سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
کفر کی حالت میں مرنے والے کافروں کے نیک اعمال رائیگاں ہو جاتے ہیں
حدیث نمبر: 42
-" إن أبي وأباك في النار".
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، حصین، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: ایک آدمی صلہ رحمی اور مہمانوں کی میزبانی تو کرتا تھا، لیکن وہ آپ سے پہلے فوت ہو گیا، (اب اس کی ان نیکیوں کا کیا بنے گا)؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا باپ اور تیرا باپ دونوں جہنمی ہیں۔“ ابھی تک بیس دن نہیں گزرے تھے کہ وہ شرک کی حالت میں مر گیا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه الطبراني فى ”الكبير“: 3552»
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 42 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 42
فوائد:
امام البانی رحمہ اللہ اس حدیث پر اہم، مفید اور طویل بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
میرے مسلم بھائی! موجودہ اور پچھلے زمانے کے کچھ لوگ اس قسم کی بعض احادیث صحیحہ کو نہیں سمجھ سکے، انھوں نے دلیل یہ پیش کی ہے کہ اگر ان احادیث کو تسلیم کیا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کو کافر کہنا پڑتا ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو داعیان اسلام ظاہر کر کے اس قسم کے موضوع پر دلالت کرنے والی احادیث اور ان کی واضح دلالت کی سخت مذمت کرتے ہیں۔
میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ان کو احادیث نبویہ تسلیم نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذمت کر رہے ہیں، جنہوں نے یہ احادیث بیان کیں اور ایسے کرنا واضح کفر ہے یا پھر یہ لوگ ان ائمہ کی مذمت کر رہے ہیں، جنہوں نے یہ احادیث بیان کیں اور ان کو صحیح کہا اور ایسے کرنا بھی فسق یا کفرِ صریح ہے، کیونکہ اس طرح کرنے سے مسلمان اپنے دین کو مشکوک سمجھنے لگ جائیں گے۔
ہر ذی شعور اور ذی بصیرت مسلمان جانتا ہے کہ دین کی معرفت اور اس پر ایمان کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے۔ اگر کوئی مسلمان اپنے ذاتی ذوق اور خواہش کی موافقت کرتے ہوئے اس طریق کی تصدیق نہیں کرے گا، تو اس سے صحیح احادیث کو ردّ کرنے کے کا بہت بڑا دروازہ کھل جائے گا۔ غزالی، ہویدی، بلیق اور ابن عبد المنان جیسے مصنفین کی تصنیفات ہمارے دعوے کی تصدیق کرتی ہیں، کیونکہ ان لوگوں کے پاس احادیث کو صحیح یا ضعیف قرار دینے کے لیے ذاتی ذوق اور خواہش کے علاوہ کوئی میزان و معیار نہیں تھا۔
دین کے بارے میں فکر مند رہنے والے مسلمان! قابل غور بات یہ ہے کہ جن احادیث میں کسی شخص کے کفر یا ایمان کا حتمی فیصلہ کر دیا جاتا ہے، ان کا تعلق غیبی امور سے ہے، جن پر ایمان لانا اور ان کو قبول کرنا فرض ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا:
«الم . ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ . الَّذِينَ يَؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ» [سورة بقره: 1- 3]
”الم۔ یہ کتاب، اس میں کوئی شک نہیں، یہ پرہیز گار لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔“
نیز ارشاد باری تعالی ہے:
«وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهم» [سوره احزاب: 36]
”اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔“
پس ان احادیث سے اعراض کرنے اور ان پر ایمان نہ لانے سے دو امور میں سے ایک لازم آتا ہے:
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانا یا پھر
➋ حدیث کو روایت کرنے والے ثقہ راویوں کو جھٹلانا۔
میں جانتا ہوں کہ امام سیوطی رحمہ اللہ کی طرح جو لوگ ان احادیث کا انکار کرتے ہیں یا ان کی باطل اور نا قابل قبول تاویلات کرتے ہیں، ان کو ایسا کرنے پر آمادہ کرنے والی چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور محبت میں غلوّ ہوتی ہے۔ اس لیے یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے جہنمی ہونے کا انکار کر دیتے ہیں، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ احادیث بیان کیں۔ ممکن ہے کہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ شفیق ہوں!
ان میں سے بعض افراد تو اس حدیث کی طرف مائل ہونے سے بھی باز نہیں رہ سکتے کہ اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ کی ماں یا والدین کو زندہ کر دیا تھا۔ لیکن یہ حدیث من گھڑت اور باطل ہے، جیسا کہ امام دارقطنی، امام جوز رقانی، امام ابن عساکر، حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے وضاحت کی۔ آپ خود جوز رقانی کی کتاب [الأباطيل والمناكير: 222/1 - 229، بتعليق الدكتور عبد الرحمن الفريوالي] کا مطالعہ کر لیں۔ امام ابن جوزی نے [الموضوعات: 284/1] میں کہا: یہ حدیث بلا شک و شبہ موضوع ہے۔ اس حدیث کو وضع کرنے والا شخص سے فہم اور جاہل تھا۔ اگر وہ عالم ہوتا تو اسے معلوم ہوتا کہ جو آدمی کافر مرتا ہے، اسے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس قسم کی موضوع حدیث کو ردّ کرنے کے لیے اللہ تعالی کا یہ فرمان کافی ہے:
«وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ» [سورة بقره: 217]
”اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اور اسی کفر کی حالت میں مر جائیں، ان کے دنیوی اور اخروی اعمال غارت ہو جائیں گے، یہ لوگ جہنمی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے۔“
نیز آپ نے فرمایا: «إِسْتَأْذَنْتُ رَبِّ أَنْ أَسْتَغْفِرَ لِأُمِّي فَلَمْ يَأْذَنْ لِي .»
یعنی ”میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کے لیے بخشش طلب کرنے کی اجازت طلب کی، لیکن اللہ تعالی نے مجھے اجازت نہ دی۔“
امام شوکانی رحمہ اللہ کی کتاب [الفوائد المجموعة فى الأحاديث الموضوعة] پر تعلیق لگاتے ہوئے شیخ عبد الرحمن یمانی نے بڑی مختصر اور عمدہ بات کی ہے، وہ کہتے ہیں: زیادہ تر دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ محبت پر قابو نہ کر سکنے کی وجہ سے حقیقی دلائل کو ردّ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جن احباب کو خیر و بھلائی کی توفیق دی جاتی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز شرعی محبت کے مخالف ہے۔
میں (البانی) کہتا ہوں کہ امام سیوطی عفا اللہ عنہ بھی ان افراد میں سے ہے کہ محبت کا معاملہ جن کے قابو سے باہر ہو گیا، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کی دوبارہ زندگی کے بارے میں جو حدیث جلیل القدر علما کے نزدیک باطل تھی، یہ اس کی تصحیح کی طرف مائل ہو گئے اور پھر انھوں نے (اللالی) میں اس حدیث اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماں کے حق میں استغفار کرنے کی اجازت نہ ملنے والی حدیث میں جمع و تطبیق شروع کر دی اور نتیجتاً یہ دعوی کر دیا کہ جس حدیث میں استغفار کی اجازت نہیں دی گئی، وہ منسوخ ہے۔ حالانکہ امام سیوطی جانتے تھے کہ نسخ کا تعلق احکام سے ہوتا ہے، نہ کہ اخبار سے اور یہ احادیث، اخبار سے متعلقہ ہیں۔ کیا ان کو یہ بات سمجھ نہ آسکی کہ آیا یہ ممکن ہے کہ صادق و مصدوق پیغمبر پہلے ایک شخص کے بارے میں جہنمی ہونے کی اطلاع دیں اور پھر اس قول کو منسوخ کر کے فرما دیں کہ وہ تو جنتی ہو گا؟
امام سیوطی نے اپنی بحث کے دوران صحیح مسلم کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ والی حدیث سے مکمل اعراض کیا اور اس کی طرف معمولی اشارہ تک بھی نہ کیا، بلکہ ان کے قلم نے زیادتی کی اور حماد بن سلمہ سے متعلقہ بعض لوگوں کی جرح کو سامنے رکھتے ہوئے اس حدیث پر ضعیف کا حکم لگا دیا۔ حالانکہ امام سیوطی جانتے تھے کہ یہ راوی، ائمہ اور ثقات رواۃ میں سے ہے اور ثابت سے اس کی روایت صحیح ہے، بلکہ امام ابن مدینی اور امام احمد نے تو کہا: ثابت کے شاگردوں میں سب سے زیادہ ثقہ حماد بن سلمہ ہے۔ [صحيحه: 2592]
امام البانی رحمہ اللہ کی صحیح مسلم کی سیدنا انس والی حدیث سے مراد یہ روایت ہے:
ایک آدمی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول میرا باپ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«فِي النَّار» ... ”آگ میں ہے۔“ جب وہ جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور فرمایا: «إِنَّ أبى وَأَبَاكَ فِى النَّارِ»
”بیشک میرا باپ اور تیرا باپ دونوں آگ میں ہیں۔“ [مسلم]
بلا شک و شبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا جزو ایمان ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ آپ کے تمام قرابتدار نورِ چشم نظر آتے ہیں۔ بہر حال یہ محبت شرعی اصولوں کے تحت ہو گی، نہ کہ ہمارے مزاج اور فطرت کے مطابق۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کو برحق تسلیم کیا جائے اور حسب استطاعت ان پر عمل کیا جائے۔ بعض لوگ اس محبت کی روح کو نہ سمجھ سکے اور اس کے سلسلے میں اپنے مزاج کو فوقیت دیتے ہوئے ان احادیث صحیحہ کو ردّ کرنا شروع کر دیا، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے والدین کے گمراہ ہونے کی نشاندہی کی۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو یہ شبہ کیوں ہوا؟ ظاہر بات ہے کہ اس شبہ کی بنیاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رسول خدا ہونا ہے۔
ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ آپ سے کسی کا سب سے عظیم وصف رسول ہونا ہے، باقی تمام اوصاف اسی وصف کے تابع ہیں۔
قرآن مجید کی رو سے حضرت نوح علیہ السلام جیسے ذو العزم پیغمبر کا بیٹا اور بیوی کافر تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے جد الا نبیاء پیغمبر کا باپ کافر اور مشرک تھا اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کافر تھی۔ ان مثالوں سے یہ واضح ہوا کہ رسالت ایسا وصف نہیں کہ جس کی وجہ سے رسول کے والدین اور اولاد کے مسلمان ہونے کی ذمہ داری دی گئی ہو۔
اگر یہ لوگ اپنے آپ کو محبت مصطفیٰ میں گرفتار سمجھ کر ان احادیث کو ردّ کرنا شروع کر دیتے ہیں، تو ان آیات کے بارے میں کیا کہیں گے کہ جن میں انبیاء و رسل کے آبا یا اولاد کو کافر قرار دیا گیا ہے؟
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 42