سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
قریب المرگ لوگوں کو کلمہ شہادت پڑھنے کی تلقین کرنا
حدیث نمبر: 36
-" أكثروا من شهادة أن لا إله إلا الله، قبل أن يحال بينكم وبينها ولقنوها موتاكم".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کی گواہی کثرت سے دیتے رہا کرو، قبل اس کے کہ تمہارے اور اس کے مابین کوئی رکاوٹ حائل ہو جائے اور قریب المرگ لوگوں کو اس کی تلقین کیا کرو۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه أبو يعلى فى ”مسنده“: 6147/8/11، وابن عدي فى ”الكامل“: 2/204، عنه وعن غيره، وابن حمصة فى ”جزء البطاقة“: 1/69، والخطيب فى ”تاريخ بغداد“: 3/ 38، وابن عساكر فى ”تاريخ دمشق“: 2/207/17، و الحديث فى صحيح مسلم و غيره بلفظ: ولقنوا موتاكم لا اله الا الله»
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 36 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظہ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 36
فوائد:
امام البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس حدیث کے دوسرے حصے سے معلوم ہوا کہ قریب الموت آدمی کو کلمہ توحید کی تلقین کرنی چاہیے، تا کہ وہ اپنی زندگی کے اختتام پر یہ کلمہ کہہ کر کامیاب ہو سکے، اس حدیث میں «موتا كم» سے مراد قریب المرگ لوگ ہیں، کیونکہ زندہ آدمی کو ہی کلمہ پڑھنے کا مکلف ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ ایسے آدمی کو تلقین کا قائده هو اور وه «أَشْهَدُ لَا إِلَهَ إِلَّا الله» کہہ دے اور جنت کا مستحق ٹھہر جائے۔ رہا مسئلہ کسی میت کے پاس دوسرے لوگوں کا یہ کلمہ پڑھنے کا، تو یہ بدعت ہے، کسی حدیث میں اس کا ذکر نہیں اور اس کا میت کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ وہ دار التکلیف سے دار الجزا کی طرف منتقل ہو چکا ہوتا ہے۔
اس حدیث میں قریب الموت آدمی کو کلمہ شہادت کی تلقین کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور تلقین کی یہ صورت ہے کہ اسے حکم دیا جائے۔ یہ جو بعض کتب میں لکھا گیا ہے کہ میت کے پاس اس کلمے کا ورد کرنا چاہیے اور اسے حکم نہیں دینا چاہیے، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت ہے، میں [كتاب الجنائز: ص 10 - 11] میں اس کی وضاحت کر چکا ہوں۔ [صحيحه: 467]
امام البانی رحمہ اللہ نے [كتاب الجنائز: ص 10 - 11] میں کہا: تلقین کا معنی یہ نہیں ہے کہ قریب الموت آدمی کے پاس: کلمہ شہادت کا ذکر کیا جائے اور اس کو سنایا جائے، جیسا کہ بعض لوگوں کو یہ وہم ہوا ہے، تلقین کا معنی یہ ہے کہ اسے یہ کلمہ پڑھنے کا حکم دیا جائے، جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری آدمی کی تیماری داری کے لیے تشریف لے گئے اور فرمایا: «يَا خَالُ: قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» یعنی: ”اے ماموں جان! لا الہ اللہ کہو۔“ [مسند احمد: 152/3، 154، 268]
عام طور پر ہمارے ہاں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ قریب المرگ کو کلمہ شہادت پڑنے کا حکم نہ دیا جائے، بلکہ اس کے پاس پڑھا جائے، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ حکم کے جواب میں انکار کر دے۔ یہ عوام الناس کی ذہنی اختراع اور خود ساختہ سوچ ہے، یہ وہم و گمان کسی حدیث کا تقاضا نہیں ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ اگر ہم ایسے شخص کے پاس کلمہ پڑھنا شروع کر دیں تو وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ تم لوگوں نے کیا شور مچا رکھا ہے؟ چپ ہو جاؤ۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو ثابت قدم رکھتا ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کریں اور نرمی کے ساتھ قریب المرگ آدمی کو کلمۂ شہادت پڑھنے پر آمادہ کریں، تا کہ اس کی آخرت بہتر بن جائے۔
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 36