صحيح البخاري
كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
1. بَابُ الْجِزْيَةِ وَالْمُوَادَعَةِ مَعَ أَهْلِ الْحَرْبِ:
باب: جزیہ کا اور کافروں سے ایک مدت تک لڑائی نہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3160
فَقَالَ النُّعْمَانُ: رُبَّمَا أَشْهَدَكَ اللَّهُ مِثْلَهَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُنَدِّمْكَ وَلَمْ يُخْزِكَ وَلَكِنِّي شَهِدْتُ الْقِتَالَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ انْتَظَرَ حَتَّى تَهُبَّ الْأَرْوَاحُ وَتَحْضُرَ الصَّلَوَاتُ".
نعمان رضی اللہ عنہ نے کہا تم کو تو اللہ پاک ایسی کئی لڑائیوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رکھ چکا ہے۔ اور اس نے (لڑائی میں دیر کرنے پر) تم کو نہ شرمندہ کیا نہ ذلیل کیا اور میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑائی میں موجود تھا۔ آپ کا قاعدہ تھا اگر صبح سویرے لڑائی شروع نہ کرتے اور دن چڑھ جاتا تو اس وقت تک ٹھہرے رہتے کہ سورج ڈھل جائے، ہوائیں چلنے لگیں، نمازوں کا وقت آن پہنچے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3160 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3160
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ کہ لشکر اسلام حضرت عمرص کی خلافت میں ایران کی طرف چلا۔
جب قادسیہ میں پہنچا تو یزدگردبادشاہ ایران نے ایک فوج گراں اس کے مقابلے کے لیے روانہ کی۔
14ھ میں یہ جنگ واقع ہوئی، جس میں مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچا، طلیحہ اسدی اور عمروبن معدیکرب اور ضرار بن خطاب جیسے اسلامی بہادر شہید ہوگئے۔
بعدمیں اللہ پاک نے کافروں پر ایک تیز آندھی بھیجی۔
ان کے ڈیرے خیمے سب اکھڑ گئے، ادھر سے مسلمانوں نے حملہ کیا، وہ بھاگے، ان کا نامی گرامی پہلوان رستم ثانی مارا گیا اور مسلمانی فوج تعاقب کرتی ہوئی مدائن پہنچی، وہاں کا رئیس ہرمزان محصور ہوگیا، آخر اس نے امان چاہی اور خوشی سے مسلمان ہوگیا۔
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جو فوج کے سردار تھے، انہوں نے ان کو حضرت عمرص کے پاس بھیج دیا۔
حضرت عمرؓنے اس کی عزت افزائی فرمائی، اسے عقلمند اور صاحب تدبیر پاکر اس کو مشیر خاص بنایا، چنانچہ ہرمزان نے کسریٰ کے بارے میں صحیح مشورہ دیا۔
ہرچند وہ روم کا بادشاہ تھا مگر اس زمانے میں کسریٰ کا مرتبہ سب بادشاہوں سے زیادہ تھا، اس کا تباہ ہونا ایران اور روم دونوں کے زوال کا سبب بنا، کسریٰ کی فوج کا سردار ذوالجناحین نامی سردار تھا، جو خچر سے گرا اور اس کا پیٹ پھٹ گیا۔
سخت جنگ کے بعد کافروں کو ہزیمت ہوئی، مزید تفصیل آگے آئے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3160
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3160
حدیث حاشیہ:
1۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر ؓکے دورحکومت میں لشکر اسلام ایران کی طرف چلا۔
جب قادسیہ پہنچاتو شاہ ایران یزدگرد نے ایک زبردست فوج مسلمانوں کے مقابلے کے لیے روانہ کی جس سے مسلمانوں کو کافی نقصان پہنچا۔
طلیحہ اسدی، عمرو بن معد یکرب اور ضرار بن خطاب جیسے اسلامی بہادر اس جنگ میں شہید ہوگئے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک تیز آندھی بھیجی جس نے کافروں کے خیمے اکھاڑدیے۔
ادھر سے مسلمانوں نے حملہ کردیا۔
وہ بھاگے اور اس بھگدڑ میں ان کا نامی گرامی پہلوان رستم ثانی ماراگیا۔
مجاہدین ان کاتعاقب کرتے ہوئے مدائن پہنچے۔
وہاں کارئیس ہرمزان قلعہ بند ہوگیا۔
آخر اس نے امان طلب کی اور خوشی سے مسلمان ہوگیا۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ جو اسلامی فوج کے سربراہ تھے انھوں نے ہرمزان کو حضرت عمر ؓ کے پاس بھیج دیا۔
حضرت عمر ؓ نے اس کی عزت افزائی کی۔
اسے صاحب فراست اور عقلمند پایا تو اسے اپنا مشیر خاص بنالیا، چنانچہ ہرمزان نےکسریٰ کے متعلق صحیح مشورہ دیا جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے۔
(عمدة القاري: 508/10)
2۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دشمن کی فوج کو دیکھا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ لوہے کی زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں تاکہ بھاگ نہ سکیں تو انھوں نے ان پر جلدی حملہ کرنا چاہا تاکہ انھیں تیاری کا موقع نہ مل سکے۔
حضرت نعمان ؓ نے فرمایا:
واقعی آپ بہت خوبیوں کے مالک ہیں لیکن میں توجلد بازی سے کام نہیں لوں گا بلکہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت کی اتباع کروں گا اور ہواؤں کے چلنے پر زوال آفتاب کا انتظار کروں گا تاکہ اس اتباع کے سبب ہمیں کامیابی نصیب ہو۔
3۔
اس حدیث میں جزیے کا ذکر ہے اور اس طرح حضرت نعمان بن مقرن ؓ نے دشمن پر حملے میں تاخیر کی حتی کہ نصرت کی ہوائیں چلنے اور زوال آفتاب کا انتظار کیا۔
یہ تاخیر موادعت ہے کیونکہ اس میں صلح کا امکان تھا۔
4۔
اس حدیث سے باہمی مشاورت کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے، نیز معلوم ہوا کہ مرتبے میں بڑا آدمی اپنے سے کمتر کا مشورہ لے سکتا ہے۔
(عمدة القاري: 508/10)
5۔
غیر مسلموں پر جزیہ عائد کرنے کی حکمت یہ ہے کہ اس سے انھیں غوروفکر کرنے کا موقع ملے گا اور جزیے کی ذلت انھیں اسلام قبول کرنے پر آمادہ کرے گی، نیز اہل اسلام کے ساتھ ملنے جلنے سے انھیں اسلام کی خوبیوں کا تجربہ ہوگا۔
(فتح الباري: 311/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3160