Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
قبولیت اسلام کے بعد کافر کی حالت کفر میں کی گئی نیکیوں کی اہمیت
حدیث نمبر: 46
-" أسلمت على ما أسلفت من خير".
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جو نیکیاں کر چکے ہو، ان سمیت اسلام لائے ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏أخرجه الشيخان وغيرهما» ‏‏‏‏

سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 46 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 46  
فوائد:
حکیم بن حزام کافر تھے، جب وہ مسلمان ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ خوشخبری سنائی کہ ان کی حالت کفر میں کی گئی نیکیاں بھی محفوظ کر لی گئی ہیں۔
امام البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: اس حدیث کی روشنی میں یہ کہنا درست ثابت ہوا کہ جب کافر اور مرتد اسلام قبول کرتے ہیں، تو ان کی سابقہ زندگیوں میں کی گئی نیکیاں بھی ان کے حق میں ذخیرہ کر لی جاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص حالت اسلام میں ادا ئیگی حج کے بعد مرتد ہو کر پھر مسلمان ہو جاتا ہے تو اس کا حج ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے۔ لیکن جب کوئی کافر حالت کفر میں حج ادا کرنے کے بعد مشرف باسلام ہوتا ہے تو اس کا حج اسے کفایت نہیں کرتا، کیونکہ اس کا حج شریعت اسلامیہ کے احکام کے مطابق ادا نہیں کیا جاتا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدُّ» جس کسی نے ایسا عمل کیا، جس پر (ہمارے دین) کا معاملہ نہ تو وہ مردود ہو گا۔
جو لوگ مرتد کے حج کے ضائع ہو جانے کا دعوی کرتے ہیں، ان کو چاہیے کہ اس کے شادی شدہ ہونے، اس کی تعین طلاقوں، اس کی خرید و فروخت کے معاملات اور اس کے عطیوں کو ساقط اور غیر معتبر سمجھیں، کیونکہ یہ سارے اسلامی احکام کے مطابق طے پائے تھے۔ لیکن ان میں کوئی بھی ان امور کے غیر معتبر ہونے کا قائل نہیں ہے، سو معلوم ہوا کہ حج کے بارے میں ان کا قول فاسد ہے۔
اس بحث کے بعد ہم آپ کی توجہ درج ذیل حدیث کی طرف مبذول کرانا چاہیں گے:
«إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مُؤْمِنًا حَسَنَتَهُ يُعْطِى بِهَا، وَفِي رَوَايَة: يُتَابُ عَلَيْهَا الرِّزْقُ فِي الدُّنْيَا، وَيَجْزِي بِهَا فِي الْآخِرَةِ، وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُطْعِمُ بِحَسَنَاتِ مَا عَمِلَ بِهَا لِلَّهِ فِي الدُّنْيَا، حَتَّى إِذَا أَفْضَى إِلَى الآخِرَةِ، لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَةٌ يُجْزَى بِهَا .» [صحيحه: 53]
اللہ تعالی نیکی کے سلسلے میں مومن پر ظلم نہیں کرتا، اس نیکی کی وجہ سے اسے دنیا میں رزق عطا کیا جاتا ہے اور آخرت میں ثواب دیا جاتا ہے، لیکن کافر کو اس کی اللہ تعالی کے لیے کی گئی نیکیوں کا ثواب دنیا میں کھلا دیا جاتا ہے، جب وہ آخرت تک پہنچتا ہے تو اس کی کوئی ایسی نیکی (باقی ہی) نہیں ہوتی کہ اسے اس کا صلہ دیا جا سکے۔
اس حدیث مبارکہ میں اس کافر کا ذکر ہے، جس نے اللہ تعالی کے علم کے مطابق کافر مرنا ہوتا ہے، کیونکہ اسی حدیث میں یہ اشارہ موجود ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حتی کہ جب وہ کافر آخرت تک پہنچتا ہے تو اس کی کوئی نیکی باقی نہیں ہوتی کہ اسے اس کا صلہ دیا جا سکے۔ رہا مسئلہ اس کافر کا، جس نے مسلمان ہو کر مؤمن مرنا ہوتا ہے، تو اس کی حالت کفر میں کی گئی نیکیاں ضائع نہیں ہوتیں اور اسے آخرت میں ان کا بدلہ دیا جاتا ہے، جیسا کہ مختلف احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ [صحيحه: 248]
لیکن اشکال یہ ہے کہ ابو طالب نے ابتدائے اسلام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھر پور تعاون کیا، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سفارش کی اور آپ کی شفاعت سے اسے فائدہ بھی ہو گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابو طالب کی نیکیوں کی وجہ سے اس کے عذاب میں تخفیف کی گئی۔ یہ اعتراض اور اس کا جواب ذرا تفصیل کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں:
«عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ هَلْ نَفَعْتَ أَبَا طَالِبٍ بِشَيْءٍ فَإِنَّهُ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، هُوَ فِي ضَحْضَاحِ مِنْ نَّارٍ، وَلَوْلا أَنَا أَيْ: شَفَاعَتُهُ، لَكَانَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ»
سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے اپنے چچا ابو طالب کو کوئی فائدہ دیا ہے، کیونکہ وہ آپ کی حفاظت کرتا تھا اور آپ کی خاطر غصے ہوتا تھا؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں، اب وہ کم مقدار آگ میں ہو گا، اگر میری شفاعت نہ ہوتی تو وہ جہنم کے نچلے طبقے میں ہوتا۔
[مسلم: 134/1، 135، و أحمد: 206/1 و 207، 210، وأبو يعلى: 2/213 و 2/313، وابن عساكر: 1/51/19]
«عَنْ أَبِي سَعِيدِ الْخُدْرِي، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ذُكِرَ عِندَهُ عَمَّة أبو طَالِبٍ، فَقَالَ: لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحِ مِنْ نَارٍ يَبْلُغُ كَعْبَيْهِ، يَغْلِي مِنْهُ دِمَاعُهُ» [الصحيحة: 54]
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کے چچا ابو طالب کا ذکر کیا گیا، آپ نے فرمایا: ممکن ہے کہ میری سفارش اسے روز قیامت فائدہ دے اور اسے کم مقدار آگ میں ڈال دیا جائے، جو اس کے ٹخنوں تک پہنچے گی اور اس کی حرارت سے اس کا دماغ کھولنا شروع ہو جائے گا۔
[مسلم: 135/1، و أحمد: 50/ 3 و 55، و ابن عساكر: 1/51/19، وأبو يعلى فى مسنده: 2/86]
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ابو طالب کے عمل کی وجہ سے اس کے عذاب میں تخفیف پیدا کر دی گئی، اس اشکال کا جواب درج ذیل ہے:
امام البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس اعتراض کے دو جوابات ہیں:
➊ ان احادیث سے یہ تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ابو طالب کا عمل اس کے عذاب میں تخفیف کا باعث تھا، اس کے عذاب میں تخفیف تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کی وجہ سے ہوئی۔ [صحيحه: 54]
پھر امام صاحب نے سیدنا عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ کی حدیث پر لکھا: اس حدیث میں یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ ابو طالب کے عذاب میں تخفیف کا سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت تھی، اس کا عمل نہیں تھا، اس لیے اس حدیث اور ہمارے بیان کردہ سابقہ قاعدے میں کوئی تناقض نہیں ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خاصہ ہے کہ ابو طالب کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش قبول کر لی گئی، حالانکہ وہ شرک پر مرا تھا اور مشرکین کے بارے میں اللہ تعالی کا قانون یہ ہے:
«فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ» [سورة مدثر: 48] سفارش کرنے والے کی سفارش ان کو فائدہ نہیں دے گی۔
لیکن اللہ تعالی جس پر چاہتا ہے، اپنا فضل کر دیتا ہے، اور اس کے سب سے زیادہ مستحق سید الانبیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
➋ اگر ہم تسلیم کر لیں کہ ابو طالب کے عذاب میں کی گئی تخفیف کا سبب اس کا عمل تھا کہ وہ آپ سے کسی کی مدد کرتا تھا، تو اسے اصل شرعی قاعدے سے مستثنی کر لیا جائے گا کہ دوسری احادیث کو ان کے اصل مفہوم پر برقرار رکھا جائے گا که حالت کفر میں مرنے والے کافر کی نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔ [صحيحه: 55]
   سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 46