Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
15. بَابُ مَا يُحْذَرُ مِنَ الْغَدْرِ:
باب: دغا بازی کرنا کیسا گناہ ہے؟
حدیث نمبر: 3176
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ زَبْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ بُسْرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا إِدْرِيسَ، قَالَ:سَمِعْتُ عَوْفَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ وَهُوَ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَقَالَ:" اعْدُدْ سِتًّا بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ مَوْتِي، ثُمَّ فَتْحُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، ثُمَّ مُوتَانٌ يَأْخُذُ فِيكُمْ كَقُعَاصِ الْغَنَمِ، ثُمَّ اسْتِفَاضَةُ الْمَالِ حَتَّى يُعْطَى الرَّجُلُ مِائَةَ دِينَارٍ فَيَظَلُّ سَاخِطًا، ثُمَّ فِتْنَةٌ لَا يَبْقَى بَيْتٌ مِنَ الْعَرَبِ إِلَّا دَخَلَتْهُ، ثُمَّ هُدْنَةٌ تَكُونُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي الْأَصْفَرِ فَيَغْدِرُونَ فَيَأْتُونَكُمْ تَحْتَ ثَمَانِينَ غَايَةً تَحْتَ كُلِّ غَايَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا".
مجھ سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن علاء بن زبیر نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے بسر بن عبیداللہ سے سنا، انہوں نے ابوادریس سے سنا، کہا کہ میں نے عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ میں غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ اس وقت چمڑے کے ایک خیمے میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ قیامت کی چھ نشانیاں شمار کر لو، میری موت، پھر بیت المقدس کی فتح، پھر ایک وبا جو تم میں شدت سے پھیلے گی جیسے بکریوں میں طاعون پھیل جاتا ہے۔ پھر مال کی کثرت اس درجہ میں ہو گی کہ ایک شخص سو دینار بھی اگر کسی کو دے گا تو اس پر بھی وہ ناراض ہو گا۔ پھر فتنہ اتنا تباہ کن عام ہو گا کہ عرب کا کوئی گھر باقی نہ رہے گا جو اس کی لپیٹ میں نہ آ گیا ہو گا۔ پھر صلح جو تمہارے اور بنی الاصفر (نصارائے روم) کے درمیان ہو گی، لیکن وہ دغا کریں گے اور ایک عظیم لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے۔ اس میں اسی جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار فوج ہو گی (یعنی نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج سے وہ تم پر حملہ آور ہوں گے)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3176 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3176  
حدیث حاشیہ:
پہلی دوسری نشانی تو ہوچکی۔
تیسری کہتے ہیں وہ بھی ہوچکی ہے یعنی طاعون عمواس جو حضرت عمر ؓ کی خلافت میں آیا تھا۔
جس میں ہزاروں مسلمان مرگئے تھے۔
چوتھی نشانی بھی ہوچکی، مسلمان روم اور ایران کی فتح سے بے حد مالدار ہوگئے تھے۔
پانچویں نشانی کہتے ہیں ہوچکی جس سے بنوامیہ کا فتنہ مراد ہے۔
چھٹی نشانی قیامت کے قریب ہوگی۔
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ دغابازی کرنا کافروں کا کام ہے اور یہ بھی قیامت کی ایک نشانی ہے کہ وہ دغابازی عام ہوجائے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3176   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3176  
حدیث حاشیہ:

چھٹی علامت ابھی واقع نہیں ہوئی۔
اہل اسلام اور روم کے عیسائیوں کے درمیان جنگ بندی کی صلح ہو گی جس پر عملدرآمد نہیں ہوگا بلکہ عیسائیوں کی نو لاکھ ساٹھ ہزار فوج مسلمانوں پر حملہ آور ہوگی۔
اس وقت مسلمانوں کا بہت نقصان ہوگا۔
بالآخر حضرت مہدی کی قیادت میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگی۔

امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ دغا دینا کافروں کا کام ہے اور اس قسم کی بدعہدی قرب قیامت کے وقت ہوگی۔
مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3176   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4042  
´قیامت کی نشانیوں کا بیان۔`
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ غزوہ تبوک میں چمڑے کے ایک خیمے میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں خیمے کے صحن میں بیٹھ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عوف! اندر آ جاؤ، میں نے عرض کیا: پورے طور سے، اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں پورے طور سے، پھر آپ نے فرمایا: عوف! قیامت سے پہلے چھ نشانیاں ہوں گی، انہیں یاد رکھنا، ان میں سے ایک میری موت ہے، میں یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو ایک، دوسری بیت المقدس کی فتح ہے، تیسری۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4042]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ آخری نبی ہیں۔
اس لیے آپﷺ کی وفات قیامت کی نشانی ہے۔

(2)
بیت المقدس پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں فتح ہوا۔
دوبارہ صلاح الدین ایوبی ؒنےفتح کیا۔
حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے وقت بھی یہود سے جنگ ہوگی اور ان کا خاتمہ ہوجائے گا اور تمام عیسائی مسلمان ہوجائیں گے۔

(3)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وبا پھیلی تھی جو طاعون عمواس کے نام سے معروف ہے۔
بعد میں بھی ایسے واقعات پیش آئے ہیں۔
ممکن ہے کہ قیامت کے قریب کوئی اور وبا آنے والی ہو۔

(4)
مال کی حرص اور ناشکری موجودہ دور میں عام ہے۔
جدید جاہلیت کی بعض تحریکیں مثلاً:
بینکوں میں پیسے رکھ کر سود لینے کی ترغیب، بیمہ جو سود اور جوئے کا مجموعہ ہے بہت سی انعامی اسکیمیں جو لاٹری یعنی جوئے کی شکلیں ہیں اور زیادہ اخراجات سے ڈر کر کم بچے پیدا کرنے کی کوشش (خاندانی منصوبہ بندی)
اسی مادہ پرست ذہنیت کے چند مظاہر ہیں۔

(5)
ہر گھر میں داخل ہونے والے فتنے کا اطلاق متعدد چیزوں پر ممکن ہے۔
مثلاً:
جاندار کی تصویر جو کہ شرعاً حرام ہے۔
بہت سے لوگ اپنے کسی بزرگ یا بچے کی یا کسی عالم یا پیر کی تصویر شوقیہ یا برکت کے لیے گھر میں رکھتے ہیں۔
اگر کوئی اس سے بچ جائے تو اخباروں اور رسالوں میں پھر بچوں کی نصابی کتابوں میں ضرور موجود ہوتی ہے۔
پاسپورت اور شناختی کارڈ وغیرہ میں حکومت کے احکام سے ہر گھر میں تصویر مجبوری بن چکی ہے اس کے بعد ٹیلی ویژن، وی سی آر کیبل اور انٹر نیٹ وغیرہ کے ذریعے سے اس کے مضر اثرات مزید وسعت اختیار کر چکے ہیں۔
اسی طرح کا فتنہ موسیقی ہے جو پہلے صرف فلمی گانوں کے ساتھ سنی جاتی تھی اور اس کو سننے کے لیے خاص اہتمام کرنا پڑتا تھا پھر ریڈیو ٹی وی وغیرہ کے ذریعے سے عام ہوگئی۔
اب تقریباً ہر گھر، ہر دکان، بس، کاراور ٹیکسی میں موجود ہے بلکہ نعتوں اور شرکیہ نظموں کے ساتھ اس کی موجودگی نے عوام کی نظر میں اسے گناہ کی فہرست سے خارج کردیا ہے۔
علاوہ ازیں وطن، قبیلہ، زبان، فرقہ، تنظیم اور پارٹی کی بنیاد پر تعصب بلکہ قتل وغارت بھی جدید دور کا ایک عظیم فتنہ ہے۔
مالی معاملات میں حکومتوں کے سود کی سرپرستی کرنے کی وجہ سے کوئی شخص اس کے اثرات سے محفوظ نہیں۔
اس طرح اور فتنے بھی ہوسکتے ہیں۔

(6)
رومیوں سے مراد مغرب کے عیسائی ممالک ہوسکتے ہیں۔
یہ علامت ابھی ظاہر نہیں ہوئی ہے ممکن ہے کہ اقوام متحدہ کے کسی فیصلے کا بہانہ بنا کر اسی غیر مسلم ممالک مسلمانوں پر حملہ آور ہوجائیں۔
والله اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4042