سلسله احاديث صحيحه
العلم والسنة والحديث النبوي
علم سنت اور حدیث نبوی
مختلف امارتوں، فتنوں اور تفرقہ بازیوں کے ادوار کو کیسے گزارا جائے؟ حدیث کی رہنمائی
حدیث نمبر: 390
-" قال حذيفة بن اليمان رضي الله عنه: كان الناس يسألون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير، وكنت أسأله عن الشر مخافة أن يدركني، فقلت: يا رسول الله! إنا كنا في جاهلية وشر، فجاءنا الله بهذا الخير [فنحن فيه]، [ وجاء بك]، فهل بعد هذا الخير من شر [كما كان قبله؟]. [قال:" يا حذيفة تعلم كتاب الله واتبع ما فيه، (ثلاث مرات)". قال: قلت: يا رسول الله! أبعد هذا الشر من خير؟]. قال:" نعم. [قلت: فما العصمة منه؟ قال:" السيف"]. قلت: وهل بعد ذلك الشر من خير؟ (وفي طريق: قلت: وهل بعد السيف بقية؟) قال:" نعم، وفيه (وفي طريق: تكون إمارة (وفي لفظ: جماعة) على أقذاء، وهدنة على) دخن".
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں شر کے بارے میں دریافت کرتا تھا تاکہ اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ (ایک دن) میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم جاہلیت اور شر کا زمانہ گزار رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے اسلام کو، جسے ہم نے قبول کیا، اور آپ کو ہماری طرف بھیجا۔ (اب سوال یہ ہے کہ) کیا اس خیر کے بعد پھر شر (کا غلبہ ہو گا) جیسا کہ پہلے تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فرمایا: ”حذیفہ! اللہ کی کتاب پڑھ اور اس کے احکام پر عمل کر۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے کہا: اس سے بچنے کا کیا طریقہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تلوار۔“ میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی؟ اور ایک روایت میں ہے کہ کیا تلوار کے بعد خیر کا کوئی حصہ باقی رہے گا؟ (یعنی لڑائی کے بعد اسلام باقی رہے گا؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ اور ایک روایت میں ہے کہ ”امارت (اور جماعت) تو قائم رہے گی، لیکن معمولی چون و چرا اور دلوں میں نفرتیں اور کینے ہوں گے اور ظاہری صلح، لیکن بباطن لڑائی ہو گی۔“ میں نے کہا: کینے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد ایک قوم یا مختلف حکمران ہوں گے جو میری سنت پر عمل نہیں کریں گے اور میری سیرت کے علاوہ کوئی اور سیرت اختیار کریں گے، تو ان کے بعض امور کو اچھا سمجھے گا اور بعض کو برا اور ان میں ایسے لوگ بھی منظر عام پر آئیں گے جو انسانوں کے روپ میں ہوں گے، لیکن ان کے دل شیطانی ہوں گے۔“ ایک روایت میں ہے: میں نے کہا: ظاہری صلح بباطن لڑائی اور دلوں میں کینہ، ان چیزوں کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کے دل (ان خصائل حمیدہ) کی طرف نہیں لوٹیں گے، جن سے وہ پہلے متصف ہوں گے۔“ میں نے کہا: کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اندھا دھند فتنہ ہو گا، اور (اس میں ایسے لوگ ہوں گے کہ گویا کہ) وہ جہنم کے دروازوں پر کھڑے داعی ہیں، جو آدمی ان کی بات مانے گا وہ اس کو جہنم میں پھینک دیں گے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسے لوگوں کی صفات بیان کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ہماری نسل کے ہوں گے اور ہماری طرح باتیں کریں گے۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر ایسا زمانہ مجھے پا لے تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کی جماعت اور ان کے حکمران کو لازم پکڑے رکھنا، امیر کی بات سننا اور ماننا۔ اگرچہ تیری پٹائی کر دی جائے اور تیرا مال لوٹ لیا جائے پھر بھی ان کی بات سننا اور اطاعت کرنا۔“ میں نے کہا: اگر سرے سے مسلمانوں کی جماعت ہو نہ حکمران (تو پھر میں کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام فرقوں سے کنارہ کش ہو جانا، اگرچہ کسی درخت کے تنے کے ساتھ چمٹنا پڑے، یہاں تک کہ تجھے موت پا لے اور تو اسی حالت میں ہو۔“ ایک روایت میں ہے: ”حذیفہ! کسی درخت کے تنے کے ساتھ چمٹ کر مرنا ان (حکمرانوں) کی اطاعت کرنے سے بہتر ہو گا۔“ اور ایک روایت میں ہے: ”اگر ان دنوں میں تجھے اللہ کی زمیں میں کوئی خلیفہ مل جائے تو اس کو لازم پکڑنا، اگرچہ وہ تیری پٹائی کرے اور تیرا مال چھین لے اور اگر تجھے کوئی خلیفہ نظر نہ آئے تو کسی (گوشئہ) زمین میں بھاگ جانا، حتی کہ تجھے موت آ جائے اور تو کسی درخت کے تنے کے ساتھ چمٹا ہوا ہو۔“ میں نے کہا: پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر دجال ظاہر ہو گا۔“ میں نے کہا: وہ کون سی علامت لے کر آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہر یا پانی اور آگ کے ساتھ آئے گا، جو اس کی نہر میں داخل ہوا اس کا اجر ضائع اور گناہ ثابت ہو جائے گا اور جو اس کی آگ میں داخل ہوا اس کا اجر ثابت ہو جائے گا اور اس کا جرم مٹ جائے گا۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! دجال کے بعد کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عیسی بن مریم۔“ میں نے کہا: پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس وقت تیری گھوڑی کا بچہ پیدا ہوا تو وہ ابھی تک اس قابل نہیں ہو گا کہ تو اس پر سواری کر سکے کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔“