حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سُحِرَ حَتَّى كَانَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ صَنَعَ شَيْئًا وَلَمْ يَصْنَعْهُ".
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3175
تخریج الحدیث:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دنیاوی امور میں، مرض کی طرح عارضی طور پر جادو کے اثر والی روایت صحیح بخاری میں سات مقامات پر ہے: [3175، 3268، 5763، 5765، 5766، 6063، 6391]
امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ اسے درج ذیل محدثین نے روایت کیا ہے:
مسلم بن الحجاج النيسابوري [صحيح مسلم: 2189 وترقيم دارالسلام: 5703، 5704]
ابن ماجه [السنن: 3545]
النسائي [الكبريٰ: 7615 دوسرا نسخه: 7569]
ابن حبان [فى صحيحه: الاحسان ح6549، 6550 دوسرا نسخه: 6583، 6584]
ابوعوانه [فى الطب/ اتحاف المهرة 17؍319 ح22316]
الطحاوي [مشكل الآثار/ تحفة الاخيار 6؍609 ح4788]
الطبراني [الاوسط: 5922]
البيهقي [السنن الكبريٰ 8؍135، دلائل النبوة 6؍247]
ابن سعد [الطبقات 2؍196]
ابن جرير الطبري [فى تفسيره 1؍366، 367]
البغوي [شرح السنة 12؍185، 186 ح3260 وقال: هذا حديث متفق على صحته]
امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے اسے درج ذیل محدثین نے بھی روایت کیا ہے:
أحمد بن حنبل [المسند 6؍50، 57، 63، 96]
الحميدي [260 بتحقيقي ابن ابي شيبه المصنف 7؍388، 389 ح23509]
اسحاق بن راهويه [المسند قلمي ص86أ، ح737]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت مشہور ثقہ امام و تابعی عروہ بن زبیر نے بیان کی ہے۔ عروہ سے ان کے صاحب زادے ہشام بن عروہ (ثقہ امام) نے یہ روایت بیان کی ہے۔
فائدہ ①: ہشام بن عروہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔ [صحيح بخاري: 3175]
فائدہ ②: ہشام سے یہ روایت انس بن عیاض المدنی [صحيح بخاري: 2691] اور عبدالرحمٰن بن ابی الزناد المدنی [صحيح بخاري: 5763، تفسير طبري 1؍366، 367 وسنده حسن] وغیرہما نے بھی بیان کی ہے۔ «والحمدلله»
اس روايت كي تائيد كے لئے ديكهئے:
مصنف عبدالرزاق [19764]
وصحيح بخاري [قبل ح3175]
وطبقات ابن سعد [2؍199 عن الزهري وسنده صحيح]
والسنن الصغريٰ للنسائي [7؍112 ح4085]
ومسند أحمد [4؍367]
ومسند عبد بن حميد [271]
ومصنف ابن ابي شيبه [7؍388 ح23508]
وكتاب المعرفة والتاريخ للامام يعقوب بن سفيان الفارسي [3؍289، 290]
والمستدرك [4؍360، 361]
ومجمع الزوائد [6؍289، 290]
↰ معلوم ہوا کہ منکرین حدیث کا اس حدیث پر حملہ دراصل تمام محدثین پر حملہ ہے۔
تنبیہ ①: قرآن مجید سے ثابت ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام ان رسیوں کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گئے تھے جنہیں جادوگروں نے پھینکا تھا۔ جادوگروں نے ایسا جادو چلایا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام یہ سمجھے کہ یہ (سانپ بن کر) دوڑ رہی ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
«يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ»
”ان کے جادو (کے زور) سے موسیٰ کو یوں خیال ہوتا تھا کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔“ [آسان لفظي ترجمه ص503، طٰهٰ: 66]
↰ معلوم ہوا کہ جادو کا عارضی اثر خیال پر ہو سکتا ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خیال کرنا کہ میں نے یہ (دنیا کا) کام کر لیا ہے، قطعاً قرآن کے خلاف نہیں ہے۔
منکرین حدیث کو چاہئے کہ وہ ایسی قرآنی آیت پیش کریں جس سے صاف ثابت ہوتا ہو کہ دنیاوی امور میں نبی کے خیال پر جادو کا اثر نہیں ہو سکتا۔ جب ایسی کوئی آیت ان کے پاس نہیں اور سورت طٰہٰ کی آیت مذکورہ ان لوگوں کی تردید کر رہی ہے تو ان لوگوں کو چاہئیے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور امت مسلمہ کی متفقہ صحیح احادیث پر حملہ کرنے سے باز رہیں۔
تنبیہ ②: روایت مذکورہ میں جادو کی مدت کے دوران میں دینی امور اور وحی الٰہی کے سلسلے میں جادو کا کوئی اثر نہیں ہوا اور نہ قرآن کا کچھ حصہ لکھوانے سے رہ گیا ہے۔ بلکہ اس جادو کا اثر صرف دنیا کے معاملات پر ہوا مثلًا آپ اپنی فلاں زوجہ محترمہ کے پاس تشریف لے گئے یا نہیں؟ لہٰذا دین اسلام قرآن وحدیث کی صورت میں من و عن محفوظ ہے۔ «والحمدلله»
ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 17
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6063
´اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اللہ تعالیٰ تمہیں انصاف اور احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے`
«. . . قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ} . . .»
”. . . اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اللہ تعالیٰ تمہیں انصاف اور احسان اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور تمہیں فحش، منکر اور بغاوت سے روکتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، شاید کہ تم نصیحت حاصل کرو““ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: Q6063]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6063 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں آیات پیش فرمائی ہیں، جن سے آپ کا مقصد واضح ہے کہ آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے بغی، ظلم سے منع فرمایا ہے اور یہ واضح فرمایا ہے کہ سرکشی اور ظلم کا نقصان خود سرکش اور ظالم ہی کی طرف لوٹے گا اور مظلوم کی اللہ تعالی کی طرف سے مدد کی جائے گی۔
چنانچہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے امام قسطلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«و مطابقة الآيات المذكورة، و ترجمة الباب مع الحديث كما هو ملخص من قول الخطابي إن الله تعالي لما نهي عن البغي، و أعلم أن ضرر البغي إنما هو راجح على الباغي، و ضمن النصر لمن بغي عليه كان حق من بغي عليه أن يشكر إليه على إحسانه إليه، بأن يعفو عمن بغي عليه، وقد امتثل النبى صلى الله عليه وسلم ذالك فلم يعاقب الذى كاده بالسحر مع قدرته على ذالك.» (1)
”ترجمۃ الباب میں جو آیات ہیں، ان کی مناسبت حدیث سے یوں ہے کہ امام خطابی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یقینا اللہ تعالی نے بغی سے ممانعت فرمائی ہے اور بغی کا ضرر اس پر راجح ہے، اور مدد اسی کے لیے ہے جس پر بغی (یعنی زیادتی) کیا گیا ہے، اور جس پر بغی کیا گیا ہے وہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرے کہ اس پر اس کا احسان کیا، اور یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بدلہ نہیں لیا جس نے جادو کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر باوجود اس کے کہ اس
پرقدرت تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بدلہ لیتے۔“
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و يحتمل أن يكون مطابقة الترجمة للآيات و الحديث أنه صلى الله عليه وسلم ترك استخراج السحر خشية أن يثور على الناس منه شر فسلك مسك العدل فى أن لا يحصل لمن لم يتعاط السحر شئيي من أثر الضرر الناشي عن السحر شر و سلك مسك الإحسان فى ترك عقوية الجاني.» (1)
”اس کا حاصل یہ ہے کہ آیت کریمہ میں عدل و احسان کا ذکر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جادو کے واقعے میں عدل و احسان دونوں پر عمل فرمایا، عدل اس طرح کہ جادو کا یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشہور نہیں کیا، تاکہ جو لوگ اس میں شریک نہیں ہیں، ان میں فساد برپا نہ ہو، کیوں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سحر کرنے والے کا نام بتا دیتے تو مسلمان ان کے خلاف کاروائی کرتے اور یوں معاملہ جنگ و جدال تک پہنچتا . . . اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملہ کو دبا کر راہ عدل و انصاف اختیار فرمایا، دوسری طرف جادو کرنے والے مجرم کو معاف فرما کر احسان پر عمل کیا، لہذا آیت کریمہ میں جو عدل و احسان کا ذکر ہے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کر کے دکھلایا۔“
فائدہ:
جیسا کہ ہم قارئین کو فائدے یا اشکالات کے جوابات میں اکثر منکر ین، ملحدین کے اعتراضات سے آگاہی فراہم کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ علمی نقد بھی، چنانچہ مذکورہ بالا حدیث سحر پر بھی اشکالات کے ساتھ تابڑ توڑ حملے کیے گئے ہیں اور منکرین حدیث نے اس کو بھی راویوں کی سازش اور قرآنی آیات کے خلاف بیان کر کے اسے رد کرنے کی کوشش کی، بلکہ بےسراپا اور تار عنکبوت سے بھی کمزور دلائل سے عوام الناس کو گمراہ کرنے کی ناکام سعی کی گئی ہے، ہم ان شاء اللہ ان کے اعتراضات کو بھی نقل کریں گے اور بتدریج ان اعتراضات کے جوابات بھی قارئین کے سامنے پیش کریں گے تاکہ ان گلابی منکرین حدیث کے مقاصد اپنی موت آپ مر جائیں۔
سحر والی حدیث پر پہلا اعتراض:
بعض منکرین حدیث کا اعتراض یہ بھی ہے کہ جادو کا نبی پر ہونا قرآن کریم کے نصوص کے خلاف ہے، کیوں کہ موسی علیہ السلام پر جادو کا اثر نہ ہوا تھا جبکہ مذکورہ حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہوا، لہذا حدیث کا بیان قرآن کریم کے بیان کے خلاف ہے۔
پہلے اعتراض کا جواب:
کسی نے خوب کہا: ”آنکھیں ہیں اگر بند تو پھر دن بھی رات ہے“، قرآن مجید ہی میں واضح طور پر موسی علیہ السلام پر جادو کے اثر کا واقعہ تفصیلا موجود ہے، جادوگروں کے جادو سے لوگوں کا ڈرنا تو منکرین حضرات مان لیتے ہیں، مگر موسی علیہ السلام پر اس کے اثر کو نہیں مانتے، حالانکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
« ﴿يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى﴾ » [طه: 66]
”ان کے جادو سے موسی علیہ السلام کو خیال آتا ہے کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔“
حالانکہ حقیقتا وہ دوڑ نہیں رہی تھیں، کیوں کہ وہ جادو کا اثر تھا، اور مزید اگلی آیت میں ارشاد ہوا:
« ﴿فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً﴾ » [طه: 67]
”کہ موسی اپنے نفس میں خوف زدہ ہو گئے۔“
لہذا جب موسی علیہ السلام کا خوف زدہ ہونا ایک بشریت کا تقاضا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جادو کے اثر سے خوف زدہ ہونا بھی اسی بشریت کے ناطے سے ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں نبیوں کو ایک مثال میں جمع فرمایا ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
« ﴿إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا﴾ » [المزمل: 15]
”ہم نے تمہاری طرف اسی طرح کا رسول تم پر گواہ بنا کر بھیجا، جس طرح فرعون کی طرف ایک رسول بنا کر بھیجا۔“
اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مماثلت کے لیے موسی علیہ السلام کی مثال دی جارہی ہے، حالانکہ موسی علیہ السلام سے بیشتر انبیاء علیہم السلام کثیر تعداد میں تشریف لائے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھنے میں موسی علیہ السلام سب سے زیادہ قریب تھے، مثلا:
موسی علیہ السلام نے جہاد کیا . . . . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی جہاد کیا۔
موسی علیہ السلام کے دور کا فرعون . . . . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا فرعون ابوجہل۔
موسی علیہ السلام نے ہجرت کی . . . . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہجرت کی۔
موسی علیہ السلام کی پیدائش فطری تھی . . . . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی فطری پیدائش تھی۔
موسی علیہ السلام نے حدود کو نافذ فرمایا . . . . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حدود کا نفاذ کیا۔
موسی علیہ السلام کے جانشین ان کے خاندان نبوت سے نہیں بلکہ ان کے صحابی یوشع بن نون تھے . . . . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے۔
موسی علیہ السلام پر بھی جادو ہوا . . . . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جادو ہوا۔
موسی علیہ السلام پر جادو کرنے والے نامراد ہوئے . . . . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کرنے والا لبید بن اعصم بھی نامراد ہوا۔
دوسرا اعتراض:
بعض حضرات کی طرف سے یہ بھی اعتراض نقل کیا گیا ہے کہ اس حدیث کو صرف ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہی نقل کیا ہے، اگر یہ واقعہ سرزد ہوتا تو دیگر امہات المومنین اسے ضرور نقل کرتیں یا پھر آپ کے دیگر صحابہ کرام۔
دوسرے اعتراض کا جواب:
یہ اعتراض بھی سرسری مطالعے کا نتیجہ ہے، مثال کے طور پر اگر اس واقعہ کو صرف امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہی روایت کیا ہے تو پھر بھی اس میں کون کی خرابی ہے؟ جس کی وجہ سے حدیث قابل حجت نہیں، شریعت میں ایسے کئی واقعات و مسائل ہیں جنہیں صرف ایک ہی صحابی روایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان روایات کو ہر دور میں قبول کیا گیا ہے، مگر یہاں ایسا کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے جس کی وجہ سے یہ تکلف کرنے کی ضرورت پیش آئی؟؟
الحمد للہ تحقیق سے اگر مطالعہ کیا جائے تو سحر کی حدیث کو بھی کئی صحابہ نے روایت کیا ہے، مثلا:
➊ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ۔ [مسند أحمد بن حنبل: 397/4]
«قال الإمام أحمد: ثنا أو معاوية ثنا الأعمش عن يزيد بن حيان عن زيد بن أرقم قال: تستحر النبى صلى الله عليه وسلم رجل من اليهود . . . . .» (1)
➋ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا۔ [الطبقات ابن سعد: 153/2]
«قال ابن سعد: أخبرنا عمر بن حفص عن حويبر عن الضحاك عن ابن عباس قال: مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم و أخز عن النساء و عن الطعام . . . . .» (2)
➌ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ:
«رواه ابن مردويه، و ذكره الدر المنثور، عن انس بن مالك، قال: صنعت اليهود بالنبي صلى الله عليه وسلم شيئا فأصابه منه.» (3)
➍ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ۔ [مصنف ابن ابي شيبة: 48/5]
«أخبرنا عبدالرحيم بن سليمان عن يحيى بن أبى حبة عن عبدالعزيز بن رفيع عن عبدالله بن أبى الحسين عن عمر بن خطاب: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”نزل فجلس ملكان“.» (1)
حدیث سحر والی روایت کے بارے میں «المراسيل والمقطوعات»:
① عروہ و ابن المسیب رحمہما اللہ: [عبد الرزاق، رقم: 19764 - الطبقات لابن سعد: 153/2]
② الزہری رحمہ اللہ: [صحيح البخاري: 153/2]
③ عکرمہ: [ابن سعد: 154/2]
④ عمر مولی غفرۃ: [ابن سعد: 151/2]
⑤ عمر بن الحکم و عبدالرحمن بن کعب بن مالک: [ابن سعد: 152/2]
⑥ عبدالرحمن بن ابی لیلی: [ابن سعد: 155/2]
⑦ یحیی بن یعمر: [مصنف عبدالرزاق: 14/11]
ان حوالوں سے یہ بات واضح ہوئی کہ سحر والی حدیث میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا منفرد نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ اور بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو روایت کرتے ہیں، اور دیگر محدثین نے بھی مراسیل اور مقطوعات اس بارے میں پیش کی ہیں جن کی مثالیں ہم نے دے دی ہیں۔ الحمد للہ
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 183
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6391
´دعا میں ایک ہی فقرہ باربار عرض کرنا`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طُبَّ حَتَّى إِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ قَدْ صَنَعَ الشَّيْءَ وَمَا صَنَعَهُ، وَإِنَّهُ دَعَا رَبَّهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" جَاءَنِي رَجُلَانِ فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: مَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ: قَالَ فِي مَاذَا؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةٍ، قَالَ: فَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي ذَرْوَانَ وَذَرْوَانُ بِئْرٌ فِي بَنِي زُرَيْقٍ، قَالَتْ: فَأَتَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ لَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ، وَلَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ"، قَالَتْ: فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهَا عَنِ الْبِئْرِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَهَلَّا أَخْرَجْتَهُ، قَالَ:" أَمَّا أَنَا فَقَدْ شَفَانِي اللَّهُ وَكَرِهْتُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى النَّاسِ شَرًّا . . .»
”. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا اور کیفیت یہ ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کر لیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے دعا کی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے، اللہ نے مجھے وہ وہ بات بتا دی ہے جو میں نے اس سے پوچھی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: یا رسول اللہ! وہ خواب کیا ہے؟ فرمایا میرے پاس دو مرد آئے اور ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے پاس۔ پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا، ان صاحب کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا، ان پر جادو ہوا ہے۔ پہلے نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے۔ پوچھا وہ جادو کس چیز میں ہے؟ جواب دیا کہ کنگھی پر کھجور کے خوشہ میں۔ پوچھا وہ ہے کہاں؟ کہا کہ ذروان میں اور ذروان بنی زریق کا ایک کنواں ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کنویں پر تشریف لے گئے اور جب عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس دوبارہ واپس آئے تو فرمایا واللہ! اس کا پانی مہدی سے نچوڑے ہوئے پانی کی طرح تھا اور وہاں کے کھجور کے درخت شیطان کے سر کی طرح تھے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انہیں کنویں کے متعلق بتایا۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! پھر آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے شفاء دے دی اور میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ لوگوں میں ایک بری چیز پھیلاؤں۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الدَّعَوَاتِ: 6391]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6391 کا باب: «بَابُ تَكْرِيرِ الدُّعَاءِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں ایک ہی فقرے کو بار بار دعا میں استعمال کرنے کا ذکر فرمایا ہے، جبکہ تحت الباب حدیث میں اس طرح کا کوئی فقرہ نہیں ہے جسے بار بار کہا گیا ہو، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ اپنی عادت کے مطابق دوسری حدیث کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و رواية عيسىٰ بن يونس تقدمت موصولة فى الطب، و هو المطابق للترجمة بخلاف رواية أنس بن عياض التى أوردها فى الباب فليس فيها تكرير الدعاء، و وقع عند مسلم فى هذا الحديث ”فدعا ثم دعا ثم دعا“.» (1)
”عیسیٰ بن یونس کی روایت ”الطب“ میں مع شرح موصول ہوئی یہ مطابق ترجمہ ہے، بخلاف انس بن عیاض کی روایت کے جو یہاں وارد ہوئی ہے کہ اس کے سیاق میں تکریر دعا کا ذکر موجود نہیں ہے (لیکن) مسلم کے ہاں عبیداللہ بن عنبر عن ہشام کے طریق سے اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی، پھر دعا فرمائی، پھر دعا فرمائی۔“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس کا ذکر کتاب الطب وغیرہ میں گزر چکا ہے، اور جس روایت کو امام مسلم نے نکالا ہے اس میں تکرار کے ساتھ دعا کا ذکر موجود ہے جس سے باب کا مقصد حل ہو جاتا ہے۔ پس اسی جہت سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 213
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3545
´جادو کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی زریق کے یہودیوں میں سے لبید بن اعصم نامی ایک یہودی نے جادو کر دیا، تو آپ کو ایسا لگتا کہ آپ کچھ کر رہے ہیں حالانکہ آپ کچھ بھی نہیں کر رہے ہوتے تھے، یہی صورت حال تھی کہ ایک دن یا ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی، پھر دعا فرمائی اور پھر دعا فرمائی، پھر کہا: ”عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتا دی جو میں نے اس سے پوچھی تھی، میرے پاس دو شخص آئے، ایک میرے سرہانے اور دوسرا پائتانے بیٹھ گیا، سرہانے والے نے پائتانے والے سے کہا، یا پائتانے والے نے سرہانے والے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3545]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جادو ایک شیطانی عمل ہے۔
جس کی وجہ سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
(2)
جادو حرام اور کفر ہے۔
کیونکہ اس میں شیطانوں سے مدد مانگی جاتی ہے۔
اور اس طرح کے الفاظ کہے جاتے ہیں۔
جن میں شیطانوں کی تعریف ہوتی ہے اور کفریہ باتیں ہوتی ہیں۔
(3)
رسول اللہ ﷺ پر جادو ہوجانا منصب نبوت کے منافی نہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام جادو گروں کے جادو کی وجہ سے ان کی رسیوں اور لاٹھیوں کو سانپ سمجھ کر ڈر گئے تھے۔ (سور ہ طہٰ: 66، 67)
(4)
یہودی جادو کے ذریعے سے رسول اللہ ﷺ کو شہید کرنا چاہتے تھے۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔
یہ نبی کریمﷺکی نبوت کی دلیل ہے۔
(5)
رسول اللہ ﷺ نے یہودی کے جادو کے اثر سے کمزوری اور کسل مندی محسوس کی تاکہ یہود کو معلوم ہوجائے کہ جادو کے عمل میں کوئی کمی نہیں رہ گئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے جادو کے مؤثر ہونے کے باوجود اپنے نبی ﷺ کو محفوظ رکھا۔
جس طرح یہود نے نبی کریمﷺ کو زہریلا گوشت کھلا دیا۔
لیکن نبی ﷺ زہر کے اثر سے محفوظ رہے۔
(6)
بعض لوگوں نے اس حدیث پر اعتراض کیا ہےکہ اس سے کفار کے الزام کی تایئد ہوتی ہے۔
کہ نبی کریمﷺ پر جادو کا اثر ہے۔
جس کا ذکر سورہ فرقان آیت 8 میں ہے۔
لیکن یہ اعتراض اس لئے غلط ہے کہ کفار قرآن مجید کو اور رسول اللہ ﷺ کی دعوت اور محنت کو جنون اور جادو کا اثرقرار دیتے تھے۔
اس حدیث کا کفار کے اس قول سے کوئی تعلق نہیں۔
(7)
نبی علیہ السلام انسان ہوتے ہیں اس لئے وہ جسمانی تشدد اور ذہنی پریشانی سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
جس طرح طائف اور احد میں کفار کے ہاتھوں آپﷺ زخمی ہوئے یہ چیز منصب نبوت کے منافی نہیں۔
(8)
نبی کریمﷺ بھی مشکلات کے حل کےلئے اللہ سے دعا مانگتے تھے۔
اور اللہ تعالیٰ آپ کی پریشانی دور فرما دیتا تھا۔
(9)
نبی عالم الغیب نہں تھے۔
البتہ وحی کے ذریعے سے آپ ﷺ کوغیبی امور کی اطلاع دے دی جاتی تھی۔
(10)
جن چیزوں کو جادو کے عمل میں استعمال کیا جائے۔
ان کو جلادینا یا زمین میں دبا دینا درست ہے۔
(11)
رسول اللہ ﷺ نے اس واقعے کوزیادہ اہمیت نہیں دی۔
تاکہ بے فائدہ تشہیر نہ ہو۔
بلکہ صبر فرمایا اور یہودیوں کو سزا بھی نہیں دی۔
(12)
اس کنویں کے پانی کا رنگ غالبا عدم استعمال کی وجہ سے تبدیل ہوگیا تھا اور مہندی کے پانی کی طرح سرخ معلوم ہوتا تھا۔
واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3545
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:261
فائدہ:
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیے گئے جادو کا ذکر ہے، اور جادو کا ہو جانا حق ہے۔ جادو میں تاثیر ہوتی ہے۔ جبکہ جادو کرنے والا کافر ہے۔ غیر مسلم مسلمانوں کے دشمن ہیں، وہ جادو کے ذریعے بھی مسلمانوں پر حملہ کرتے رہتے ہیں۔ انسانی بالوں پر جادو بڑی جلدی اثر کرتا ہے، مرد و خواتین کنگھی کرنے کی وجہ سے گرنے والے بالوں کو چھپا کر رکھیں یا انھیں دفن کر دیں، تاکہ کوئی ظالم ان بالوں کے ذریعے جادو نہ کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے جادو کا دم بھی نازل کیا ہے، جادو کے لیے قرآن کریم کی آخری دونوں صورتیں پڑھ کر دم کرنا مسنون ہے، اسی طرح احادیث میں بھی کچھ صحيح دعاؤں کا ذکر ہے۔
یہاں پر بطور تنبیہ عرض ہے کہ آج کل عامل حضرات ہر مریض کو جادو کا اثر ہی بتاتے ہیں اور ان سے پیسے بٹورنے کی خاطر کئی کئی مہینے دم کرتے رہتے ہیں، اور اس کے ذریعے لوگوں کے مالوں اور عزتوں پر ڈاکا ڈالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان جاہل عاملوں سے محفوظ فرمائے، جادو کا دم ہر انسان، خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ ہو، کر سکتا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 261
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5703
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ بنو زریق کے یہودیوں میں سے ایک یہودی جس کو لبید بن اعصم کہا جاتا تھا، نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا تھا، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آتا کہ میں یہ کام کر رہا ہوں، حالانکہ آپ وہ کام کر نہیں رہے ہوتے تھے، حتی کہ ایک دن یا ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، پھر دعا کی، پھر دعا کی، پھر دعا کی، پھر فرمایا: ”اے عائشہ! کیا تمہیں پتہ چلا، اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5703]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
دعا رسول الله صلي الله عليه وسلم ثم دَعَا ثُمَّ دَعَا:
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی طویل دعا فرمائی،
جس کی بنا پر دوفرشتے انسانی صورت میں بھیج کر آپ کو مرض سے آگاہ کردیا گیا،
ایک فرشتہ جبریل تھا،
لیکن دوسرے فرشتہ کا نام کہیں صراحتاً نہیں آیا،
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے میکائیل قرار دیا ہے۔
(2)
مَا وَجَعُ الرَّجُلِ:
اس آدمی کو کیا بیماری ہے،
گویا سحر کےذریعہ،
آپ بیمارہوگئےتھے۔
(3)
مُشْطٍ:
کنگھی۔
(4)
مُشَاطَةٍ يا مشاقة:
کنگھی کرنے پر سر اور داڑھی کے بال جھڑنے والے بال۔
(5)
جب ياجُفِّ:
غلاف جس میں خوشہ ہوتا ہے،
طلعة:
خوشہ۔
فوائد ومسائل:
سحر جمہور اہل سنت کے نزدیک جادو ایک حقیقت ہے،
جس سے بعض دفعہ صرف نظر پر اثر پڑتا ہے،
ایک غیر واقع چیز،
واقع نظر آتی ہے،
جیسا کہ آج کل مسمریزم کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔
اور بعض دفعہ مزاج میں تبدیلی ہوتی ہے،
بیمار تندرست ہو جاتا ہے،
یا تندرست کو بیمار کر دیا جاتا ہے اور آپ پر بنو زریق جو خزرج کا ایک خاندان ہے کہ ایک فرد لبید بن اعصم نے صلح حدیبیہ سے واپسی کے بعد 7ھ میں یہودی سرداروں کے زور دینے پر جادو کر دیا تھا،
یہ ایک انصاری آدمی تھا اور یہودیوں کا حلیف تھا،
اس لیے بعض روایات میں اس کو یہودی کہا گیا ہے اور بعض میں منافق اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا،
اس طرح آپ کے بالوں تک اس کی رسائی تھی اور اس جادو کا اثر چھ ماہ تک رہا تھا اور جادو ایک قسم کا جسمانی عارضہ یا بیماری ہے اور انبیاء بھی انسان ہونے کے ناطے ان عوارض اور بیماریوں سے دوچار ہوتے ہیں،
لیکن اس کا اثر ان کے وظیفہ رسالت پر نہیں پڑتا،
اس لیے ان کے فریضہ منصبی میں اس سے کسی قسم کا خلل واقع نہیں ہوتا،
نہ پیغام وصول کرنے میں اور نہ پیغام پہنچانے میں،
اس لیے مفروضہ کی بنا پر کہ اس سے آپ کے فریضہ رسالت کی ادائیگی پر زد پڑے گی،
صحیح احادیث کا انکار کر دینا ایک مسلمان کا شیوا نہیں ہے،
باقی رہا یہ مسئلہ کہ اس طرح کفار کا یہ دعویٰ صحیح ٹھہرے گا،
﴿إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا ﴿٤٧﴾ اے مسلمانو،
تم ایک جادو زدہ انسان کی پیروی کرتے ہو،
تو یہ درست نہیں ہے،
کیونکہ ان کا مقصد تو یہ تھا کہ یہ دین و شریعت ایک جادو ہے،
جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے،
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دین و شریعت کا جادو سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ فریضہ رسالت پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے،
اس لیے آپ پر جادو کا زیادہ سے زیادہ یہ اثر تھا کہ آپ بیویوں کے پاس گئے نہیں ہوتے اور آپ کو یہ محسوس ہوتا تھا،
میں بیویوں کے پاس گیا ہوں،
یا آپ بیوی کے پاس جانا چاہتے،
لیکن جا نہیں سکتے تھے،
یا بعض دفعہ آپ کا کھانا پینا متاثر ہوتا تھا،
جیسا کہ طبقات ابن سعد میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔
افلا احرقته:
کہ آپ نے جادو کنویں سے نکال کر جلا کیوں نہیں دیا؟ اور آپﷺ نے فرمایا:
”كرهت ان اثير علی الناس شرا:
میں نے لوگوں میں شر پھیلانا پسند نہیں کیا،
“ کیونکہ اگر اس کو باہر نکالا جاتا تو لوگ اس کو دیکھ لیتے اور بعض شریر قسم کے لوگ اس کو سیکھ لیتے،
جس سے مزید خرابی پیدا ہوتی اور جادو کرنا بالاتفاق ناجائز ہے اور اگر جادوگر اس کو حق سمجھتا ہے تو یہ زندقہ یا ارتداد ہے،
اور پتہ چلنے پر ایسا مسلمان جادوگر واجب القتل ہے،
کیونکہ وہ مرتد یا زندیق ہے،
لیکن اگر اس کا عقیدہ درست ہے اور وہ کسی شرکیہ کام کا مرتکب نہیں ہوتا تو پھر بھی چونکہ یہ کام حرام ہے،
مستحق تعزیر ہے،
امام مالک کے نزدیک جادوگر کافر ہے اور اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہے،
اس لیے اس کو قتل کر دیا جائے گا،
بعض صحابہ اور تابعین کا بھی یہی نظریہ تھا اور امام احمد کا ایک قول یہی ہے،
اس لیے امام قرطبی مالکی نے یہ معنی کیا ہے کہ آپ نے لبید کو جلا کیوں نہیں دیا،
تاکہ دوسروں کے لیے سامان عبرت بنتا تو آپ نے فرمایا،
یہ مصلحت کے خلاف ہے،
فتنہ و فساد کے پھیلنے کا باعث بن سکتا ہے اور آپ نے اس کنویں کے متبادل کنواں کھدوا کر اسے دفن کروا دیا۔
(وفاء الوفا،
ج 3،
ص 1138،
تکملہ ج 4،
ص 39)
۔
اور آپ نے کھجوروں کے سروں کو ان بدنظری کی بنا پر شیطانوں کے سروں یا سانپوں کے پھن کے ساتھ تشبیہ دی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5703
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5766
5766. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا اس کا یہ اثر ہوا کہ آپ اپنے خیال کے مطابق ایک کام کر چکے ہوتے لیکن وہ نہیں کیا ہوتا تھا آخر کار ایک دن آپ میرے پاس تشریف فر تھے تو آپ نے اللہ تعالٰی سے دعا کی پھر دعا مانگی، اس کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھئ اس کا جواب اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھی اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے مجھے دے دیا ہے؟ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا پھر ایک نے دوسرے ساتھی سے کہا: اس صاحب کو کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ دسرے نے جواب دیا: لبید بن اعصم یہودی نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5766]
حدیث حاشیہ:
ابن سعد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ نے علی رضی اللہ عنہ اور عمار رضی اللہ عنہ کواس کنویں پر بھیجا کہ جا کر یہ جادو کا سامان اٹھا لائیں۔
ایک روایت میں ہے حضرت جبیر بن یاس زرقی کو بھیجا انہوں نے یہ چیزیں کنویں سے نکالیں ممکن ہے کہ پہلے آپ نے ان لوگوں کو بھیجا ہو اور بعد میں آپ خود بھی تشریف لے گئے ہوں جیسا کہ یہاں مذکور ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو چند روز اس جادو کا اثر رہا اس میں یہ حکمت الٰہی تھی کہ آپ کا جادو گر نہ ہونا سب پر کھل جائے کیونکہ جادو گر کا اثر جادو گر پر نہیں ہوتا۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5766
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6391
6391. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا حتیٰ کہ آپ خیال کرنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کر لیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا ہوتا تھا۔ آپ نے اپنے رب سے دعا کی۔ پھر آپ نے سیدہ عائشہ ؓ سے فرمایا: ”تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالٰی نے مجھے وہ بات بتا دی ہے جو میں نے اس سے دریافت کی تھی؟“ سیدہ عائشہ ؓ نے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس دو آدمی آئے۔ ان میں سے ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے پاس۔ پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا: اس صاحب کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: ان پر جادو کیا گیا ہے، پہلے نے پوچھا: کس نے جادو کیا ہے؟ جواب دیا: لبید بن اعصم نے یہ حرکت کی ہے۔ وہ جادو کس چیز میں کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: کنگھی۔ کنگھی سے گرنے والے بالوں اور نر کھجور کے شگوفے میں۔ پوچھا: وہ کہاں ہے؟ بتایا کہ زروان میں ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6391]
حدیث حاشیہ:
اسوئہ نبوی سے معلوم ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو شر کی اشاعت سے بھی بچنا لازم ہے۔
اسے اچھالنا، شہرت دينا اسوئہ نبی کے خلاف ہے۔
کاش مدعیان عمل بالسنہ ایسے امور کو بھی یاد رکھیں آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6391
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3268
3268. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ پر جادوکیا گیا تو آپ کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ آپ نے کوئی کام کیا ہے، حالانکہ وہ نہ کیا ہوتا تھا۔ پھر آپ نے ایک دن دعا فرمائی، پھر دعافرمائی (خوب دعا فرمائی)۔ اس کے بعد آپ نے (مجھ سے)فرمایا: ”(عائشہ!) کیا تمھیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آج مجھے ایسی چیز بتائی ہے جس میں میری شفا ہے۔ میرے پاس دو آدمی آئے۔ ان میں سے ایک میرےسر کے پاس اور دوسرا میرےپاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک نے دوسرے سے کہا: انھیں کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا: یہ سحر زدہ ہیں۔ اس نے کہا: ان پر کس نے جادو کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: لبید بن اعصم (یہودی) نے۔ اس نے کہا: کس چیز میں جادو کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: کنگھی بالوں اور نرکھجورکے خوشئہ پوست میں۔ اس نے کہا: یہ کہاں رکھا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: ذروان نامی کنویں میں۔“ اس کے بعد نبی ﷺ کنویں کے پاس تشریف لے گئے اور واپس آکر حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3268]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ اس جادو کے اثر سے آپ کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ عورتوں سے صحبت کررہے ہیں۔
حالانکہ نہیں۔
غرض اس سحر کا اثر آپ ﷺ کے بعض خیالات پر ہوا۔
باقی وحی اور تبلیغ رسالت میں اس کا کوئی اثر نہ ہوسکا۔
اتنا سا جو اثر ہوا اس میں بھی اللہ پاک کی کچھ مصلحت تھی۔
مدینہ میں بنی زریق کے باغ میں ایک کنواں تھا۔
اس کا نام بئر ذروان تھا۔
اگر آپ اس جادو کو نکلوالتے تو سب میں یہ خبر اڑجاتی تو مسلمان لوگ اس یہودی مردود کو مارڈالتے، معلوم نہیں کیا کیا فسادات کھڑے ہوجاتے۔
دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے اس کو نکلوا کر دیکھا لیکن اس کے کھلوانے کا منتر نہیں کرایا۔
ایک روایت میں ہے کہ اس یہودی نے آنحضرت ﷺ کی مورت موم سے بناکر اس میں سوئیاں گاڑ دی تھیں اور تانت میں گیارہ گرہیں دی تھیں۔
اللہ نے معوذتین کی سورتیں اتاریں، آپ ان کی ایک ایک آیت پڑھتے جاتے تو ایک ایک گرہ کھلتی جاتی۔
اسی طرح جب اس مورت میں سے سوئی نکالتے تو اس کو تکلیف ہوتی، اس کے بعد آرام ہوجاتا۔
(وحیدی)
ہردو روایات میں تطبیق یہ ہے کہ اس وقت آپ نے اسے نہیں نکلوایا، بعد میں کسی دوسرے وقت اسے نکلوایا اور اس کی اس تفصیل کو ملاحظہ فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3268
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5763
5763. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ بنو زریق کے ایک یہودی شخص لبید بن اعصم نے رسول اللہ ﷺ پر جادو کر دیا، جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو کسی چیز کے متعلق خیال ہوتا کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ وہ نہ کیا ہوتا تھا حتیٰ کہ ایک دن یا رات آپ ﷺ میرے پاس تھے اور آپ نے بار بار دعا کی پھر فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ جو کچھ میں نے اللہ تعالٰی سے پوچھا تھا: اللہ تعالٰی نے مجھے اس کا جواب دے دیا ہے؟ میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک نے اپنے دوسرے ساتھی پوچھا: اس صاحب کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ اس نے کہا: لبید بن اعصم نے۔ اس نے پوچھا: کس چیز میں (جادو کیا ہے)؟ دوسرے نے بتایا کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں، یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5763]
حدیث حاشیہ:
قال النووي خشي من إخراجه و إشاعته ضررا علی المسلمین من تذکر السحر ونحو ذالك وھو من باب ترك المصلحة خوف المنسرة (فتح)
نووی نے کہا کہ آپ نے اس جادو کے نکالنے اور اس کا ذکر پھیلانے سے احتراز فرمایا تاکہ جادو کے سکھانے اور اس کے ذکر کرنے سے مسلمانوں کو نقصان نہ ہو۔
اسی خوف فساد کی بنا پر مصلحت کے تحت آپ نے اسی وقت اس کا خیال چھوڑ دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5763
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6063
6063. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا نبی ﷺ اتنے اتنے دن اس حال میں رہے آپ کو خیال ہوتا کہ اپنی بیوی کے پاس گئے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہوتا تھا حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ آپ ﷺ نے ایک دن مجھ سے فرمایا: عائشہ! میں نے اللہ تعالٰی سے ایک معماملے میں سوال کیا تھا تو اس نے مجھے حقیقت حال سے آگاہ کر دیا ہے: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے پاؤں کے پاس اور دوسرا میرے سر کے قریب بیٹھ گیا۔ جو میرے پاؤں کے پاس تھا اس نے سر کے قریب بیٹھنے والے سے کہا کہ اس آدمی کا حال کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ اس پر جادو کر دیا گیا ہے۔ اس نے پوچھا: کس نے کیا ہے؟ اس نے کہا: ”لبید بن اعصم نے کیا ہے۔ پوچھا: کس چیز میں کیا ہے؟ بتایا کہ کنگھی کے بالوں کو نر کھجور کے چھلکے میں ڈال کر ذروان نامی کنویں میں ایک پتھر کے نیچے رکھ کر جادو کیا ہے۔“ نبی ﷺ وہاں تشریف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6063]
حدیث حاشیہ:
(اصل میں کتان السی کو کہتے ہیں اس کے درخت کا پوست لے کر اس میں ریشم کی طرح کا تار نکالتے ہیں یہاں وہی تار مراد ہیں)
باب کے آخری جملہ کا مقصد اسی سے نکلتا ہے کہ آپ نے ایک کافر کے اوپر حقیقت کے باوجود برائی کو نہیں لادا بلکہ صبر وشکر سے کام لیا اور اس برائی کو دبا دیا۔
شورش کو بند کردیا۔
(صلی اللہ علیہ وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6063
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3268
3268. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ پر جادوکیا گیا تو آپ کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ آپ نے کوئی کام کیا ہے، حالانکہ وہ نہ کیا ہوتا تھا۔ پھر آپ نے ایک دن دعا فرمائی، پھر دعافرمائی (خوب دعا فرمائی)۔ اس کے بعد آپ نے (مجھ سے)فرمایا: ”(عائشہ!) کیا تمھیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آج مجھے ایسی چیز بتائی ہے جس میں میری شفا ہے۔ میرے پاس دو آدمی آئے۔ ان میں سے ایک میرےسر کے پاس اور دوسرا میرےپاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک نے دوسرے سے کہا: انھیں کیا تکلیف ہے؟ اس نے کہا: یہ سحر زدہ ہیں۔ اس نے کہا: ان پر کس نے جادو کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: لبید بن اعصم (یہودی) نے۔ اس نے کہا: کس چیز میں جادو کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: کنگھی بالوں اور نرکھجورکے خوشئہ پوست میں۔ اس نے کہا: یہ کہاں رکھا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: ذروان نامی کنویں میں۔“ اس کے بعد نبی ﷺ کنویں کے پاس تشریف لے گئے اور واپس آکر حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3268]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ پر جادوبیویوں کے سلسلے میں ہوا تھا کہ آپ ان کے پاس نہ جا سکیں۔
آپ سمجھتے تھے کہ میں ان سے تعلق قائم کر سکتا ہوں لیکن تعلق قائم نہیں کر سکتے تھے چنانچہ ایک روایت میں ہے اس جادو کے اثر سے آپ کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ عورتوں سے صحبت کر رہے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا تھا۔
(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6063)
الغرض اس جادو کا اثر آپ کے خیالات پر ہوا لیکن وحی اور تبلیغ رسالت میں اس کا کوئی اثر نہ ہو سکا۔
اتنا سا جو اثر ہو اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلحت تھی۔
ایک روایت میں ہے آپ نے اس جادو کو کنویں سے نکلوایا لیکن رد عمل کے طور پر اس یہودی سے کوئی باز پرس نہ کی کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان جذبات میں آکر اسے قتل کردیں جبکہ اس روایت میں ہے کہ آپ نے اسے نکالا نہیں تھا۔
ان میں تطبیق کی یہ صورت ممکن ہے کہ اس وقت آپ نے نہیں نکلوایا تھا بعد میں کسی دوسرے وقت اسے نکلوایا اور اس کی تفصیل سے آپ مطلع ہوئے۔
اس کے متعلق مکمل بحث کتاب الطب میں ہو گی۔
2۔
امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ جادو کی تکمیل میں شیاطین کا ہاتھ ہوتا ہے اور یہ ان کی بری صفات میں سے ہے کہ جادو کے ذریعے سے خاوند اور بیوی کے درمیان اختلاف ڈال دیں۔
نتیجے کے طور پر ان میں تفریق ہو جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3268
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5763
5763. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ بنو زریق کے ایک یہودی شخص لبید بن اعصم نے رسول اللہ ﷺ پر جادو کر دیا، جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو کسی چیز کے متعلق خیال ہوتا کہ آپ نے وہ کام کر لیا ہے حالانکہ وہ نہ کیا ہوتا تھا حتیٰ کہ ایک دن یا رات آپ ﷺ میرے پاس تھے اور آپ نے بار بار دعا کی پھر فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ جو کچھ میں نے اللہ تعالٰی سے پوچھا تھا: اللہ تعالٰی نے مجھے اس کا جواب دے دیا ہے؟ میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا۔ ایک نے اپنے دوسرے ساتھی پوچھا: اس صاحب کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ اس نے کہا: لبید بن اعصم نے۔ اس نے پوچھا: کس چیز میں (جادو کیا ہے)؟ دوسرے نے بتایا کنگھی اور اس سے جھڑنے والے بالوں میں، یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5763]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث پر اعتراض کیا گیا ہے کہ نبی پر جادو نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی کرے تو اس کا اثر نہیں ہو سکتا جبکہ اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا اور اس کا اثر بھی آپ پر ہوا۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ نبی پر جادو کا اثر ہونا تو قرآن سے ثابت ہے۔
فرعون کے جادوگروں نے جب لوگوں کے مجمع میں اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں تو وہ سانپ بن کر دوڑنے لگیں۔
اس دہشت کا اثر موسیٰ علیہ السلام پر ہوا جس کا قرآن نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:
”موسیٰ اپنے دل میں ڈر گئے تو ہم نے کہا:
ڈرو نہیں، تم ہی غالب رہو گے۔
“ (طه: 67/20، 68) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادو کے اثر سے کمزوری محسوس کی تاکہ یہود کو معلوم ہو جائے کہ جادو کے عمل میں کوئی کمی نہیں رہ گئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے جادو کے موثر ہونے کے باوجود اپنے نبی کو محفوظ رکھا جس طرح یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہریلا گوشت کھلا دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر کے اثر سے محفوظ رکھا۔
واضح رہے کہ یہودی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو سے شہید کرنا چاہتے تھے۔
(3)
اس حدیث پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کفار کی بات نقل کی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سحر زدہ (مسحور)
کہتے تھے۔
(الفرقان: 25/8)
اگر آپ پر جادو کی اثر پذیری تسلیم کر لیں تو گویا ہم بھی کفار کے ہم نوا بن گئے۔
یہ اعتراض بھی بے بنیاد اور لغو ہے کیونکہ کفار کا الزام یہ تھا کہ نبی نے اپنی نبوت کے دعوے کا آغاز ہی سحر زدگی اور جنون سے کیا ہے اور یہ جو کچھ قیامت، آخرت، حشر و نشر اور جنت و دوزخ کے افسانے سناتا ہے وہ سب جادو کا اثر اور پاگل پن کی باتیں ہیں لیکن اس حدیث کا کفار کے اس قول سے کوئی تعلق نہیں۔
نبی بہرحال انسان ہوتے ہیں، اس لیے وہ جسمانی تشدد اور ذہنی پریشانی سے دوچار ہو سکتے ہیں، جس طرح طائف اور اُحد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے ہاتھوں زخمی ہوئے تھے۔
یہ چیز منصب نبوت کے منافی نہیں، البتہ اس واقعے کا یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز جادوگر نہ تھے کیونکہ جادوگر پر جادو کا اثر نہیں ہوتا۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5763
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5766
5766. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا اس کا یہ اثر ہوا کہ آپ اپنے خیال کے مطابق ایک کام کر چکے ہوتے لیکن وہ نہیں کیا ہوتا تھا آخر کار ایک دن آپ میرے پاس تشریف فر تھے تو آپ نے اللہ تعالٰی سے دعا کی پھر دعا مانگی، اس کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھئ اس کا جواب اللہ تعالٰی سے جو بات پوچھی تھی اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے مجھے دے دیا ہے؟ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! وہ کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گیا پھر ایک نے دوسرے ساتھی سے کہا: اس صاحب کو کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نے کہا: اس پر جادو کیا گیا ہے اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ دسرے نے جواب دیا: لبید بن اعصم یہودی نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5766]
حدیث حاشیہ:
(1)
ابن سعد کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کو اس کنویں پر بھیجا کہ وہاں جا کر جادو کا سامان اٹھا لائیں۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبیر بن ایاس زرقی کو بلایا جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے، انہوں نے بئر ذروان میں جادو کے سامان کی نشاندہی کی۔
ممکن ہے کہ آپ نے پہلے ان حضرات کو بھیجا ہو بعد میں خود بھی تشریف لے گئے ہوں اور خود اس کا مشاہدہ کیا ہو۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 283/10) (2)
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا اور چند روز تک اس کا اثر بھی رہا، شاید اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکمت تھی کہ آپ کا جادوگر نہ ہونا سب پر ظاہر ہو جائے کیونکہ جادوگر پر جادو اثر نہیں کرتا۔
یہود آپ کو حسد کی وجہ سے شہید کرنا چاہتے تھے، پہلے زہریلا گوشت کھلایا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچا لیا اور اب انہوں نے آپ پر سخت قسم کا جادو کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نجات دی اور یہود کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5766
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6063
6063. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا نبی ﷺ اتنے اتنے دن اس حال میں رہے آپ کو خیال ہوتا کہ اپنی بیوی کے پاس گئے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہوتا تھا حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ آپ ﷺ نے ایک دن مجھ سے فرمایا: عائشہ! میں نے اللہ تعالٰی سے ایک معماملے میں سوال کیا تھا تو اس نے مجھے حقیقت حال سے آگاہ کر دیا ہے: میرے پاس دو آدمی آئے ان میں سے ایک میرے پاؤں کے پاس اور دوسرا میرے سر کے قریب بیٹھ گیا۔ جو میرے پاؤں کے پاس تھا اس نے سر کے قریب بیٹھنے والے سے کہا کہ اس آدمی کا حال کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا کہ اس پر جادو کر دیا گیا ہے۔ اس نے پوچھا: کس نے کیا ہے؟ اس نے کہا: ”لبید بن اعصم نے کیا ہے۔ پوچھا: کس چیز میں کیا ہے؟ بتایا کہ کنگھی کے بالوں کو نر کھجور کے چھلکے میں ڈال کر ذروان نامی کنویں میں ایک پتھر کے نیچے رکھ کر جادو کیا ہے۔“ نبی ﷺ وہاں تشریف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6063]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادوگر لبید بن اعصم پر قدرت رکھنے کے باوجود اسے سزا نہیں دی بلکہ اس پر صبر کیا اور برائی کو دبا دیا۔
آپ نے فرمایا:
”مجھے پسند نہیں کہ میں لوگوں شرکی تشہیر کروں۔
“ اس ارشاد کے دو معنی ہیں:
٭ مشتہر کرنے سے خطرہ تھا کہ مسلمان اسے پکڑ کر سزا دیں گے خواہ مخواہ ایک شور برپا ہوگا، آپ نے صبر سے کام لیتے ہوئے امن پسندی کا مظاہرہ کیا۔
٭مشتہر کرنے سے یہ بھی اندیشہ تھا کہ منافقین جادو سیکھ لیں گے اور مسلمانوں کو اس سے نقصان پہنچائیں گے، لہٰذا آپ نے اس معاملے کو دبا دیا۔
(2)
اس سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات کسی بڑے فساد اور شرکی روک تھام کے لیے مصلحت کو اختیار کیا جاتا ہے۔
مذکورہ آیات سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم سے منع کیا ہے اور وضاحت فرمائی کہ ظلم کا وبال ظالم کو پہنچتا ہے، پھر مظلوم کی مدد اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے رکھی ہے، لہٰذا مظلوم کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احسان کا شکر ادا کرتے ہوئے خود پر روا رکھے گئے ظلم وستم سے درگزر کرے اور ظالم کو معاف کر دے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادوگر کو معاف کر دیا تھا اور اسے کسی قسم کی سزا نہیں دی۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6063
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6391
6391. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کیا گیا حتیٰ کہ آپ خیال کرنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کر لیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا ہوتا تھا۔ آپ نے اپنے رب سے دعا کی۔ پھر آپ نے سیدہ عائشہ ؓ سے فرمایا: ”تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالٰی نے مجھے وہ بات بتا دی ہے جو میں نے اس سے دریافت کی تھی؟“ سیدہ عائشہ ؓ نے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس دو آدمی آئے۔ ان میں سے ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے پاس۔ پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا: اس صاحب کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: ان پر جادو کیا گیا ہے، پہلے نے پوچھا: کس نے جادو کیا ہے؟ جواب دیا: لبید بن اعصم نے یہ حرکت کی ہے۔ وہ جادو کس چیز میں کیا ہے؟ دوسرے نے کہا: کنگھی۔ کنگھی سے گرنے والے بالوں اور نر کھجور کے شگوفے میں۔ پوچھا: وہ کہاں ہے؟ بتایا کہ زروان میں ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6391]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ کا قائم کردہ عنوان ایک دعا کو بار بار عرض کرنے کے متعلق تھا جبکہ مذکورہ حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کے آخر میں حضرت عیسیٰ بن یونس اور امام لیث کے حوالے سے ایک اضافہ بیان کیا ہے جس میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی، پھر دعا مانگی، اس سے عنوان ثابت ہوتا ہے۔
(2)
ایک حدیث میں اس امر کی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند تھی کہ کم از کم تین مرتبہ اپنی دعا کو دہراتے اور تین، تین دفعہ استغفار کرتے۔
(سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1524)
بار بار بار دعا کرنے میں حکمت یہ ہے کہ اس انداز میں مقام فقر و حاجت اور اللہ تعالیٰ کے حضور تذلل، عاجزی اور خضوع کا اظہار ہے۔
اللہ تعالیٰ کو بندے کی عاجزی بہت پسند ہے اور وہ اس کی لاج بھی رکھتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6391