صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
19. بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي الْمُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَيْرَهُمْ مِنَ الْخُمُسِ وَنَحْوِهِ:
باب: تالیف قلوب کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض کافروں وغیرہ نو مسلموں یا پرانے مسلمانوں کو خمس میں سے دینا۔
حدیث نمبر: 3145
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمًا وَمَنَعَ آخَرِينَ فَكَأَنَّهُمْ عَتَبُوا عَلَيْهِ، فَقَالَ:" إِنِّي أُعْطِي قَوْمًا أَخَافُ ظَلَعَهُمْ وَجَزَعَهُمْ وَأَكِلُ أَقْوَامًا إِلَى مَا جَعَلَ اللَّهُ فِي قُلُوبِهِمْ مِنَ الْخَيْرِ وَالْغِنَى مِنْهُمْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ، فَقَالَ: عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِكَلِمَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُمْرَ النَّعَمِ، وَزَادَ أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِمَالٍ أَوْ بِسَبْيٍ فَقَسَمَهُ بِهَذَا".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، کہا ہم سے حسن بصریٰ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ لوگوں کو نہیں دیا۔ غالباً جن لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا تھا، ان کو ناگوار ہوا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کچھ ایسے لوگوں کو دیتا ہوں کہ مجھے جن کے بگڑ جانے (اسلام سے پھر جانے) اور بے صبری کا ڈر ہے۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن پر میں بھروسہ کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں بھلائی اور بے نیازی رکھی ہے (ان کو میں نہیں دیتا) عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ بھی انہیں میں شامل ہیں۔ عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری نسبت یہ جو کلمہ فرمایا اگر اس کے بدلے سرخ اونٹ ملتے تو بھی میں اتنا خوش نہ ہوتا۔ ابوعاصم نے جریر سے بیان کیا کہ میں نے حسن بصریٰ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ ہم سے عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال یا قیدی آئے تھے اور انہیں کو آپ نے تقسیم فرمایا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3145 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3145
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابقت یہ کہ آنحضرت ﷺ نے اموال غنیمت کو اپنی صواب دید کے مطابق تقسیم فرمایا، جس میں اہم ترین اسلامی مصالح شامل تھے، اعتراض کرنے والوں کو بھی آپ نے احسن طریق سے مطمئن فرمادیا۔
ثابت ہوا کہ ایسے مواقع پر خلیفہ اسلام کو کچھ خصوصی اختیارات دئیے گئے ہیں، مگر ان کا فرض ہے کہ کوئی ذاتی غرض فاسد بیچ میں شامل نہ ہو، محض رضائے خدا و رسول و سربلندی اسلام مدنظر ہو، روایت میں مذکور حضرت عمرو بن تغلبص عبدی ہیں۔
قبیلہ عبدالقیس سے ان کا تعلق ہے، مشہور انصاری صحابی ہیں۔
رضي اللہ عنه
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3145
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3145
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت عمرو بن تغلبؓ عہدی قبیلہ عبدالقیس سے ان کا تعلق ہے چونکہ یہ کامل الایمان تھے اس لیے رسول اللہ ﷺکے حوصلہ افزا بیان سے خوش ہو گئے۔
2۔
اس روایت کے مطابق رسول اللﷺ نے مال غنیمت کو اپنی صوابدید خرچ کیا جس میں اہم ترین مصالح تھیں۔
اعتراض کرنے والوں کو بھی آپ نے اچھے انداز سے مطمئن کردیا بلاشبہ ایسے مواقع پر خلیفہ اسلام کو کچھ خصوصی اختیارات حاصل ہوتے ہیں اس کے باوجود ان کا فرض ہے کہ ایسے مواقع پر محض اللہ کی رضا اور اسلام کی سر بلندی مقصود ہو۔
ذاتی اغراض کو اس میں کوئی دخل نہ ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3145
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 923
923. حضرت عمرو بن تغلب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ مال یا کوئی اور چیز لائی گئی جسے آپ نے تقسیم فر دیا لیکن آپ نے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہ دیا۔ پھر آپ کو اطلاع ملی کہ جن کو آپ نے نہیں دیا وہ ناخوش ہیں۔ آپ نے اللہ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا: ”أما بعد! اللہ کی قسم! میں کسی کو دیتا ہوں اور کسی کو نہیں دیتا لیکن جسے چھوڑ دیتا ہوں وہ میرے نزدیک اس شخص سے زیادہ عزیز ہوتا ہے جسے دیتا ہوں، نیز کچھ لوگوں کو اس لیے دیتاہوں کہ ان میں بے صبری اور بوکھلاہٹ دیکھتا ہوں اور کچھ کو ان کی سیرچشمی اور بھلائی کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہوں جو اللہ نے ان کے دلوں میں پیدا کی ہے۔ عمرو بن تغلب بھی انہی میں سے ہے۔“ ان کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں یہ نہیں چاہتا کہ رسول اللہ ﷺ کے اس کلمے کے عوض مجھے سرخ اونٹ ملیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:923]
حدیث حاشیہ:
سبحان اللہ صحابہ کے نزدیک آنحضرت ﷺ کا ایک حکم فرمانا، جس سے آپ کی رضامندی ہو، ساری دنیا کا مال ودولت ملنے سے زیادہ پسند تھا، اس حدیث سے آنحضرت ﷺ کا کمال خلق ثابت ہوا کہ آپ کسی کی ناراضگی پسند نہیں فرماتے تھے نہ کسی کی دل شکنی۔
آپ ﷺ نے ایسا خطبہ سنایا کہ جن لوگوں کو نہیں دیا تھا وہ ان سے بھی زیادہ خوش ہوئے جن کو دیا تھا (وحیدی)
آپ ﷺ نے یہاں بھی لفظ أما بعد! استعمال فرمایا۔
یہی مقصود باب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 923
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:923
923. حضرت عمرو بن تغلب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ مال یا کوئی اور چیز لائی گئی جسے آپ نے تقسیم فر دیا لیکن آپ نے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہ دیا۔ پھر آپ کو اطلاع ملی کہ جن کو آپ نے نہیں دیا وہ ناخوش ہیں۔ آپ نے اللہ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا: ”أما بعد! اللہ کی قسم! میں کسی کو دیتا ہوں اور کسی کو نہیں دیتا لیکن جسے چھوڑ دیتا ہوں وہ میرے نزدیک اس شخص سے زیادہ عزیز ہوتا ہے جسے دیتا ہوں، نیز کچھ لوگوں کو اس لیے دیتاہوں کہ ان میں بے صبری اور بوکھلاہٹ دیکھتا ہوں اور کچھ کو ان کی سیرچشمی اور بھلائی کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہوں جو اللہ نے ان کے دلوں میں پیدا کی ہے۔ عمرو بن تغلب بھی انہی میں سے ہے۔“ ان کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں یہ نہیں چاہتا کہ رسول اللہ ﷺ کے اس کلمے کے عوض مجھے سرخ اونٹ ملیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:923]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے خلق عظیم کا پتہ چلتا ہے کہ آپ کو نہ تو کسی کی ناراضی گوارا تھی اور نہ آپ کسی کی دل شکنی ہی کرتے تھے، نیز صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی آپ سے دلی محبت اور قلبی تعلق تھا۔
اس حدیث کی مکمل وضاحت کتاب فرض الخمس میں آئے گی۔
بإذن اللہ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 923
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7535
7535. سیدنا عمرو بن تغلب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اس میں سے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہ دیا۔ اس کے بعد آپ کو معلوم ہوا کہ اس تقسیم پر کچھ لوگ ناراض ہوئے ہیں تو آپ نےفرمایا: ”میں ایک شخص کو دیتا ہوں اور دوسرے کو چھوڑ دیتا ہوں اور جسے میں نہیں دیتا وہ مجھے اس سے زیادہ پیارا ہوتا ہے جسے دیتا ہوں۔ جن لوگوں کو دیتا ہوں وہ اس لیے کہ ان کے دلوں میں گھبراہٹ اور بے چینی ہوتی ہے، جبکہ دوسرے لوگوں پر اعتماد کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو بے نیازی اور بھلائی عطا فرمائی ہے۔ ان میں عمرو بن تغلب بھی ہیں۔“ (یہ سن کر) سیدنا عمرو بن تغلب ؓ نے کہا: رسول اللہﷺ کے کلمہ تحسین کے مقابلے میں مجھے سرخ اونٹ بھی ملتے تو میں انہیں ہرگز پسند نہ کرتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7535]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس عنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے، اس کی صفات واخلاق اور کردار کا بھی پیدا کرنے والا ہے۔
جب وہ صفات واخلاق کا خالق ہے تو اس کے افعال واعمال کا بھی وہی خالق ہوگا۔
قراءت جو قاری کا عمل ہے وہ اللہ تعالیٰ کا تخلیق کیا ہوا ہے جبکہ معتزلہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے اعمال کا خود خالق ہے۔
اس اعتبار سے یہ حضرات اللہ (وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ)
کے ساتھ شریک کے مرتکب ہوتے ہیں۔
2۔
پیش کی گئی آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مال کی کثرت سے انسان کی طبیعت میں فیاضی پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کے بخل میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
اس کی بے ثباتی، بے قراری اور گھبراہٹ کو ختم کرنے کا فطری طریقہ بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے، چنانچہ اگلی آٹھ آیات میں ایسے اعمال کا ذکر ہے جن سے اس کی اصلاح ہوجاتی ہے اور اہل ایمان کی طبیعت میں اطمینان وسکون اور ٹھراؤ پیدا ہو جاتا ہے۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7535