Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
اگر کوئی مسلمان ادائیگی حج کے بعد مرتد ہو کر پھر مسلمان ہو جائے تو کیا سابقہ حج اسے کفایت کرے گا؟
حدیث نمبر: 47
-" إذا أسلم العبد، فحسن إسلامه، كتب الله له كل حسنة كان أزلفها، ومحيت عنه كل سيئة كان أزلفها، ثم كان بعد ذلك القصاص، الحسنة بعشر أمثالها إلى سبع مائة ضعف، والسيئة بمثلها إلا أن يتجاوز الله عز وجل عنها".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی اسلام قبول کرتا ہے اور اس کے اسلام میں حسن آ جاتا ہے، تو اس نے جو نیکی کی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے لکھ کر (محفوظ کر لیتا ہے) ہے اور اس نے جس برائی کا ارتکاب کیا ہوتا ہے اسے مٹا دیا جاتا ہے پھر (اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے) مزید بدلہ یوں ہوتا ہے کہ ایک نیکی دس سے سات سو گنا تک کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور رہا مسئلہ برائی کا، تو وہ ایک ہی رہتی ہے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ وہ بھی معاف کر دے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏أخرجه النسائي: 267/2 - 267» ‏‏‏‏

سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 47 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 47  
فوائد:
امام البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اس نقطے پر تفصیلی بحث کی ہے کہ مسلمان ہونے والے کافر کی حالت کفر میں کی گئی نیکیاں بھی محفوظ کر لی جاتی ہیں اور آخرت میں اسے بدلہ دیا جاتا ہے، اس کی مکمل وضاحت قبولیت اسلام کے بعد کافر کی حالت کفر میں کی گئی نیکیوں کی اہمیت کے عنوان میں ہو چکی ہے۔
ہم یہاں صرف اس موضوع سے متعلقہ بحث نقل کرتے ہیں:
امام البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس بحث پر ایک اور فقہی مسئلہ مرتب ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ایک مسلمان حج ادا کرنے کے بعد مرتد ہو جاتا ہے، پھر ارتداد کے بعد مشرف باسلام ہو جاتا ہے، تو اس کا سابقہ حج ضائع نہیں ہو گا اور اس پر دوبارہ حج کرنا فرض نہیں ہو گا۔ امام شافعی کا یہی مسلک ہے، لیٹ بن سعد کا ایک قول بھی اسی کے حق میں ہے۔ امام ابن حزم نے اسی مسلک کو ترجیح دی اور اس کے حق میں بہت عمدہ اور متین کلام کیا، میں اس کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں:
جو مسلمان حج و عمرہ کی ادائیگی کے بعد مرتد ہو جائے، پھر اللہ تعالی اسے ہدایت دے کر جہنم سے بچا لے اور وہ مسلمان ہو جائے تو دوبارہ حج اور عمرہ کی ادائیگی اس پر عائد نہیں ہو گی، امام شافعی کا یہی مسلک ہے اور لیث بن سعد کا بھی ایک قول یہی ہے۔ جبکہ امام ابو حنیفہ، امام مالک اور ابو سلیمان کا خیال ہے کہ اس کا سابقہ حج یا عمرہ ضائع ہو جائے گا اور اسے یہ فریضہ دوبارہ ادا کرنا پڑے گا، انھوں نے اپنی رائے کے حق میں یہ آیت پیش کی:
«لئن أشركت لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِين» [سوره زمر: 65]
اگر تو نے شرک کیا تو تیرے اعمال ضائع ہو جائیں اور تو خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔
اس مسلک کے قائلین نے صرف یہ دلیل پیش کی ہے، لیکن در حقیقت یہ دلیل ان کے لیے حجت نہیں بن سکتی، کیونکہ اس آیت میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ اگر مشرک شرک کی حالت میں مر جاتا ہے تو اس کے اعمال ضائع ہو جائیں گے، لیکن اگر وہ مسلمان ہو جاتا ہے تو اس کے سابقہ اعمال صالحہ محفوظ کر لیے جائیں گے۔ یہی حق ہے، اس میں کوئی شائبہ نہیں۔ ہاں یہ بات مسلّم ہے اگر مشرک حالت شرک میں حج، عمرے، نماز، روزے اور زکوۃ جیسے اعمال کرتا ہے تو یہ واجبات اس سے کفایت نہیں کریں گے، (کیونکہ ان اعمال کا شرعی احکام کے مطابق شروط و قیود کے ساتھ ادا کرنا ضروری سے)۔
اس آیت کے آخری جملے:
«وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ» (اور تو خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔)
پر غور کریں۔ اس جملے سے بھی یہ استدلال کرنا درست ہے کہ اگر مرتد مشرف با سلام ہو جاتا ہے، تو قبولیت اسلام سے پہلے والے سر انجام دیئے گئے اعمالِ صالحہ ضائع نہیں ہوں گے، بلکہ ان کو لکھ لیا جائے گا اور ان کا ثواب دیا جائے گا، کیونکہ امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ اگر مرتد دوبارہ اسلام قبول کر لیتا ہے تو وہ یقیناً فلاح پانے والوں اور کامیاب و کامران ہونے والوں میں سے ہو جائے گا اور خسارہ اٹھانے والوں میں سے نہیں رہے گا۔ پس معلوم ہوا جس مشرک کے عمل ضائع ہو جاتے ہیں وہ وہ ہوتا ہے جو کفر و شرک اور ارتداد کی حالت میں مر جاتا ہے۔ غور فرمائیں، ارشادِ باری تعالی ہے:
«وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ» [سورة بقره: 217]
اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے مرتد ہوئے اور اس حال میں مر گئے کہ وہ کافر ہوں، تو ان کے دنیا و آخرت میں ان کے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور یہی لوگ جہنمی ہیں، اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اس آیت کریمہ میں یہ وضاحت کر دی ہے کہ مرتد کے اعمال اس وقت ضائع ہو جائیں گے، جب وہ کفر کی حالت میں مر جائے گا۔
نیز اللہ تعالی کے درج ذیل فرمودات نیک اعمال کے باقی رہنے کے بارے میں عام ہیں:
«أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ» [سوره آل عمران: 195]
میں کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کرتا، وہ مرد ہو یا عورت۔
«فَمَنْ يَعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَه» [سوره زلزله: 7]
جو ذرہ برابر نیک عمل کرے گا، وہ اسے دیکھ لے گا۔
نیک اعمال کی حفاظت اور ضائع نہ ہو جانے کے بارے میں یہ عام احادیث ہیں، کسی قرینہ کے بغیر ان کی تخصیص نہیں کی جاسکتی، سو معلوم ہوا کہ جب مرتد دوبارہ اسلام قبول کر لیتا ہے تو اس کا سابقہ حج و عمرہ محفوظ ہو جاتے ہیں۔ [صحيحه: 247]
   سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 47