شمائل ترمذي
بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِزَاحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رسول+اللہ صلی+اللہ+علیہ+وسلم کے مزاح ( خوش طبعی اور دل لگی ) کا طریقہ
اے عمیر کہاں گئی تیری نغیر
حدیث نمبر: 235
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُخَالِطُنَا حَتَّى يَقُولَ لِأَخٍ لِي صَغِيرٍ: «يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ؟» قَالَ أَبُو عِيسَى:" وَفِقْهُ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُمَازِحُ وَفِيهِ أَنَّهُ كَنَّى غُلَامًا صَغِيرًا فَقَالَ لَهُ: يَا أَبَا عُمَيْرٍ. وَفِيهِ أَنَّهُ لَا بَأْسَ أَنْ يُعْطَى الصَّبِيُّ الطَّيْرَ لِيَلْعَبَ بِهِ. وَإِنَّمَا قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ؟» لِأَنَّهُ كَانَ لَهُ نُغَيْرٌ يَلْعَبُ بِهِ فَمَاتَ، فَحَزِنَ الْغُلَامُ عَلَيْهِ فَمَازَحَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ؟»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بلاشبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اتنے مل جل جاتے تھے کہ ایک مرتبہ میرے چھوٹے بھائی کو کہا: اے عمیر کے باپ! تمہارا نغیر کیسا ہے۔ امام ابوعیسیٰ (ترمذی) فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مزاح بھی فرما لیا کرتے تھے، اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کی کنیت ابوعمیر رکھی، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اس میں کوئی امر مانع نہیں کہ بچے کو پرندہ دیا جائے کہ وہ اس سے کھیلے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: «يا ابا عمير ما فعل النغير» اس سے مراد یہ ہے کہ اس بچے کے پاس ایک نغیر تھی جس سے وہ کھیلتا تھا وہ نغیر مر گئی تو اس بچے کو افسوس ہوا، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دل لگی اور خوش طبعی کرتے ہوئے فرمایا: «يا ابا عمير ما فعل النغير» ۔
تخریج الحدیث: «سنده صحيح» :
«(سنن ترمذي 333، 1989، وقال: حسن صحيح)، صحيح بخاري (6129)»
قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح