سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
قبولیت اسلام کے بعد کافر کی حالت کفر میں کی گئی نیکیوں کی اہمیت
حدیث نمبر: 44
-" إذا أسلم العبد، فحسن إسلامه، كتب الله له كل حسنة كان أزلفها، ومحيت عنه كل سيئة كان أزلفها، ثم كان بعد ذلك القصاص، الحسنة بعشر أمثالها إلى سبع مائة ضعف، والسيئة بمثلها إلا أن يتجاوز الله عز وجل عنها".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی اسلام قبول کرتا ہے اور اس کے اسلام میں حسن آ جاتا ہے، تو اس نے جو نیکی کی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اسے لکھ کر (محفوظ کر لیتا) ہے اور اس نے جس برائی کا ارتکاب کیا ہوتا ہے اسے مٹا دیا جاتا ہے۔ پھر (اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے) مزید بدلہ یوں ہوتا ہے کہ ایک نیکی دس سے سات گنا تک کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور رہا مسئلہ برائی کا، تو وہ ایک ہی رہتی ہے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ وہ بھی معاف کر دے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه النسائي: 267/ 2 - 268»
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 44 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 44
فوائد:
امام البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
محقق علمائے اسلام کے مسلک کے مطابق درست بات یہ ہے کہ جو کافر حالت کفر میں صدقہ و خیرات اور صلہ رحمی جیسی نیکیاں سر انجام دینے کے بعد مسلمان ہوتا ہے تو اس کی سابقہ نیکیوں کا ثواب بھی محفوظ رکھا جاتا ہے۔ بعض نے تو اس رائے پر مسلمانوں کے اجماع و اتفاق کا دعوی کیا ہے۔
جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مسلک شرعی قواعد کے مخالف ہے۔ لیکن یہ مسلک غیر مسلم ہے، کیونکہ دنیا میں کافر کے بعض افعال کا اعتبار کیا جاتا ہے، جیسے اگر کوئی کافر حالت کفر میں ظہار کا کفارہ ادا کرتا ہے تو قبولیتِ اسلام کے بعد دوبارہ ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: اس حدیث میں ثواب کے لکھے جانے کا ذکر ہے، نہ کہ ان کے قبول ہونے کا۔ ممکن ہے کہ قبولیت کو اسلام کے ساتھ معلق کر دیا گیا ہو، یعنی اگر وہ کافر مسلمان ہو گیا تو اس کی نیکیاں قبول بھی کی جائیں اور اس کو ثواب بھی دیا جائے گا، وگرنہ نہیں۔ یہی مذہب قوی ہے۔ قدما میں سے امام نووی، ابراہیم حربی اور ابن بطال وغیرہ نے اور متاخرین میں سے امام قرطبی اور ابن منیر وغیرہ نے اسی مسلک کی تائید کی۔
ابن منیر نے کہا: کوئی مانع نہیں کہ کافر کفر کی حالت میں خیر و بھلائی کے جو کام خیر و بھلائی کی نیت سے کرتا ہے، قبولیت اسلام کے بعد اللہ تعالی اس کو سابقہ نیک امور پر ثواب عطا فرما دے، جیسا کہ اللہ تعالی عاجز مسلمان (مریض یا مسافر وغیرہ) کو ان اعمال کا ثواب عطا کرتا رہتا ہے، جو وہ طاقت و قدرت کے زمانے میں سر انجام دیتا تھا اور عاجزی کے دوران نہیں کر سکتا۔ اگر کسی عمل کو ادا کیے بغیر اس کا ثواب وصول کیا جا سکتا ہے، تو اس عمل کا ثواب بھی دیا جا سکتا ہے، جس میں مکمل شرطیں نہ پائی جاتی ہوں۔
بعض علمائے اسلام نے اس مسئلہ کو ثابت کرنے کے لیے اس چیز سے استدلال کیا ہے کہ جب اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی اسلام قبول کرتے ہیں تو ان کو دو گنا اجر دیا جاتا ہے، جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہوتا ہے، لیکن اگر وہ یہودیت اور عیسائیت پر ہی مر جائیں تو ان کو ان کے نیک اعمال کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا کہ کافر کے نیک اعمال لکھے جاتے ہیں، لیکن اس کے لیے حصول ثواب کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ اسلام قبول کرے۔ غور فرمائیں کہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابن جدعان کے اعمال صالحہ کے بارے میں سوال کیا کہ آیا ان سے اس کو فائدہ ہو گا؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”ابن جدعان نے تو ایک دن بھی یہ نہیں کہا: اے میرے رب! قیامت کے روز میری خطائیں بخش دینا۔“ اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ اسلام قبول کر لیتا تو حالت کفر میں سر انجام دیئے گئے اعمال خیر اس کے لیے مفید ثابت ہوتے۔
میں (البانی) کہتا ہوں: یہی مسلک مختلف احادیث کی روشنی میں برحق ہے، کسی کو اس کی مخالفت زیب نہیں دیتی۔ علامہ سندھی نے [سنن نسائي] پر اپنے حاشیے میں کہا: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کافر کی نیکیاں موقوف ہوتی ہیں، اگر وہ مشرف باسلام ہو جائے تو وہ مقبول ہو جاتی ہیں، وگرنہ مردود۔ اللہ تعالی کے درج ذیل ارشاد کو ان کافر لوگوں پر محمول کیا جائے گا، جو کفر کی حالت میں مر جائیں گے:
«وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ» [سورۃ نور: 39] ”کافر لوگوں کے اعمال تو سراب کی طرح (بے حقیقت) ہیں۔“
ظاہر بات تو یہی ہے کہ درج بالا مسلک کی مخالفت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اللہ تعالی کا فضل و احسان بہت وسیع ہے۔
میں (البانی) کہتا ہوں: علامہ سندھی رحمہ اللہ نے جو آیت ذکر کی ہے، اس قسم کی تمام آیات کا یہی مفہوم ہے، جن میں شرک کی وجہ سے عمل ضائع ہونے کی وعید میں بیان کی گئی ہیں، مثلا ارشادِ باری تعالی ہے:
«وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ» [سوره زمر: 65]
”(اے محمد!) آپ کی طرف اور آپ سے پہلے والے (انبیا و رسل) کی طرف یہ وحی کی گئی کہ اگر تو نے شرک کیا تو ضرور ضرور تیرے عمل ضائع ہو جائیں گے اور تو ضرور ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔“
ان اور اس موضوع سے متعلقہ تمام آیات کو اس شخص پر محمول کیا جائے گا، جو شرک کی حالت میں مرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
«وَ مَنْ يَرْتَدِدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَهُتُ وَهُوَ كَافِرُ فَأُولئِكَ حَبِطَتُ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولئِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُون» [سورة بقره: 217] ”اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے مرتد ہوئے اور اس حال میں مر گئے کہ وہ کافر ہوں، تو دنیا و آخرت میں ان کے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور یہی لوگ جہنمی ہیں، اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“
اس بحث پر ایک اور فقہی مسئلہ مرتب ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ایک مسلمان حج ادا کرنے کے بعد مرتد ہو جاتا ہے، پھر ارتداد کے بعد مشرف با سلام ہو جاتا ہے، تو اس کا سابقہ حج ضائع نہیں ہو گا اور دوبارہ حج کرنا اس پر فرض نہیں ہو گا۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے، لیث بن سعد کا ایک قول بھی اسی کے حق میں ہے۔ امام ابن حزم نے اسی مسلک کو ترجیح دی اور اس کے حق میں بہت عمدہ اور مضبوط کلام کی، میں اس کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں:
جو مسلمان حج و عمرہ کی ادائیگی کے بعد مرتد ہو جائے، پھر اللہ تعالی اسے ہدایت دے کر جہنم سے بچا لے اور وہ مسلمان ہو جائے تو دوبارہ حج اور عمرہ کی ادائیگی اس پر عائد نہیں ہو گی، امام شافعی کا یہی مسلک ہے اور لیث بن سعد کا بھی ایک قول یہی ہے۔ جبکہ امام ابو حنیفہ، امام مالک اور ابو سلیمان کا خیال ہے کہ اس کا سابقہ حج یا عمرہ ضائع ہو جائے گا اور اسے یہ فریضہ دوبارہ ادا کرنا پڑے گا، انھوں نے اپنی رائے کے حق میں یہ آیت پیش کی:
«لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ» [سوره زمر: 65]
”اگر تو نے شرک کیا تو تیرے اعمال ضائع ہو جائیں گئے اور تو خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔“
اس مسلک کے قائلین نے صرف یہ دلیل پیش کی ہے، لیکن در حقیقت یہ دلیل ان کے لیے حجت نہیں ہے، کیونکہ اس آیت میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ اگر مشرک شرک کی حالت میں مر جاتا ہے تو اس کے اعمال ضائع ہو جائیں گے لیکن اگر وہ مسلمان ہو جاتا ہے تو اس کے سابقہ اعمال صالحہ محفوظ کر لیے جائیں گے۔ یہی حق ہے، اس میں کوئی شائبہ نہیں۔ ہاں یہ بات مسلم ہے اگر مشرک حالتِ شرک میں حج، عمرے، نماز، روزے اور زکوۃ جیسے اعمال کرتا ہے تو یہ واجبات اس سے کفایت نہیں کریں گے، (کیونکہ ان اعمال کا شرعی احکام کے مطابق شروط و قیود کے ساتھ ادا کرنا ضروری ہے)۔
اس آیت کے آخری جملے «وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِين» (اور تو خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔) پر غور کریں۔ اس جملے سے بھی یہ استدلال کرنا درست ہے کہ اگر مرتد مشرف با سلام ہو جاتا ہے، تو قبولیت اسلام سے پہلے والے سر انجام دیئے گئے اعمالِ صالحہ ضائع نہیں ہوں گے، بلکہ ان کو لکھ لیا جائے گا اور ان کا ثواب دیا جائے گا، کیونکہ امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ اگر مرتد دوبارہ اسلام قبول کر لیتا ہے تو یقینا فلاح پانے والوں اور کامیاب و کامران ہونے والوں میں سے ہو جائے گا اور خسارہ اٹھانے والوں میں سے نہیں رہے گا۔ پس معلوم ہوا جس مشرک کے عمل ضائع ہو جاتے ہیں وہ وہ ہوتا ہے جو کفر و شرک اور ارتداد کی حالت میں مرجاتا ہے۔
غور فرمائیں، ارشاد باری تعالی ہے:
«وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ» [سورة بقره: 217]
”اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے مرتد ہوئے اور اس حال میں مر گئے کہ وہ کافر ہوں، تو دنیا و آخرت میں ان کے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور یہی لوگ جہنمی ہیں، اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“
اس آیت کریمہ میں یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ مرتد کے اعمال اس وقت ضائع ہو جائیں گے، جب وہ کفر کی حالت میں مر جائے گا۔
نیز اللہ تعالی کے درج ذیل فرمودات نیک اعمال کے باقی رہنے کے بارے میں عام ہیں:
«أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ» [سورة آل عمران: 195]
”میں کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کرتا، وہ مرد ہو یا عورت۔“
«فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَه» [سوره زلزله: 7] . ”جو ذرہ برابر نیک عمل کرے گا، وہ اسے دیکھ لے گا۔“
نیک اعمال کی حفاظت اور ضائع نہ ہو جانے کے بارے میں یہ عام احادیث ہیں، کسی قرینہ کے بغیر ان کی تخصیص نہیں کی جا سکتی، سو معلوم ہوا کہ جب مرتد دوبارہ اسلام قبول کر لیتا ہے تو اس کا سابقہ حج و عمرہ محفوظ ہو جاتے ہیں۔ [صحيحه: 247]
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 44