شمائل ترمذي
بَابُ مَا جَاءَ فِي صَوْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رسول+اللہ صلی+اللہ+علیہ+وسلم کے روزوں کا بیان
ابتداء میں عاشورہ کا روزہ فرض تھا
حدیث نمبر: 308
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ عَاشُورَاءُ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا افْتُرِضَ رَمَضَانُ كَانَ رَمَضَانُ هُوَ الْفَرِيضَةُ وَتُرِكَ عَاشُورَاءُ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ»
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں کہ قریش جاہلیت میں عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے تھے اور اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھا کرتے تھے، پھر جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے اس دن میں خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا، پھر جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو صرف رمضان کے روزے بطور فرض رہ گئے اور عاشوراء کا روزہ چھوڑ دیا گیا، جس نے چاہا اس دن کا روزہ رکھ لیا اور جس نے چاہا اسے چھوڑ دیا۔
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» :
«(سنن ترمذي: 753، وقال: وهو حديث صحيح)، صحيح بخاري (2002)، وصحيح مسلم (1125)»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح