٹا قرار دینا بہت ہی بڑا جھوٹ ہے۔
جو سراسر غلط بعید از عقل و بے ہودگی ہے۔
سچ ہے۔
﴿قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (1)
اللَّهُ الصَّمَدُ (2)
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3)
وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ﴾ (إخلاص: 1-4)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3193
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3193
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ حدیث قدسی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے۔
2۔
گالی یہ ہے کہ کسی طرف وہ چیز منسوب کی جائے جس کی وجہ سے اس کی تذلیل و تحقیر ہو۔
چونکہ انسان کو اپنی نمود و نمائش کے لیے اولاد کی ضرورت ہے جبکہ اللہ تعالیٰ اس قسم کے تمام عیوب سے پاک ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کرنا گویا اس کی طرف نقص کو منسوب کرنا ہے اور یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔
بعثت کا انکار ہے جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دی ہے یہ اس کی تکذیب کرنا ہے۔
3۔
امام بخاری ؒ نے آخری جملے سے عنوان کو ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کو ختم کرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا۔
اور اس سے وہ عاجز نہیں ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3193
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2080
´مومنوں کی روحوں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم نے مجھے جھٹلایا حالانکہ مجھے جھٹلانا اس کے لیے مناسب نہ تھا، ابن آدم نے مجھے گالی دی حالانکہ مجھے گالی دینا اس کے لیے مناسب نہ تھا، رہا اس کا مجھے جھٹلانا تو وہ اس کا (یہ) کہنا ہے کہ میں اسے دوبارہ پیدا نہیں کر سکوں گا جیسے پہلی بار کیا تھا، حالانکہ آخری بار پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے سے زیادہ دشوار مشکل نہیں، اور رہا اس کا مجھے گالی دینا تو وہ اس کا (۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2080]
اردو حاشہ:
(1) ”آدم کا بیٹا“ کہنے کا مقصد، انسان کو اس کی اصلیت یاد دلانا ہے کہ اسے شرم آنی چاہیے، وہ مٹی سے بن کر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے انکار کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کو اپنے جیسا سمجھتا ہے۔
(2) ”میری تکذیب“ یعنی میری قدرت کی تکذیب، نیز جب قدرت کی تکذیب کر دی تو گویا ذات ہی کی تکذیب کر دی۔
(3) ”گالی“ جو چیز کسی کے لائق نہ ہو، اس کی طرف نسبت کرنا گالی ہی ہے، جیسے کسی غیرشادی شدہ کی طرف اولاد کی نسبت کی جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2080
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4975
4975. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کہا: ”(اللہ تعالٰی نے فرمایا:) ابن آدم نے مجھے جھٹلایا، حالانکہ اس کے لیے یہ مناسب نہ تھا اور اس نے مجھے گالی دی، حالانکہ اس کے لیے یہ بھی مناسب نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا، اس کا یہ کہنا ہے کہ میں اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا جیسا کہ میں نے اسے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا۔ اور اس کا مجھے گالی دینا یہ کہنا ہے کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے، حالانکہ میں بے نیاز ہوں، نہ میری کوئی اولاد ہے اورنہ میں کسی کی اولاد ہوں اور نہ میرا کوئی ہمسر ہی ہے۔“ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ خود جنا گیا، اس کا کوئی ہمسر ہی نہیں۔ وہ یکتا ہے۔ كُفُوًا، كفيئا اور كفاء سب ہم معنی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4975]
حدیث حاشیہ:
یہ سورۃ اخلاص ہے اس میں توحید خالص کا بیان اور مشرکین کی تردید ہے جو اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے ہیں بعض دو خدا ؤں کے قائل ہیں۔
بعض اللہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں۔
بعض لوگ پیروں فقیروں انبیاءواولیاءکو عبارت میں اللہ کا شریک بناتے ہیں۔
اللہ نے اس سورۃ شریفہ میں ان سب کی تردید کی ہے اور توحید خالص پر نشاندہی فرمائی ہے۔
مشرکین مکہ نے اللہ کا نسب نامہ پوچھا تھا ان کے جواب میں یہ سورۃ شریفہ نازل ہوئی۔
کفو سے ہم ذات ہونا مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4975
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4974
4974. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے کہا: ”اللہ تعالٰی نے فرمایا: مجھے ابن آدم نے جھٹلایا، حالانکہ اس کے لیے یہ مناسب نہیں تھا اور مجھے اس نے گالی دی، حالانکہ اس کے لیے یہ مناسب نہیں تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا، اس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ اس کو دوبارہ پیدا نہیں کرے گا جس طرح اس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا، حالانکہ میرے لیے دوبارہ پیدا کرنا اس کے پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں۔ اور اس کا مجھے گالی دینا، اس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ نے اپنا بیٹا بنایا ہے، حالانکہ میں یکتا ہوں، بے نیاز ہوں، نہ میری کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور نہ کوئی میرا ہمسر ہی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4974]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
ہم سے اپنے رب کا نسب نامہ بیان کرو تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی:
آپ کہہ دیں، اللہ یکتا ہے۔
اللہ بے نیاز ہے۔
۔
۔
2۔
الصمد وہ ہوتا ہے جو نہ کسی کو جنم دے اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہو، اس لیے کہ جو کسی سے پیدا ہوگا وہ ضرور مرے گا اور جومرے گا اس کا کوئی وارث بھی ہوگا، اللہ نہ مرے گا اور نہ کسی کا کوئی وارث ہوگا اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔
راوی کہتا ہے:
کفو کے معنی یہ ہیں کہ نہ کوئی اس کے مشابہ ہے اور نہ کوئی اس کے برابر ہے اور اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3364)
3۔
واضح رہے کہ اس سورت میں توحید کے تمام پہلوؤں پر مکمل روشنی ڈال دی گئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت کو ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں بنیادی طور پر تین طرح کے مسائل بیان ہوئے ہیں:
توحید، رسالت اور آخرت۔
اس سورت میں چونکہ توحید کا بیان ہے، اس لیے اسے ایک تہائی قرآن کے برابر قرار دیا گیا ہے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1886(811)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4974
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4975
4975. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کہا: ”(اللہ تعالٰی نے فرمایا:) ابن آدم نے مجھے جھٹلایا، حالانکہ اس کے لیے یہ مناسب نہ تھا اور اس نے مجھے گالی دی، حالانکہ اس کے لیے یہ بھی مناسب نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانا، اس کا یہ کہنا ہے کہ میں اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا جیسا کہ میں نے اسے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا۔ اور اس کا مجھے گالی دینا یہ کہنا ہے کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے، حالانکہ میں بے نیاز ہوں، نہ میری کوئی اولاد ہے اورنہ میں کسی کی اولاد ہوں اور نہ میرا کوئی ہمسر ہی ہے۔“ نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ خود جنا گیا، اس کا کوئی ہمسر ہی نہیں۔ وہ یکتا ہے۔ كُفُوًا، كفيئا اور كفاء سب ہم معنی ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4975]
حدیث حاشیہ:
سورت اخلاص میں توحید خالص کا بیان ہے اور مشرکین کی تردید ہے۔
جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔
مجوس دو خداؤں کے قائل ہیں۔
کچھ لوگ اللہ کے لیے اولاد ثابت کرتے ہیں جبکہ کچھ لوگ پیروں، فقیروں انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کو عبادت میں اللہ کا شریک بناتے ہیں اس سورت میں ان سب کی تردید ہے۔
قرآن کریم میں ہے:
”جب اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل تنگ پڑ جاتے ہیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا کا ذکر کیا جائے تو اچانک وہ بہت خوش ہو جاتے ہیں۔
“ (الزمر: 45)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4975