شمائل ترمذي
بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
رسول+اللہ صلی+اللہ+علیہ+وسلم کے ہنسنے کا بیان
سب سے آخر میں جنت میں جانے والا کون ہے؟
حدیث نمبر: 231
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ السَّلْمَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَأَعْرفُ آخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا، رَجُلٌ يَخْرُجُ مِنْهَا زَحْفًا، فَيُقَالُ لَهُ: انْطَلِقْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ" قَالَ:" فَيَذْهَبُ لِيَدْخُلَ الْجَنَّةَ، فَيَجِدُ النَّاسَ قَدْ أَخَذُوا الْمَنَازِلَ، فَيَرْجِعُ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، قَدْ أَخَذَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ، فَيُقَالُ لَهُ: أَتَذْكُرُ الزَّمَانَ الَّذِي كُنْتَ فِيهِ، فَيَقُولُ: نَعَمْ" قَالَ:" فَيُقَالُ لَهُ: تَمَنَّ" قَالَ:" فَيَتَمَنَّى، فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ الَّذِي تَمَنَّيْتَ وَعَشَرَةَ أَضْعَافِ الدُّنْيَا " قَالَ:" فَيَقُولُ: تَسْخَرُ بِي وَأَنْتَ الْمَلِكُ" قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: ”یقیناً میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا، وہ ایسا آدمی ہو گا جو سرینوں کے بل گھسیٹتا ہوا دوزخ سے نکلے گا، اس کو حکم ہو گا کہ جاؤ جنت میں چلے جاؤ۔“ کہتے ہیں کہ ”وہ شخص جنت میں داخل ہونے کے لئے جائے گا تو وہ دیکھے گا کہ جنت میں سب لوگوں نے اپنے اپنے ٹھکانوں پر رہائش اختیار کی ہوئی ہے۔ وہ شخص لوٹ کر آئے گا اور کہے گا: اے پروردگار! وہاں تو سب لوگوں نے اپنی اپنی جگہ پر قبضہ کر رکھا ہے۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ کیا تو دنیا کے اس زمانے کو یاد کرتا ہے جس زمانے میں تو وہاں تھا (کہ دنیا کتنی بڑی تھی)؟ وہ عرض کرے گا: ہاں پروردگار! مجھے وہ وقت یاد ہے۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ کوئی آرزو کرو، پس وہ آرزو کرے گا۔ پھر اس سے کہا جائے کہ تمہیں تمھاری آرزو کے مطابق بھی دیا اور پوری دنیا سے دس گناہ زیادہ بھی عطا کیا۔ وہ عرض کرے گا کہ پروردگار! کیا آپ میرے ساتھ دل لگی کرتے ہیں حالانکہ آپ بادشاہوں کے بادشاہ ہیں۔“ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کی یہ بات بیان فرما رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقعہ پر ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک دکھائی دنیے لگے۔
تخریج الحدیث: «صحيح» :
«(سنن ترمذي: 2595 وقال: حسن صحيح)، صحيح بخاري (6571)، صحيح مسلم (186)»
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح