صحيح البخاري
كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
17. بَابُ إِثْمِ مَنْ عَاهَدَ ثُمَّ غَدَرَ:
باب: معاہدہ کرنے کے بعد دغا بازی کرنے والے پر گناہ؟
حدیث نمبر: 3180
قَالَ أَبُو مُوسَى، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا لَمْ تَجْتَبُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا، فَقِيلَ لَهُ: وَكَيْفَ تَرَى ذَلِكَ كَائِنًا يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: إِي وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي هُرَيْرَةَ بِيَدِهِ عَنْ قَوْلِ الصَّادِقِ الْمَصْدُوقِ، قَالُوا: عَمَّ ذَاكَ، قَالَ: تُنْتَهَكُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَشُدُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قُلُوبَ أَهْلِ الذِّمَّةِ فَيَمْنَعُونَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ".
ابوموسیٰ (محمد بن مثنیٰ) نے بیان کیا کہ ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن سعید نے بیان کیا، ان سے ان کے والد سعید بن عمرو نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب (جزیہ اور خراج میں سے) نہ تمہیں درہم ملے گا اور نہ دینار! اس پر کسی نے کہا۔ کہ جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ کیسے سمجھتے ہیں کہ ایسا ہو گا؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے۔ یہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ لوگوں نے پوچھا تھا کہ یہ کیسے ہو جائے گا؟ تو آپ نے فرمایا، جب کہ اللہ اور اس کے رسول کا عہد (اسلامی حکومت غیر مسلموں سے ان کی جان و مال کی حفاظت کے بارے میں) توڑا جانے لگے، تو اللہ تعالیٰ بھی ذمیوں کے دلوں کو سخت کر دے گا۔ اور وہ جزیہ دینا بند کر دیں گے (بلکہ لڑنے کو مستعد ہوں گے)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3180 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3180
حدیث حاشیہ:
یہاں بھی مقصود باب اس سے حاصل ہوا کہ جب مسلمان ذمی لوگوں سے معاہدہ کرکے اس کی خلاف ورزی کریں گے اور ذمیوں کو ستانے لگیں گے، تو اللہ پاک ذمیوں کو سخت دل بنادے گا اور وہ جزیہ دینا بند کردیں گے۔
معلوم ہوا کہ غیروں سے جو بھی صلح امن کا معاہدہ کیا جائے، آخر وقت تک اس کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3180
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3180
حدیث حاشیہ:
1۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان، اہل ذمہ سے بدعہدی کریں گے اور ان پر قسم کا ظلم وتشدد روا رکھیں گے تو وہ لوگ اطاعت اور جزیے کی ادائیگی سے رک جائیں گے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
اس بے حرمتی میں ہرقسم کا جور وظلم شامل ہے جس کی وجہ سے اہل ذمہ ادائے جزیہ سے رک جائیں گے۔
صحیح مسلم کی ایک روایت ہے:
اہل عراق سے نقدی اورغلہ روک لیا جائے گا۔
(صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7315(2913)
2۔
دور حاضر میں مسلمان اسی قسم کے حالات سے دوچار ہیں کہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے عہد وپیمان کو توڑا تو اس غداری کے نتیجے میں سخت نقصان اٹھایا ہے۔
اب کفار سے جزیہ لینا تو درکنار بلکہ اس کے برعکس عالمی غنڈہ امریکہ مسلمانوں سے ٹیکس وصول کررہا ہے اور ان پر اقتصادی پابندیاں لگارہا ہے، گویا اس نے مسلمان حکومتوں کو اپنے گھر کی لونڈی بنارکھا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3180