سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
کیا توبہ کے بغیر مرنے والے مسلمانوں فاسق کی بخشش ممکن ہے؟
حدیث نمبر: 38
-" تعالوا بايعوني على أن لا تشركوا بالله شيئا، ولا تسرقوا، ولا تزنوا، ولا تقتلوا أولادكم، ولا تأتوا ببهتان تفترونه بين أيديكم وأرجلكم، ولا تعصوني في معروف، فمن وفى منكم فأجره على الله، ومن أصاب من ذلك شيئا فعوقب به في الدنيا فهو كفارة له، ومن أصاب من ذلك شيئا فستره الله فأمره إلى الله، إن شاء عاقبه، وإن شاء عفا عنه".
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آؤ اور اس بات پر میری بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے، کسی پر بہتان نہیں باندھو گے اور نیکی کے معاملے میں میری نافرمانی نہیں کرو گے۔ جس نے یہ بیعت پوری کی اس کا اجر اللہ پر ہے اور جس نے (کسی گناہ) کا ارتکاب کیا اور اسے اس کی سزا دے دی گئی تو وہ کفارہ بن جائے گی اور جس نے (کسی گناہ کا) ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے، چاہے تو سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 54/1، 176/7، 518/8، 69/12، 173/13، والسياق له فى رواية، ومسلم: 127/5، والترمذي: 1439، و النسائي: 182/2، ق 183، والدارمي: 220/2، وأحمد: 314/5، 340، وابن ماجه: 129/2»
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 38 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 38
فوائد:
یہ بیعت کا اصول ہے کہ لوگوں سے نیک اعمال سر انجام دینے اور برے اعمال سے اجتناب کرنے کی بیعت لی جائے۔ آجکل مخصوص شخصیات کو بیعت کے لیے خاص کر لیا گیا ہے اور جہاں اس کی بیعت کو ضروری سمجھا جاتا ہے وہاں دوسروں کو ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ ان بند گانِ خدا پر طعن و تشنیع اور سب و شتم کیا جاتا ہے جو اس قسم کی بیعت سے محروم رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ بے سرو پا اور بے حقیقت ہے۔
امام البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: اس حدیث مبارکہ میں خوارج کا ردّ ہے، جو کبیرہ گناہوں کی وجہ سے اہل توحید کو کافر قرار دیتے ہیں اور معتزلہ کا بھی ردّ ہے، جو توبہ کے بغیر مرنے والے فاسق مسلمان کے لیے سزا ضروری قرار دیتے ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ توحید پرست گنہگار کی تعذیب یا عدمِ تعذیب کا مسئلہ اللہ تعالی کی مشیت پر ہے، وہ چاہے تو سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالی ضرور سزا دے گا۔
اللہ تعالی کے اس فرمان کا بھی یہی مفہوم ہے:
«إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ» [سوره نساء: 116، 47]
”یقیناََ اللہ تعالی اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔“
اللہ تعالی نے شرک اور دوسرے گناہوں کے درمیان فرق کیا ہے، یعنی شرک نا قابل معافی ہے اور دوسرے گناہ اس کی مشیت کے تابع ہیں، وہ ان کو معاف بھی کر سکتا ہے اور ان پر گرفت بھی کر سکتا ہے۔
ضروری ہے کہ اس آیت اور حدیث کو اس شخص پر محمول کیا جائے جو گناہوں سے توبہ کیے بغیر مر جائے گا، کیونکہ جو آدمی زندگی میں شرک سے توبہ کر لیتا ہے، اسے بخش دیا جاتا ہے، دوسرے گناہوں سے تائب ہونے والے کو تو بالا ولی بخش دیا جائے گا۔ (بشر طیکہ اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کر لے)۔
میں اس استدلال کے ذریعے عصرِ حاضر کے ایسے لوگوں کا ردّ کرنا چاہتا ہوں جو کبھی تو کبیرہ گناہوں کی وجہ سے مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور کبھی یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ یہ گناہ توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوں گے اور اگر کوئی مسلمان کبیرہ گناہ کا ارتکاب کر کے توبہ کیے بغیر مر جائے گا، تو اسے ہر صورت میں سزا ہو گی۔
ان لوگوں نے کتاب و سنت کی مخالفت کرتے ہوئے شرک اور اس سے ادنی گناہوں کو اس اعتبار سے برابر قرار دیا ہے کہ دونوں کی وجہ سے عذاب ضروری ہے، میں نے مختلف اوقات اور مجالس میں دلائل کے ساتھ ان لوگوں کا ردّ کیا ہے، بعض نے تو متاثر ہو کر اس عقیدے سے توبہ کر لی اور بہترین سلفی نوجوانوں میں شامل ہو گئے، اللہ تعالی باقیوں کو ہدایت دے۔ [صحيحه: 2999]
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 38