Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
15. بَابُ وَمِنَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْخُمُسَ لِنَوَائِبِ الْمُسْلِمِينَ مَا سَأَلَ هَوَازِنُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَضَاعِهِ فِيهِمْ فَتَحَلَّلَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ:
باب: اس بات کی دلیل کہ پانچواں حصہ مسلمانوں کی ضرورتوں کے لیے ہے وہ واقعہ ہے کہ ہوازن کی قوم نے اپنے دودھ ناطے کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی، ان کے مال قیدی واپس ہوں تو آپ نے لوگوں سے معاف کرایا کہ اپنا حق چھوڑ دو۔
حدیث نمبر: 3134
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَعَثَ سَرِيَّةً فِيهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ قِبَلَ نَجْدٍ فَغَنِمُوا إِبِلًا كَثِيرًا فَكَانَتْ سِهَامُهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا، أَوْ أَحَدَ عَشَرَ بَعِيرًا، وَنُفِّلُوا بَعِيرًا بَعِيرًا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں نافع نے اور انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک لشکر روانہ کیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی لشکر کے ساتھ تھے۔ غنیمت کے طور پر اونٹوں کی ایک بڑی تعداد اس لشکر کو ملی۔ اس لیے اس کے ہر سپاہی کو حصہ میں بھی بارہ بارہ گیارہ گیارہ اونٹ ملے تھے اور ایک ایک اونٹ اور انعام میں ملا۔

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3134 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3134  
حدیث حاشیہ:
اور ظاہر ہے کہ لشکر کے سردار نے یہ انعام خمس میں سے دیا ہوگا۔
گویہ فعل لشکر کے سردار کا تھا مگر آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ہوا‘ آپ ﷺ نے سنا ہوگا اور اس پر سکوت فرمایا تو حجت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3134   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 566  
´مال غنیمت کا بیان`
«. . . 213- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث سرية فيها عبد الله بن عمر قبل نجد، فغنموا إبلا كثيرة، فكانت سهمانهم اثني عشر بعيرا أو أحد عشر بعيرا ونفلوا بعيرا بعيرا. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف (مجاہدین کا) ایک دستہ روانہ کیا جس میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ پھر انہیں مال غنیمت میں بہت سے اونٹ ملے تو ہر آدمی کے حصے میں بارہ بارہ یا گیارہ گیارہ اونٹ آئے پھر ہر ایک کو ایک ایک اونٹ زائد دیا گیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 566]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 3134، ومسلم 35/1749، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اگر امیر المؤمنین یا ان کا مامور خُمس نکالنے کے بعد مالِ غنیمت یا اس میں سے کچھ اپنے لشکر میں تقسیم کردے تو لشکر والوں کے لئے یہ حلال ہے۔
➋ اگر کفار کی طرف سے حملے کا خطرہ ہو تو خلیفہ کے حکم سے جہادِ تقدیم کے طور پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔
➌ کفار سے حالت جنگ میں جو مال ملے اسے مال غنیمت کہتے ہیں۔
➍ سعید بن المسیب رحمہ اللہ فرماتے تھے: لوگ جب میدانِ جہاد میں مالِ غنیمت کی تقسیم کرتے تو ایک اونٹ دس بکریوں کے برابر قرار دیتے تھے۔ [الموطأ 2/450 ح1001، وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 213   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4559  
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ نجد کی طرف روانہ کیا، ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بھی ان میں شریک تھے، اور ان کے حصے میں بارہ بارہ اونٹ آئے اور اس کے علاوہ بطور انعام ایک اونٹ ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں کوئی تبدیلی نہ فرمائی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4559]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے اگر بڑے لشکر سے الگ کر کے کوئی دستہ کسی مہم پر روانہ کیا جائے اور وہ دستہ کامیاب ہو کر غنیمت کا مال حاصل کر لے تو وہ تمام لشکر کا شمار ہو گا کیونکہ وہ دستہ کی پشت پر تھا اور دشمن پر اس کا بھی رعب و دبدبہ تھا،
لیکن اس دستہ کو اس غنیمت میں کچھ زائد حصہ ان کی حوصلہ افزائی کے لیے دیا جائے گا،
اس لیے امیر دستہ نے جو ہر آدمی کو ایک اونٹ دیا تھا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی اعتراض نہیں فرمایا،
اس لیے حدیث تقریری کے طور پر اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا،
لیکن اس مسئلہ میں اختلاف ہے وہ زائد حصہ اصل غنیمت میں سے دیا جائے گا یا مجاہدین کے چار حصوں سے یا خمس کے پانچواں حصہ میں سے،
شوافع کا راجح مسلک یہ ہے کہ وہ خمس کے خمس سے دیا جائے گا اور احناف کا موقف یہ ہے کہ اگر امیر نے انعام کا اعلان غنیمت کے حصول سے پہلے کیا ہے تو وہ مجاہدوں کے چار حصوں سے دیا جائے گا اور اگر پہلے اعلان نہیں کیا تو پھر خمس سے دیا جائے گا،
امام مالک کے نزدیک خمس سے دیا جائے گا اور امام احمد کے نزدیک اصل غنیمت سے،
حسن بصری،
اوزاعی اور ابو ثور کا بھی یہی نظریہ ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4559   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4338  
4338. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے نجد کی طرف ایک لشکر روانہ کیا۔ میں بھی اس میں شریک تھا۔ ہمارے حصے میں بارہ بارہ اونٹ آئے اور ایک ایک اونٹ بطور انعام ملا، اس طرح ہم تیرہ، تیرہ اونٹ لے کر واپس لوٹے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4338]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس غزوے کو طائف کے بعد ذکر کیا ہے جبکہ دیگر اہل مغازی کا موقف ہے کہ یہ لشکر فتح مکہ کو جانے سے پہلے آپ نے روانہ کیا تھا۔
اس کے سالار حضرت ابوقتادہ ؓ تھے۔
اس میں صرف پچیس آدمی تھے جنھوں نے غطفان کے مقابلے میں دوسواونٹ اور دوہزاربکریاں حاصل کیں۔
(فتح الباري: 70/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4338