Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
کیا توبہ کے بغیر مرنے والے مسلمانوں فاسق کی بخشش ممکن ہے؟
حدیث نمبر: 39
-" ذاك جبريل عرض لي في جانب الحرة، فقال: بشر أمتك أنه من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة. فقلت: يا جبريل وإن سرق وإن زنى؟ قال: نعم، قال: قلت: وإن سرق وإن زنى؟ قال: نعم. قال: قلت: وإن سرق وإن زنى؟ قال: نعم وإن شرب الخمر".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک رات کو نکلا، کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے چل رہے تھے، آپ کے ساتھ کوئی آدمی نہیں تھا۔ میں نے سمجھا کہ شائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ کوئی چلے۔ میں نے چاند کے سائے میں چلنا شروع کر دیا۔ آپ میری طرف متوجہ ہوئے، مجھے دیکھا اور پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: میں ابوذر ہوں، اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! ادھر آؤ۔ میں آپ کے پاس گیا اور آپ کے ساتھ کچھ دیر چلتا رہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: قیامت والے روز کثیر مال و دولت والے اجر و ثواب میں کم ہوں گے، مگر جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے (صدقہ کرتے ہوئے) اسے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بکھیر دیا اور اس کے ذریعے نیک اعمال کیے۔ پھر میں آپ کے ساتھ چلتا رہا، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں بیٹھ جاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسی ہموار زمین میں بٹھایا، جس کے ارد گرد پتھر پڑے ہوئے تھے۔ پھر فرمایا: میرے واپس آنے تک یہاں بیٹھے رہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرہ (کالے پتھروں والی زمین) کی طرف چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کافی دیر تک ٹھہرے رہے۔ پھر میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہوئے آ رہے تھے: اگرچہ وہ چوری بھی کرے اور زنا بھی کرے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس پہنچے تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! مجھے اللہ تعالیٰ آپ پر قربان کرے! آپ حرہ زمین کے پاس کس سے گفتگو کر رہے تھے؟ پھر آپ کو کوئی جواب بھی نہیں دے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جبریل تھا، حرہ کے ساتھ ہی وہ مجھے ملا اور کہا: (اے محمد!) اپنی امت کو خوشخبری سنا دو کہ جو اس حال میں مرے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے کہا: جبریل! اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ میں نے کہا: جی ہاں۔ میں نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو؟۔ اس نے کہا: جی ہاں اور اگرچہ اس نے شراب بھی پی ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏أخرجه البخاري: 79/8 - نهضة، وفي ”الأدب المفرد“: 803، ومسلم: 76/3، و الترمذي: 269/3، وابن حبان فى ”صحيحه“: 170 - الاحسان، و أحمد: 1523/5» ‏‏‏‏

سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 39 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 39  
فوائد:
حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا: اگرچہ اس نے چوری بھی کی ہو اور زنا بھی کیا ہو۔ حدیث مبارکہ کا یہ جملہ انتہائی غور طلب ہے، کیونکہ عام لوگوں کو اس جملے سے گناہوں کا ارتکاب کرنے کی ہلہ شیری ملتی ہے۔ حقیقت حال یہ ہے اس جملے میں خوارج اور معتزلہ جیسے گمراہ فرقوں کا ردّ ہے، جن کا خیال ہے کہ کبیرہ گناہ کرنے والے ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے شرک نہ کرنے والے لوگوں کے زنا اور چوری جیسے جرائم معاف کر دیئے تو وہ براہِ راست جنت میں چلے جائیں گے اور اگر اس نے معاف نہ کیا تو جہنم میں ان گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے عارضی طور پر ٹھہریں گے، پھر اس کے بعد جنت میں پہنچیں گے۔ یہ مفہوم کئی دوسری احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کبیرہ گناہوں کی وجہ سے نہ ایمان کی نفی ہوتی ہے اور نہ ان کی وجہ سے نیکیاں ضائع ہوتی ہیں۔
   سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 39