سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
قبولیت اسلام کے بعد کافر کی حالت کفر میں کی گئی نیکیوں کی اہمیت
حدیث نمبر: 43
-" لا يا عائشة، إنه لم يقل يوما: رب اغفر لي خطيئتي يوم الدين".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ابن جدعان دور جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا تھا اور مساکین کو کھانا کھلاتا تھا، آیا یہ نیکیاں اس کے لیے نفع مند ثابت ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، عائشہ! اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا تھا: اے میرے رب! روز قیامت میرے گناہوں کو بخش دینا۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 136/1، وأبو عوانة: 1/ 100، و أحمد فى ”المسند“:، وابنه عبدالله فى ”زوائده“: 93/6، وأبو بكر العدل فى ”اثنا عشر مجلسا“ ق: 1/6، والواحدى فى ”الوسيط“: 1/167/3»
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 43 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 43
فوائد:
امام البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جب کوئی کافر اسلام قبول کرتا ہے تو اس کی جہالت میں کی گئی نیکیاں محفوظ رہتی ہیں۔ ہاں اگر وہ کفر پر ہی مر جائے تو اس کے تمام نیک اعمال کفر کی وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں۔
نیز اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلا جو لوگ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل مر گئے تھے، ان کو اہل فترہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کو رسولوں کی دعوت نہ پہنچی ہو، کیونکہ اگر ایسے ہوتا تو ابن جدعان عذاب کا مستحق نہ ٹھہرتا اور اس کے اعمال صالحہ رائیگاں نہ جاتے۔ کئی احادیث میں اس مضمون کی وضاحت کی گئی ہے۔ [صحيحه: 249]
جس قوم کو بشیر و نذیر کا کوئی علم نہ ہو اور وہ رسولوں کی دعوت سے مکمل طور پر غافل ہو، ایسی قوم کو اہل فترہ کہتے ہیں،
یعنی ان کی برائیوں کا کوئی مواخذہ نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ایسے لوگوں کو ثواب اور گناہ کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ [والله اعلم۔]
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 43