Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
18. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3182
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِيهِ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو وَائِلٍ، قَالَ: كُنَّا بِصِفِّينَ، فَقَامَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ فَإِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ؟ فَقَالَ:" بَلَى، فَقَالَ: أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ، قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَعَلَي مَا نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا أَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا فَانْطَلَقَ عُمَرُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُمَرَ إِلَى آخِرِهَا، فَقَالَ: عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَفَتْحٌ هُوَ، قَالَ: نَعَمْ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے، ان سے یزید بن عبدالعزیز نے، ان سے ان کے باپ عبدالعزیز بن سیاہ نے، ان سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابووائل نے بیان کیا کہ ہم مقام صفین میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ پھر سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو! تم خود اپنی رائے کو غلط سمجھو۔ ہم صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اگر ہمیں لڑنا ہوتا تو اس وقت ضرور لڑتے۔ عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر آئے (یعنی حدیبیہ میں) اور عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ کیوں نہیں! پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم اپنے دین کے معاملے میں کیوں دبیں؟ کیا ہم (مدینہ) واپس چلے جائیں گے، اور ہمارے اور ان کے درمیان اللہ کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے کبھی برباد نہیں کرے گا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے وہی سوالات کئے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابھی کر چکے تھے۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ انہیں کبھی برباد نہیں ہونے دے گا۔ پھر سورۃ فتح نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو اسے آخر تک پڑھ کر سنایا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیا یہی فتح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! بلا شک یہی فتح ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3182 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3182  
حدیث حاشیہ:
حضرت سہل بن حنیف ؓ لڑائی میں کسی طرف بھی شریک نہیں تھے۔
اس لیے دونوں گروہ ان کو الزام دے رہے تھے۔
اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ رسول کریم ﷺ نے ہمیں مسلمانوں سے لڑنے کا حکم نہیں دیا تھا۔
یہ تو خود تمہاری غلطی ہے کہ اپنی ہی تلوار سے اپنے ہی بھائیوں کو قتل کررہے ہو۔
بہت سے دوسرے صحابہ بھی حضرت معاویہ ؓاور حضرت علیؓ کے جھگڑے میں شریک نہیں تھے۔
حضرت سہل ؓ کا مطلب یہ تھا کہ جب آنحضرت ﷺنے کافروں کے مقابلہ میں جنگ میں جلدی نہ کی اور ان سے صلح کرلی تو تم مسلمانوں سے لڑنے کے لیے کیوں پلے پڑے ہو۔
خوب سوچ لو کہ یہ جنگ جائز ہے یا نہیں۔
اور اس کا انجام کیا ہوگا۔
جنگ صفین جب ہوئی تو تمام جہاں کے کافروں نے یہ خبر سن کر شادیانے بجائے کہ اب مسلمانوں کا زور آپس ہی میں خرچ ہونے لگا۔
ہم سب بال بال بچے رہیں گے۔
آج بھی یہی حال ہے کہ مسلمانوں میں سیاسی مذہبی باہمی اتنی لڑائیاں ہیں کہ آج کے دشمنان اسلام دیکھ دیکھ کر خوش ہورہے ہیں۔
مسلمانوں کا یہ حال بد نہ ہوتا تو ان کا قبلہ اول مغضوب قوم یہود کے ہاتھ نہ جاتا۔
عرب اقوام مسلمین کی خانہ جنگی نے آج امت کویہ روز بد بھی دکھلا دیا کہ یہودی آج مسلمانوں کے سر پر سوار ہورہے ہیں۔
سہل رضی اللہ عنہ کی حدیث کی مطابقت باب سے یوں ہے کہ جب قریش نے عہد شکنی کی تو اللہ نے ان کو سزا دی اور مسلمانوں کو ان پر غالب کردیا۔
سہل بن حنیف ؓ نے جنگ صفین کے موقع پر جو کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش نے مسلمانوں کی بڑی توہین کی تھی پھر بھی آنحضرت ﷺنے ان سے لڑنا مناسب نہ جانا اور ہم آپ کے حکم کے تابع رہے، اسی طرح آنحضرت ﷺنے مسلمانوں پر ہاتھ اٹھانے سے منع کیا ہے۔
میں کیوں کر مسلمانوں کو ماروں، یہ سہل رضی اللہ عنہ نے اس وقت کہا جب لوگوں نے ان کو ملامت کی کہ صفین میں مقابلہ کیوں نہیں کرتے۔
صفین نامی دریائے فرات کے کنارے ایک گاؤں تھا۔
جہاں حضرت علی اور معاویہ ؓکے درمیان جنگ ہوئی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3182   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3182  
حدیث حاشیہ:

صفین رَقہ کے مغرب میں دریائے فرات کے کنارے ایک مقام ہے جہاں حضرت معاویہ ؓ اور حضرت علی ؓکے درمیان جنگ ہوئی تھی۔
اس جنگ میں حضرت سہل بن حنیف ؓ حضرت علی ؓ کے لشکر میں تھے لیکن عملی طور پر وہ جنگ میں شریک نہیں تھے تو ان کے ساتھی انھیں عدم دلچسپی کا الزام دے رہے تھے۔
اس وقت انھوں نے لوگوں کو وعظ کرتے ہوئے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں لڑنے کا حکم نہیں دیا۔
یہ تمہاری غلطی ہے کہ تم اپنی تلواروں سے اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنے پر تلے ہوئے ہو۔
جب رسول اللہ ﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر کفار سے لڑنے کے لیے جلدی نہیں کی اور ان سے صلح کرلی تو تم مسلمانوں سے لڑنے کے لیے کیوں پر تول رہے ہو؟ خوب سوچ لو، یہ جنگ جائز ہے یا نہیں؟ اس کا انجام کیا ہوگا؟ 2۔
مذکورہ احادیث پر کوئی عنوان نہیں بلکہ ان کا عنوان سابق سے تعلق ہے کہ جب قریش نےعہد شکنی کی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں سزادی اور مسلمانوں کو ان پر غالب کردیا۔
افسوس کہ آج مسلمانوں کا حال قابل رحم ہے۔
قرون اولیٰ کے مسلمان فتنہ کچلنے کے لیے تلواریں اٹھاتے تھے لیکن ہم مسلمان فتنے کو فروغ دینے کے لیے ہتھیار اٹھائے پھرتے ہیں۔
آج دشمنان اسلام موجودہ صورت حال دیکھ کر خوش ہورہے ہیں۔
مسلمانوں کے باہمی جنگ وقتال اور خانہ جنگی کی وجہ سے یہودیوں نے قبلہ اول پر قبضہ جمارکھاہے اور وہ مسلمانوں کے کندھوں پر سوار ہیں اور ان سے اپنی مرضی کے کام کروارہے ہیں۔
إناللہ وإنا إلیه راجعون۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3182   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:408  
408- ابووائل شفیق بن سلمہ بیان کرتے ہیں، جنگ صفین کے موقع پر جب دونوں طرف سے ثالثوں نے فیصلہ دیا تو میں نے سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: اے لوگو! تم اپنی رائے کو غلط قرار دو۔ مجھے یہ بات یاد ہے کہ ہم بھی اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب ابوجندل ائے تھے۔ اگر ہم چاہتے تو ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات قبول نہ کرتے۔ اللہ کی قسم! جب سے ہم نے اسلام قبول کیا ہے، ہم نے اپنی تلواریں اپنے کاندھوں پر کسی ایسے معاملے کی وجہ سے نہیں رکھی ہیں، جو ہمیں خوفزدہ کرے، مگر یہ کہ ہمیں آسان کرکے دوسرے معاملے کی طرف کردیا، جس سے ہم واقف تھے۔ جہاں تک اس معاملے کا ت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:408]
فائدہ:
پہلے جمل کا پھر اہل شام کا پھر خوارج کا فتنہ بپا ہوا اور مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 408   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4633  
ابو وائل سے روایت ہے کہ صفین کے دن حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہو کر کہنے لگے، اے لوگو! اپنی سوچ کو مہتم قرار دو، اپنے آپ کو قصوروار خیال کرو، ہم حدیبیہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اگر ہم جنگ ضروری سمجھتے تو ضرور لڑتے اور یہ اس صلح کی بات ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکوں کے درمیان ہوئی، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہو کر عرض کرنے لگے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4633]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
قام سهل بن حنيف يوم صفين:
حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان صفین کے مقام پر جنگ چھڑی اور وہ انتہائی شدت اختیار کر گئی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قرآن مجید کو حکم ماننے کا پیغام بھیجا،
حضرت علی رضی اللہ عنہ،
اس کو قبول کرنے پر آمادہ ہو گئے تو خوارج نے جنگ جاری رکھنے پر اصرار کیا تو حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ لوگوں کو صلح پر آمادہ کرنے کے لیے کھڑے ہوئے،
اور کہنے لگے،
صلح کا نتیجہ ہر صورت میں بہتر نکلتا ہے،
اگرچہ وہ بظاہر پسندیدہ عمل نظر نہیں آتا،
دیکھئے صلح حدیبیہ کے وقت،
مسلمانوں کے جذبات و احساسات،
اس صلح کے مخالف تھے حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں بڑے زور دار انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی،
پھر اپنے ساتھ ملانے کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھی مکالمہ کیا اور صلح کی شرطوں کی قبولیت کو دین میں خست دباؤ اور کوتاہی کو قبول کرنا قرار دیا،
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں اللہ کا رسول ہوں،
اس کی رہنمائی میں بات کرتا ہوں۔
اس لیے اس کی مرضی اور منشا کی مخالفت نہیں کر سکتا اور یہ صلح ہمارے حق میں جائے گی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کی اور پھر اس سلسلہ میں قرآن مجید کا نزول ہوا اور سورہ فتح میں اس صلح کو فتح کا نام دیا گیا اور بعد میں واقعات نے اس کی تصدیق کی،
اس لیے اتهمواانفسكم،
تم جنگ کے جاری رکھنے کے اصرار کے سلسلہ میں اپنے آپ کو قصوروار سمجھو،
تمہاری یہ رائے اور سوچ ناقص ہے کہ صلح کی بجائے جنگ جاری رہنی چاہیے،
صلح کا نتیجہ ہی بہتر ہوتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4633   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4634  
حضرت شقیق بیان کرتے ہیں کہ میں نے سہل بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ کو صفین کے موقعہ پر یہ کہتے سنا، اے لوگو! اپنی سوچ پر الزام عائد کرو، اللہ کی قسم! میں نے ابو جندل کے دن اپنے آپ کو اس حال میں پایا کہ اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم رد کر سکتا ہوتا تو ضرور رد کر دیتا، اللہ کی قسم! ہم نے جب بھی کسی معاملہ کے سلسلہ میں تلواریں اپنے کندھوں پر رکھیں تو وہ آسانی کے ساتھ ہمیں اچھی اور بہترین نتیجہ کی طرف لے گئیں، مگر تمہارا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4634]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
لَقَد رَايتُنِي يَومَ أبي جندل:
اس میں حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے باپ کے قید خانہ سے،
بیڑیوں میں جکڑا ہوا،
ظلم و ستم سے نجات پانے کے لیے بھاگ کر بڑی تکلیف سے مسلمانوں کے پاس پہنچا اور جب اس کے باپ نے اس کی واپسی کا مطالبہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت کوشش کی کہ کس طرح اس کا باپ،
اس کو مسلمانوں کے پاس چھوڑنے پر آمادہ ہو جائے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
تم اسے میری خاطر ہی چھوڑ دو،
اس نے کہا،
میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر بھی نہیں چھوڑ سکتا حتی کہ اس نے ابو جندل کے چہرے پر چانٹا رسید کیا اور اس کو واپس لے جانے کے لیے کرتے کا گلہ پکڑ کر گھسیٹنے لگا اور حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ زور زور سے چلا کر کہنے لگے،
اے مسلمانو! کیا میں مشرکین کی طرف واپس کیا جاؤں گا کہ وہ مجھے میری دین سے برگشتہ کریں،
اس کے باوجود صلح کی خاطر،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو جندل کو واپس کرنے پر تیار ہو گئے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو رد نہ کر سکے اور ہم نے جب بھی کندھوں پر تلوار رکھی اور لڑائی لڑی تو اس سے ہمارے لیے آسانی اور سہولت کا راستہ کھلا اور بہتر نتائج برآمد ہوئے،
مگر اس باہمی جنگ کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا،
اس لیے صلح پر آمادہ ہونا بہتر ہے،
اگر کافروں سے بظاہر دب کر صلح کرنا بہترین نتائج پیدا کرتا ہے تو مسلمانوں کی باہمی جنگ کو ختم کرنے کے لیے صلح کے نتائج کیوں بہترین برآمد نہیں ہوں گے،
اس لیے جنگ پر اصرار چھوڑو،
صلح کے لیے تیار ہو جاؤ۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4634   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4189  
4189. حضرت ابو وائل سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب حضرت سہل بن حنیف ؓ جنگ صفین سے واپس آئے تو اس کے حالات معلوم کرنے کے لیے ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا کہ تم لوگ اس جنگ کے بارے میں اپنی رائے کو مہتم کرو۔ میں حدیبیہ کے دن ابوجندل ؓ کی واپسی کے وقت موجود تھا، اگر میرے لیے رسول اللہ ﷺ کے حکم کو ماننے سے انکار ممکن ہوتا تو میں اس دن ضرور حکم عدولی کرتا لیکن (مصالح کو) اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے تھے۔ ہمارا حال یہ تھا کہ جب ہم کسی مشکل کام کے لیے اپنی تلواروں کو اپنے کندھوں پر رکھتے تو صورت حال آسمان ہو جاتی اور ہم مشکل حل کر لیتے لیکن اس جنگ کا کچھ عجیب حال تھا، اس میں ہم ایک کنارے کو بند کرتے تو دوسر کنارہ کھل جاتا تھا، ہم نہیں جانتے کہ ہمیں کیا تدبیر کرنی چاہئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4189]
حدیث حاشیہ:
علامہ ابن حجر ؒ حسن بن اسحاق استاذ امام بخاری کے متعلق فرماتے ہیں۔
کان من أصحاب ابن المبارك ومات سنة إحدی وأربعین وماله في البخاري سوی ھذا الحدیث (فتح)
یعنی یہ حضرت عبد اللہ بن مبارک کے شاگرد وں میں سے ہیں۔
ان کا انتقال 241ھ میں ہوا۔
صحیح بخاری میں ان سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4189   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4189  
4189. حضرت ابو وائل سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب حضرت سہل بن حنیف ؓ جنگ صفین سے واپس آئے تو اس کے حالات معلوم کرنے کے لیے ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا کہ تم لوگ اس جنگ کے بارے میں اپنی رائے کو مہتم کرو۔ میں حدیبیہ کے دن ابوجندل ؓ کی واپسی کے وقت موجود تھا، اگر میرے لیے رسول اللہ ﷺ کے حکم کو ماننے سے انکار ممکن ہوتا تو میں اس دن ضرور حکم عدولی کرتا لیکن (مصالح کو) اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے تھے۔ ہمارا حال یہ تھا کہ جب ہم کسی مشکل کام کے لیے اپنی تلواروں کو اپنے کندھوں پر رکھتے تو صورت حال آسمان ہو جاتی اور ہم مشکل حل کر لیتے لیکن اس جنگ کا کچھ عجیب حال تھا، اس میں ہم ایک کنارے کو بند کرتے تو دوسر کنارہ کھل جاتا تھا، ہم نہیں جانتے کہ ہمیں کیا تدبیر کرنی چاہئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4189]
حدیث حاشیہ:

صفین عراق اور شام کے درمیان ایک مقام کا نام ہے جہاں حضرت امیر معاویہ ؓ اور حضرت علی ؓ کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔

حضرت سہل بن حنیف ؓ نے اس جنگ میں حصہ نہ لیا تو لوگوں نے اس اقدام کو کوتاہی پر محمول کیا۔
اس وقت انھوں نے فرمایا:
تم اپنی رائے پر فخر نہ کرو۔
تم لوگ اپنی عقل کی بنیاد پر اپنے مسلمان بھائیوں سے جنگ کرتے ہو۔
ہماری حالت بھی صلح حدیبیہ کے وقت ایسی تھی جیسے تمھاری اس وقت ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس وقت جنگ کرنے سے باز رکھا اور اسی میں خیرو برکت تھی۔
تم نے جنگ میں حصہ لے کر غلطی کی ہے۔
مسند احمد میں اس کے متعلق کچھ تفصیل ہے کہ جب جنگ صفین میں اہل شام قتل ہونے لگے تو انھوں نے ایک ریت کے ٹیلے کے پیچھے پناہ پکڑی۔
حضرت عمر بن عاص ؓ کی تجویز پر کتاب اللہ کو حکم بنانے کا اعلان کیا گیا تو خوارج نے کہا کہ ہم ریت کے ٹیلے کے پیچھے جا کر ان کا صفایا کر دیتے ہیں۔
اس موقع پر حضرت سہل بن حنیف ؓ نے فرمایا لوگو! ذرا اپنی رائے پر نظر ثانی کرو۔
مصلحت یہ ہے کہ ایک دوسرے کا گلا کاٹنےکے بجائےصلح کرلی جائے۔
(مسند أحمد: 488/3)

امام بخاری ؒ اس حدیث سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ صلح حدیبیہ میں حضرت سہل بن حنیف ؓ شریک تھے اور انھوں نے بیعت رضوان کی تھی۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4189