سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر
ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان
اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور وسیع بادشاہت
حدیث نمبر: 1
- (يأخذُ اللهُ- عزَ وجل- سماواتِه وأرَضيِه بيديهِ، فيقولُ: أنا اللهُ- ويقبضُ أصابعَه ويبسطُها- أنا الملِكُ، [وتمايلَ رسولُ الله - صلى الله عليه وسلم - عن يمينه وعن شماله] حتى نظرتُ إلى المنبرِ يتحركُ من أسفلِ شيءٍ منه، حتّى إني لأقولُ: أساقطٌ هو برسولِ الله - صلى الله عليه وسلم -؟).
عبیداللہ بن مقسم کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل اتار رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لے گا اور کہے گا: میں اللہ ہوں، پھر انگلیوں کو کھولے گا اور بند کرے گا اور کہے گا: میں بادشاہ ہوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں جھومنے لگ گئے، حتی کہ میں نے دیکھا کہ منبر بھی ہچکولے کھانے لگ گیا اور مجھے یہ وہم ہونے لگا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرا ہی نہ دے۔“
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم: 126/8، وابن خزيمة فى ”التوحيد“: 49، والبيهقي فى ”الأسماء والصفات“: 339، وابن ماجه: 198، 4275»
سلسلہ احادیث صحیحہ کی حدیث نمبر 1 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد محفوظ حفظ الله، فوائد و مسائل، صحیحہ 1
فوائد:
اس حدیث کے مضمون کی مزید وضاحت ملاحظہ فرمائیں:
ارشاد باری تعالی ہے:
«وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَالسَّموتُ مَطويات بِيَهِينِهِ سُبْحَنَهُ وَتَعَلَى عَمَّا يُشْرِكُونَ» [سوره زمر: 67]
یعنی: ”اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ تعالی کی کرنی چاہیے تھی، اس طرح نہیں کی، حالانکہ ساری زمین قیامت کے دن اللہ تعالی کی مٹھی میں ہو گی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے، وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں۔“
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی عالم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: ہم اللہ تعالی کی بابت (اپنے مذہبی ادب میں) یہ بات پاتے ہیں کہ وہ روزِ قیامت آسمانوں کو ایک انگلی پر، زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی اور تری کو ایک انگلی پر اور تمام دوسری مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور فرمائے گا: میں بادشاہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تصدیق کرتے ہوئے مسکرا پڑے، حتی کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت «وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدره» (جو اوپر مذکور ہے) تلاوت کی۔ [بخاري: 4811] سیدنا ابو هریره رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق اللہ تعالی اس وقت کہے گا: «انا الملك، اين ملوك الارض» یعنی: ”میں بادشاہ ہوں، زمین والے بادشاہ کہاں ہیں۔“ [بخاري: 4812]
یہ اللہ تعالی کی طاقت و قدرت اور عظمت و جلالت کا ایک انداز ہے۔
سلف صالحین کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اللہ تعالی کی جن صفات کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان پر بلا کیف و تشبیہ اور بغیر تاویل و تحریف کے ایمان رکھنا ضرور کی ہے۔ مثلا درج بالا آیت و احادیث میں اللہ تعالی کے دو ہاتھوں، انگلیوں، انگلیوں کو کھولنے اور بند کرنے اور کلام کرنے کا ذکر ہے، یہ اللہ تعالی کی حقیقی صفات ہیں، جیسے اس کے شان و جلال کے لائق ہیں۔
بندوں کو یہی زیب دیتا ہے کہ ایسے قدیر و مقتدر بادشاہ کی الوہیت و ربوبیت کو تسلیم کر کے اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں اور اس کی ذات اور اس کی ہر صفت میں اس کو یکتا و یگانہ اور لاثانی و بے مثال سمجھیں اور اس کے ہر حکم کو برحق تسلیم کر کے اس پر عمل کرنے کے تقاضے پورے کریں، اسی کو توحید کہتے ہیں، جس کے فروغ کے لیے کائنات کا وسیع و عریض نظام تشکیل دیا گیا۔
سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 1