Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
15. بَابُ وَمِنَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْخُمُسَ لِنَوَائِبِ الْمُسْلِمِينَ مَا سَأَلَ هَوَازِنُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَضَاعِهِ فِيهِمْ فَتَحَلَّلَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ:
باب: اس بات کی دلیل کہ پانچواں حصہ مسلمانوں کی ضرورتوں کے لیے ہے وہ واقعہ ہے کہ ہوازن کی قوم نے اپنے دودھ ناطے کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی، ان کے مال قیدی واپس ہوں تو آپ نے لوگوں سے معاف کرایا کہ اپنا حق چھوڑ دو۔
حدیث نمبر: 3133
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي وَأَنَا لِحَدِيثِ الْقَاسِمِ أَحْفَظُ، الْقَاسِمُ بْنُ عَاصِمٍ الْكُلَيْبِيُّ عَنْ زَهْدَمٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي مُوسَى فَأُتِيَ ذَكَرَ دَجَاجَةً وَعِنْدَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَيْمِ اللَّهِ أَحْمَرُ كَأَنَّهُ مِنَ الْمَوَالِي فَدَعَاهُ لِلطَّعَامِ، فَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُهُ يَأْكُلُ شَيْئًا فَقَذِرْتُهُ فَحَلَفْتُ لَا آكُلُ، فَقَالَ: هَلُمَّ فَلْأُحَدِّثْكُمْ عَنْ ذَاكَ إِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ:" وَاللَّهِ لَا أَحْمِلُكُمْ وَمَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ، وَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَهْبِ إِبِلٍ فَسَأَلَ عَنَّا، فَقَالَ:" أَيْنَ النَّفَرُ الْأَشْعَرِيُّونَ فَأَمَرَ لَنَا بِخَمْسِ ذَوْدٍ غُرِّ الذُّرَى فَلَمَّا انْطَلَقْنَا قُلْنَا مَا صَنَعْنَا لَا يُبَارَكُ لَنَا فَرَجَعْنَا إِلَيْهِ، فَقُلْنَا: إِنَّا سَأَلْنَاكَ أَنْ تَحْمِلَنَا فَحَلَفْتَ أَنْ لَا تَحْمِلَنَا أَفَنَسِيتَ، قَالَ: لَسْتُ أَنَا حَمَلْتُكُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَمَلَكُمْ، وَإِنِّي وَاللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ فَأَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَتَحَلَّلْتُهَا".
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے کہا کہ ہم سے حماد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا ‘ ان سے ابوقلابہ نے بیان کیا اور (ایوب نے ایک دوسری سند کے ساتھ اس طرح روایت کی ہے کہ) مجھ سے قاسم بن عاصم کلیبی نے بیان کیا اور کہا کہ قاسم کی حدیث (ابوقلابہ کی حدیث کی بہ نسبت) مجھے زیادہ اچھی طرح یاد ہے ‘ زہدم سے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ہم ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی مجلس میں حاضر تھے (کھانا لایا گیا اور) وہاں مرغی کا ذکر ہونے لگا۔ بنی تمیم اللہ کے ایک آدمی سرخ رنگ والے وہاں موجود تھے۔ غالباً موالی میں سے تھے۔ انہیں بھی ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کھانے پر بلایا ‘ وہ کہنے لگے کہ میں نے مرغی کو گندی چیزیں کھاتے ایک مرتبہ دیکھا تھا تو مجھے بڑی نفرت ہوئی اور میں نے قسم کھا لی کہ اب کبھی مرغی کا گوشت نہ کھاؤں گا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قریب آ جاؤ (تمہاری قسم پر) میں تم سے ایک حدیث اسی سلسلے کی بیان کرتا ہوں ‘ قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ساتھ لے کر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (غزوہ تبوک کے لیے) حاضر ہوا اور سواری کی درخواست کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم! میں تمہارے لیے سواری کا انتظام نہیں کر سکتا ‘ کیونکہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تمہاری سواری کے کام آ سکے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غنیمت کے کچھ اونٹ آئے ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے متعلق دریافت فرمایا ‘ اور فرمایا کہ قبیلہ اشعر کے لوگ کہاں ہیں؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ اونٹ ہمیں دیئے جانے کا حکم صادر فرمایا ‘ خوب موٹے تازے اور فربہ۔ جب ہم چلنے لگے تو ہم نے آپس میں کہا کہ جو نامناسب طریقہ ہم نے اختیار کیا اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عطیہ میں ہمارے لیے کوئی برکت نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ہم پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم نے پہلے جب آپ سے درخواست کی تھی تو آپ نے قسم کھا کر فرمایا تھا کہ میں تمہاری سواری کا انتظام نہیں کر سکوں گا۔ شاید آپ کو وہ قسم یاد نہ رہی ہو ‘ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہاری سواری کا انتظام واقعی نہیں کیا ‘ وہ اللہ تعالیٰ ہے جس نے تمہیں یہ سواریاں دے دی ہیں۔ اللہ کی قسم! تم اس پر یقین رکھو کہ ان شاءاللہ جب بھی میں کوئی قسم کھاؤں ‘ پھر مجھ پر یہ بات ظاہر ہو جائے کہ بہتر اور مناسب طرز عمل اس کے سوا میں ہے تو میں وہی کروں گا جس میں اچھائی ہو گی اور قسم کا کفارہ دے دوں گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3133 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3133  
حدیث حاشیہ:
ابو موسیٰ کا یہ مطلب تھا کہ تو نے بھی جو قسم کھالی ہے کہ مرغی نہ کھاؤں گا یہ قسم اچھی نہیں ہے کہ مرغی حلال جانور ہے۔
فراغت سے کھا اور قسم کا کفارہ ادا کردے‘ باب کی مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعریوں کو اپنے حصہ یعنی خمس میں سے یہ اونٹ دیئے۔
ابوموسیٰ اوران کے ساتھیوں نے یہ خیال کیا کہ شاید آنحضرت ﷺ کو وہ قسم یاد نہ رہی ہو کہ میں تم کو سواریاں نہیں دینے کا اور ہم نے آپ کو یاد نہیں دلایا‘ گویا فریب سے ہم یہ اونٹ لے آئے‘ ایسے کا م میں بھلائی کیوں کر ہوسکتی ہے۔
اسی صفائی کے لئے انہوں نے مراجعت کی جس سے معاملہ صاف ہوگیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3133   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3133  
حدیث حاشیہ:

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کا مطلب تھا کہ مرغی نہ کھانے کی قسم اٹھانا اچھا نہیں کیونکہ مرغی حلال جانور ہے۔
اسے کھاؤ اور اپنی قسم کا کفارہ دے دو۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی نے کام کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھائی حالانکہ اس کے لیے قسم توڑنا اس پر قائم رہنے سے بہتر ہے تو اس قسم کو توڑ دیا جائے اور ایسی قسم کاکفارہ لازم ہے۔

امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ خمس مسلمانوں کی ضروریات کے لیے ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جو اونٹ آئے تھے وہ مال خمس سے تھے اور رسول اللہ ﷺنے لوگوں کی ضروریات کے لیے انھیں دے دیے۔
مال غنیمت تو مجاہدین میں تقسیم ہو گیا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں خمس بھیجا گیا جو آپ نے اپنی صوابدید کے مطابق صرف کیا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3133   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3810  
´کسی بات کی قسم کھانے کے بعد آدمی اس سے بہتر چیز دیکھے تو کیا کرے؟`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین پر کوئی ایسی قسم نہیں جو میں کھاؤں پھر اس کے سوا کو اس سے بہتر سمجھوں مگر میں وہی کروں گا (جو بہتر ہو گا)۔ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3810]
اردو حاشہ:
زمین سے شاید اشارہ ہو کہ دنیوی چیزوں میں میرا یہ طریق کار ہے۔ باقی رہے دینی کام تو وہ سب کے سب بہتر ہوتے ہیں۔ انہیں چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دنیوی کاموں میں اگر کسی غیر بہتر چیز پر قسم کھائی گئی تو اسے چھوڑ کر بہتر کام کرلینا چاہیے‘ قسم کا کفارہ دے دیا جائے‘ البتہ اگر کسی جائز کام پر فریقین کے درمیان وعدہ یا معاہدہ طے پا گیا ہے اور آدمی نے اسے پورا کرنے کی قسم کھا لی ہے مگر بعد میں وہ دیکھتا ہے کہ فائدہ یا نفع فریق ثانی کے حق میں جارہا ہے‘ مجھے اس میں نقصان ہے‘ تو اس صورت میں وہ قسم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا کیونکہ اس میں فریق ثانی کا بھی حق ہے جو مجروح ہوتا ہے۔ گویا حدیث میں مذکور طریق کار ذاتی افعال میں ہوگا نہ کہ کسی دوسرے کے حق میں‘ ورنہ یہ خود غرضی ہوگی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3810   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3811  
´قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دینے کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اشعریوں کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، ہم آپ سے سواریاں مانگ رہے تھے ۱؎، آپ نے فرمایا: قسم اللہ کی! میں تمہیں سواریاں نہیں دے سکتا، میرے پاس کوئی سواری ہے بھی نہیں جو میں تمہیں دوں، پھر ہم جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، اتنے میں کچھ اونٹ لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے تین اونٹوں کا حکم دیا، تو جب ہم چلنے لگے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: اللہ تعالی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3811]
اردو حاشہ:
(1) اشعر ایک قبیلہ تھا جس کی بنا پر حضرت ابوموسیٰ کو اشعری کہا جاتا تھا۔ جب یہ لوگ نبی ﷺ کے پاس پہنچے تھے تو اس وقت آپ کسی بنا پر غصے کی حالت میں تھے۔ ویسے آپ کے پاس اس وقت سوریاں تھی بھی نہیں۔
(2) میں نے نہیں دیں یعنی اب اللہ تعالیٰ نے اونٹ بھیج دیے جو میں نے تم کو دیے۔ باقی رہی قسم تو اس کا جواب آگے ذکر ہے۔
(3) اس حدیث میں قسم توڑنے سے پہلے کفارہ دینے کا ذکر ہے۔ جمہور اس کے قائل ہیں‘ البتہ احناف اسے درست نہیں سمجھتے کہ جب کفارہ کا سبب ہی واقع نہیں ہوا تو کفارہ کیسے ہوسکتا ہے؟ حالانکہ جب نیت قسم توڑنے کی ہوگئی تو بہتر ہے کفارہ پہلے دے دیا جائے تاکہ کفارہ لازم ہی نہ آئے اگرچہ بعد میں ادا کرنا بھی درست ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3811   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2107  
´جس نے کسی بات پر قسم کھائی پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھا تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اشعری قبیلہ کے چند لوگوں کے ہمراہ آپ سے سواری مانگنے کے لیے حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تم کو سواری نہیں دوں گا، اور میرے پاس سواری ہے بھی نہیں کہ تم کو دوں، پھر ہم جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، پھر آپ کے پاس زکاۃ کے اونٹ آ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے سفید کوہان والے تین اونٹ دینے کا حکم دیا، جب ہم انہیں لے کر چلے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2107]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  قسم کی تین قسمیں ہیں:

(ا)
لغو:
جس میں قسم کا لفظ بولا جائے لیکن قسم کا ارادہ نہ ہو جیسے بعض لوگ عادت کے طور پر بلا ارادہ قسم کے لفظ بول دیتے ہیں۔
اس پر کوئی مواخذہ نہیں تاہم اس سے اجتناب بہتر ہے۔

(ب)
غموس:
یعنی جھوٹی قسم جو کسی کو دھوکا دینے کے لیے کھائی جائے۔
یہ کبیرہ گناہ ہے، اس پر توبہ استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے تاہم اس پر کفارہ واجب نہیں۔

(ج)
معقدہ:
جو مستقبل میں کسی کام کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کلام میں تاکید اور پختگی کے لیے ارادہ نیت سے کھائے۔
اس قسم کو توڑنے پر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ (دیکھیئے:
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف سورہ المائدہ 5: 89)

۔

(2)
  قسم کا کفارہ دس غریب آدمیوں کو کھانا کھلانا یا انہیں لباس مہیا کرنا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ (سورۃ مائدۃ: 89)

(3)
  ایک آدمی کو خوراک کے طور پر ایک مدغلہ (تقریبا چھ سو گرام)
کافی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں روزے کی حالت میں ہم بستری کر لینے والے کو ساتھ مسکینوں میں تقسیم کرنے کے لیے پندرہ صاع کھجوریں دی تھیں۔
اور ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔
بعض علماء کے نزدیک خوراک اور لباس میں عرف کا اعتبار ہے یعنی جسے عام لوگ کہیں کہ اس نے کھانا کھلا دیا قرآن مجید سے یہی ارشارہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ﴾ (المائدۃ، 5: 89)
اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو۔
یعنی اس کی مقدار مقرر نہیں۔
اپنی استطاعت کے مطابق سادہ یا عمدہ کھانا یا لباس دینا چاہیے۔

(4)
  نیکی کا کام نہ کرنے یا گناہ کرنے کی قسم کھانا بھی ناجائز ہے۔
اس پر بھی کفارہ ادا کرنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَجْعَلُوا اللَّـهَ عُرْ‌ضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّ‌وا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ﴾  (البقرۃ، 2: 224)
اور اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا (اس طرح)
نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیز گاری اور لوگوں کے درمیان صلح کرانا چھوڑ بیٹھو۔

(5)
جو کام نہ کرنے کی قسم کھائی ہو کفارہ اسے انجام دینے سے پہلے بھی دیا جاسکتا ہے بعد میں بھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2107   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:783  
783-زہدم جرمی بیان کرتے ہیں: ہم لوگ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے۔ وہاں مرغی کا گوشت لایا گیا تو ایک شخص پیچھے ہٹ گیا۔ اس نے کھانے میں حصہ نہیں لیا، سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اسے دعوت دی تو وہ بولا: میں نے اسے گندگی کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس لیے میں اسے گندا سمجھتا ہوں۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:783]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مرغی حلال جانور ہے۔ اس کا گوشت اور اس کا انڈہ کھا نا جائز ہے۔ یہ حدیث صحیح مسلم، دارمی، بیہقی اور مسند أحمد میں بھی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر باب باندھا ہے «بــاب لـحـم الدجاج» اور امام ترمذی بھی فرماتے ہیں: «باب ما جاء فى اكل الدجاج»
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو پاکیزہ کھانا ہی کھاتے تھے اور ایسے کھانے کے قریب تک نہیں جاتے تھے کہ جس میں کراہت ہو۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرغی کا گوشت کھانا اس کے حلال ہونے کی واضح دلیل ہے۔ اس کے بعد کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ مرغی کے گوشت کو حرام قرار دے۔ صرف اس شبہ سے کہ اس کی خوراک میں حرام چیز میں استعمال ہوتی ہیں کیونکہ حلت اور حرمت میں جانور کی غذا کا اعتبار نہیں بلکہ شریعت کا اعتبار ہے کیونکہ بعض جانور ایسے ہیں کہ جن کی خوراک پھل، سبزیاں اور حلال اشیاء میں اس کے باوجود وہ حرام ہیں مثلاً گیدڑ، بندر وغیرہ ایسے جانوروں کو کھانا ہر گز حلال نہیں، حالانکہ ان کی خوراک پاکیزہ ہوتی ہے مگر شریعت نے انھیں حرام قرار دیا ہے۔
اگر حرام اور حلال ہونے کی علت جانور کے کھانے (خوراک) کو تسلیم کر لیں کہ جس کی خوراک پاک ہوگی اس کا گوشت حلال اور جس کی خوراک نجس اور حرام ہو گی اس کا گوشت حرام ہوگا تو فرض کریں کہ کوئی شخص خنزیر کے بچے کو پیدائش ہی سے گھر میں پالتا ہے، اسے حلال اور پاک غذا مہیا کرتا ہے تو کیا وہ حلال ہو جائے گا؟ اگر اس بارے میں کوئی شخص اپنی عقل کو فیصل مانے گا تو اس کے مطابق تو حلال ہوگا کیونکہ اس نے کبھی حرام اور نجس چیز کھائی ہی نہیں اور اپنا فیصلہ اگر شریعت کی طرف لے جائے گا پھر یہ حرام ہوگا۔
ان تمام دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ حلت اور حرمت میں جانور کی خوراک کا کوئی اعتبار نہیں بلکہ شریعت کا اعتبار ہوگا۔
شبہ کا رد۔۔۔ جولوگ برائلر مرغی کو حرام قرار دیتے ہیں وہ اسے جلالہ پر قیاس کرتے ہیں جسے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے:
«‏‏‏‏نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عـن أكل الجلالة والبانها۔» ‏‏‏‏ (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجه)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلام نے حلالہ کے کھانے سے اور ان کے دودھ سے منع کیا ہے۔
اس حدیث سے جلالہ کی قطعی حرمت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کے استعمال سے اس وقت تک روکا گیا ہے جب تک کہ اس گندی خوراک کی بد بو زائل نہ ہو جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ:
«إنـه كـان يـحبس الدجاجة الـجـلالـة ثـلاثـا»
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جلالہ مرغی کو تین دن بند رکھتے تھے (پھر استعمال کر لیتے تھے)۔ [رواه ابن ابي شيبه]
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ (ارواء الغليل: 151/8)
یہ صرف اس لیے کرتے تھے تا کہ اس کا پیٹ صاف ہو جائے اور گندگی کی بو اس کے گوشت سے جاتی رہے۔ اگر جلالہ کی حرمت گوشت کی نجاست کی وجہ سے ہوتی تو وہ گوشت جس نے حرام پرنشو و نما پائی ہے کسی بھی حال میں پاک نہ ہوتا۔ جیسا کہ ابن قدامہ نے کہا ہے کہ اگر جلالہ نجس ہوتی تو دو تین دن بند کرنے سے بھی پاک نہ ہوتی۔ (المغنی: 41/9)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس صحیح اثر سے معلوم ہوتا ہے کہ جلالہ کی حرمت اس کے گوشت کا نجس اور پلید ہونا نہیں بلکہ علت اس کے گوشت سے گندگی کی بد بو وغیرہ کا آنا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
´´و الـمـعـتـبـر فـي جـواز اكل الجلالة زوال رائحة الـنـجـاسة عن تعلف بالشيى الطاهر على الصحيح ``(فتح الباری: 565/9) جلالہ کے کھانے کا لائق ہونے میں معتبر چیز نجاست وغیرہ کی بدبو کا زائل ہونا ہے۔ یعنی جب بد بو زائل ہو جائے تو اس کا کھانا درست ہے۔
علامہ صنعانی بھی فرماتے ہیں:
´´ قيـل بـل الإعتبار بالرائحة و النتن `` کہ حلالہ کے حلال ہونے میں بد بو کے زائل ہونے کا اعتبار کیا جا تا ہے۔ (سبل السلام: 77/3)
جلالہ کے بارے میں اہل لغت کے اقوال جان لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ اکثر اہل لغت نے لکھا ہے: ´´ألـجـلالة هي البقرة التي تتبع النجاسات`` کہ جلالہ وہ گائے ہے جو نجاسات کو تلاش کرتی ہے۔ (لسان العرب: 336/2، الصحاح للجوهري: 1258/4، القاموس المحيط: 591/1)
این منظور الافریقی لکھتے ہیں:
´´و الجلالة من الحيوان التي تأكل الجلة العذرة`` جلالہ وہ حیوان جو انسان کا پاخانہ وغیرہ کھاتے ہیں۔ (لسان العرب: 336/2)
اس قول کے مطابق برائلر مرغی جس کو لوگ حرام قرار دیتے ہیں جلالہ بنتی ہی نہیں ہے کیونکہ وہ انسان کا پاخانہ نہیں کھاتی۔ لہٰذا اسے جلا لہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ اس میں جلالہ کی علت نہیں پائی جاتی اور جب علت نہ رہی تو جلالہ والا حکم بھی اس پر نہیں لگ سکتا۔
لہٰذا برائلر مرغی جس کی غذا حلال اور حرام چیزوں کے مرکبات سے تیار ہوتی وہ حلال ہے جس میں کوئی شبہ نہیں۔ اس کی غذا کا اعتبار نہیں بلکہ شریعت کا اعتبار ہے۔
آخر میں یہ بات بھی اچھی طرح یادر ہے کہ مرغی کی خوراک میں جو خون مردار اور دوسری حرام اشیاء ڈالی جاتی ہیں اگر چہ یہ انسانوں کے لیے حرام ہیں جانوروں کے لیے حرام نہیں کیونکہ وہ تو مکلف ہی نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کے لیے جن اشیاء کا کھانا حرام قرار دیا ہے ان کی خرید وفروخت بھی (چند ایک جانور چھوڑ کر) حرام قرار دی ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
«‏‏‏‏لـعـن الـلـه اليهود - ثلاثا أن الله حرم عليهم الشحوم فباعوها و أكلوا أثمانها و إن الله إذا حرم على قوم أكل شيى حرم عليهم ثمنه» ‏‏‏‏
اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے پھر کہا: اللہ تعالیٰ نے ان پر چر بی کا کھانا حرام کر دیا تو انہوں نے اسے فروخت کر کے اس کی قیمت استعمال کرنی شروع کر دی اور یقینا اللہ تعالیٰ جس کسی قوم پرکسی چیز کا کھانا حرام کر دیتا ہے اس کی قیمت بھی ان پر حرام کر دیتا ہے۔ [صحيح سنن ابي داؤد للالباني: 667/2 و أحمد]
اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
«‏‏‏‏إن الـلـه حـرم الـخمر وثمنها وحرم الميتة و ثمنها و حرم الخنزير و ثمنه» ‏‏‏‏
بے شک اللہ نے شراب، مردار، خنزیر کو حرام قرار دیا ہے اور ان کی قیمتیں بھی حرام کی ہیں۔ [صحيح ابوداؤد: 666/2]
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان فرامین سے معلوم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کا کھانا انسان کے لیے حرام ہے ان کی خرید و فروخت کرنا بھی حرام ہے۔ (سوائے چند جانوروں کے جیسے کہ گھریلو گدھا ہے) ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا مرتکب ہے اور حرام کمائی کھانے اور جمع کرنے میں مصروف ہے۔ ہمارے ان بھائیوں کو چاہیے کہ وہ مرغی کی خوراک تیار کرنے میں حرام اشیاء کی خرید و فروخت سے اجتناب کریں۔ خوراک میں مردار اور خون ڈالنے کی بجائے مچھلی کا چورا ڈال لیں۔ جب حلال چیز کی خرید و فروخت میں کفایہ ہے تو پھر حرام کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ «هـذا ما عندي والله اعلم بالصواب» (آپ کے مسائل اور ان کا حل از مفتی مبشر أحمد ربانی)۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 783   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4263  
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں اشعریوں کے ایک گروہ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سواری طلب کرنے کی خاطر حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں سواری نہیں دوں گا، کیونکہ میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے، جس پر تمہیں سوار کروں۔ ابو موسیٰ بیان کرتے ہیں، پھر جتنا عرصہ اللہ کو منظور تھا، ہم ٹھہرے رہے، پھر آپﷺ کے پاس اونٹ لائے گئے، تو آپﷺ نے ہمیں تین (جوڑے) سفید کوہان والے اونٹ دینے کا حکم دیا، تو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4263]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
نستحمله:
آپ سے سواری چاہتے تھے۔
(2)
ذود كا:
اطلاق تین سے لے کر دس اونٹ تک پر ہوتا ہے۔
(3)
غر،
اغر کی جمع سفید کو کہتے ہیں۔
(4)
ذري،
ذروة کی جمع ہے،
ہر چیز کی چوٹی اور بلند حصہ کو کہتے ہیں،
اور یہاں کوہان مراد ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4263   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4265  
حضرت زہدم جرمی بیان کرتے ہیں کہ ہم ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے اپنا دسترخوان منگوایا، اس پر مرغ کا گوشت بھی تھا، تو بنو تیم اللہ کا ایک سرخ آدمی جو موالی کے مشابہ تھا، داخل ہوا، تو ابو موسیٰ نے اسے کہا، آؤ، وہ ہچکچایا تو ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، آؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے (مرغ کو) کھاتے ہوئے دیکھا ہے، تو اس آدمی نے کہا، میں نے اسے ایک ایسی چیز کھاتے دیکھا ہے، جس کی بنا پر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4265]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
تلكا:
تاخیر،
ہچکچاہٹ سے کام لیا۔
(2)
نهب ابل:
غنیمت کے اونٹ۔
فوائد ومسائل:
یہ داخل ہونے والا تیم اللہ کا فرد،
خود زھدم جرمی ہے،
کیونکہ بنو تیم اللہ اور بنو جرم دونوں قبیلہ قضاعہ کے خاندان ہیں،
اس لیے بنو زھدم کو بعض دفعہ بنو تیم اللہ بھی کہہ دیا جاتا ہے،
اور آپﷺ نے حضرت سعد سے اونٹ غنیمت کے اونٹوں کے عوض حاصل کئے تھے،
کہ جب غنائم حاصل ہوں گے،
تمہیں اونٹ دے دیں گے،
یا حضرت سعد کو یہ اونٹ غنیمت میں حاصل ہوئے تھے،
اس لیے انہیں غنیمت کے اونٹوں سے تعبیر کر دیا،
یہ اونٹ چھ تھے اگرچہ بعض راویوں نے انہیں پانچ کہہ دیا ہے،
یا پانچ تھے،
کسر کو پورا کرتے ہوئے انہیں چھ سے تعبیر کر دیا گیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4265   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4269  
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواریاں لینے کے لیے حاضر ہوئے، تو آپﷺ نے فرمایا: میرے پاس تمہیں سوار کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اللہ کی قسم! میں تمہیں سوار نہیں کروں گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے پاس تین جوڑے اونٹ سفید کوہانوں والے بھیجے، تو ہم نے دل میں کہا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سواریاں لینے کے لیے حاضر ہوئے، تو آپﷺ نے ہمیں سوار نہ کرنے کی قسم اٹھائی، اس لیے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4269]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
بُقْعٌ،
أَبْقَعُ کی جمع ہے،
چتکبرا،
جس میں سیاہی و سفیدی ہو،
سفیدی کے غلبہ کی بنا پر ان کو بقع الذري کی بجائے عام روایات میں غر الذري قرار دیا گیا ہے،
اس لیے متن میں معنی سفید کوہان کیا گیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4269   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5518  
5518. سیدنا زہدم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھے جبکہ ہمارے اور جرم کے اس قبیلے کے درمیان دوستی اور بھائی چارہ تھا۔ ہمارے سامنے ایک کھانا پیش کیا گیا جس میں مرغی کا گوشت تھا۔ حاضرین میں سے ایک شخص سرخ رنگ کا بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اس کھانے کے قریب نہ آیا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اسے کہا کہ تم بھی کھانے میں شریک ہو جاؤ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا گوشت کھاتے دیکھا ہے، اس نے کہا میں نے اسے گندگی کھاتے دیکھا تھا، اسی وقت سے مجھے اس سے گھن آنے لگی ہے۔ میں نے قسم اٹھائی ہے کہ آئندہ میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہا کہ تم شریک ہو جاؤ میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث بیان کرتا ہوں، وہ یہ کہ میں قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ہمراہ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جب میں آپ کے سامنے آیا تو آپ اس پر خفا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5518]
حدیث حاشیہ:
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا دلی مطلب یہ تھا کہ تم بھی اپنی قسم توڑ کر مرغی کھانے میں شریک ہوجاؤ۔
مرغی ایسا جانور نہیں ہے جس کی مطلق غذا گندگی ہو وہ اگر گندگی کھاتی ہے تو پاکیزہ اشیاءبھی بکثرت کھاتی ہے پس اس کی حلت میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5518   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6649  
6649. حضرت زہدم سے روایت ہے انہوں نے کہا: قبیلہ جرم اور اشعری حضرات کے درمیان محبت اور بھائی چارہ تھا۔ ہم ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی خدمت میں موجود تھے کہ انہیں کھانا پیش کیا گیا جس میں مرغ کا گوشت تھا۔ اس وقت آپ کے پاس قبیلہ بنو تیم اللہ سے ایک سرخ رنگ کا آدمی موجود تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ غلاموں میں سے ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اس کو کھانے کی دعوت دی تو اس نے کہا: میں نے مرغی کو گندی چیز کھاتے دیکھا تو مجھے گھن آئی، پھر میں نے قسم کھالی کہ آئندہ میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اس سے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ! میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کے ہمراہ حاضر ہوا، ہم نے آپ سے سواری کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں سواری نہیں دے سکتا اور نہ ذاتی طور پر میرے پاس کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6649]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ غیر مفید قسم کا کفارہ ادا کر کے توڑ دینا سنت نبوی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6649   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6680  
6680. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جب میں آپ کے پاس آیا تو آپ بحالت غصہ تھے۔ ہم نے آپ سے سواریاں طلب کیں تو آپ نے قسم کھائی کہ آپ ہمیں سواریاں نہیں دیں گے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اللہ نے چاہا تو میں کبھی ایسی قسم نہیں کھاتا کہ اس کے سوا دوسری چیز کو بہتر خیال کروں تو وہی کرتا ہوں جس میں بھلائی اور خیر خواہی ہے اور اپنی قسم توڑ کر اس کا کفارہ دے دیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6680]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ قسم پر جمے رہنا امر محمود نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6680   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7555  
7555. سیدنا زہدم سے روایت ہے، انہوں نے کہا: قبیلہ جرم اور اشعری قبیلے کے درمیان محبت اور بھائی چارے کا معاملہ تھا۔ ایک مرتبہ ہم سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھے اور ان کے ہاں بنو تیم اللہ کا ایک شخص بھی تھا۔ غالباً وہ عرب کے غلام لوگوں میں سے تھا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اسے اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی تو اس نے کہا: میں نے مرغی کو گندگی کھاتے دیکھا تو اسی وقت سےقسم اٹھائی کہ اس کا گوشت نہیں دکھاؤں گا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نےکہا: آؤ! میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث بیان کرتا ہوں۔ میں نبی ﷺ کے پاس اشعری قبیلے کے چند افراد لے کر حاضر ہوا اور ہم نے آپ سے سواری مانگی۔ آپ ﷺ نےفرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہارے لیے سواری کا بندوبست نہیں کرسکتا اور نہ میرے پاس کوئی چیز ہے جسے میں تمہیں سواری کے لیے دوں۔ پھر نبی ﷺ کے پاس مال غنیمت میں سے کچھ اونٹ آئے تو آپ ﷺ نے ہمارے متعلق دریافت کیا: اشعری کہاں ہیں؟۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7555]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو امام بخاری  یہاں اس لیے لائے کہ بندے کےافعال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے جب توآنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا کہ میں نے تم کو سوار ی نہیں دی بلکہ اللہ تعالیٰ نے دی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7555   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4385  
4385. حضرت زہدم سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب حضرت ابو موسٰی ؓ آئے تو انہوں نے قبیلہ جَرم کا بہت اعزاز و احترام کیا۔ ہم آپ کی خدمت میں بیٹھے تھے جبکہ آپ مرغی کا گوشت کھا رہے تھے۔ حاضرین میں سے ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے انہیں بھی کھانے پر بلایا تو ان صاحب نے کہا: جب سے میں نے ان مرغیوں کو کچھ چیزیں کھاتے دیکھا ہے، اسی وقت سے مجھے ان کے گوشت سے گھن آنے لگی ہے۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے فرمایا: آؤ، میں نے خود نبی ﷺ کو اس کا گوشت کھاتے دیکھا ہے۔ اس نے کہا: لیکن میں نے اس کا گوشت نہ کھانے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے کہا کہ آؤ میں تمہاری قسم کے متعلق بھی تمہیں بتاتا ہوں۔ ہمارے قبیلہ اشعر کے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے سواریاں مانگنے لگے۔ آپ نے ہمیں سواریاں مہیا کرنے سے انکار کر دیا۔ ہم نے پھر سواری کا مطالبہ کیا تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4385]
حدیث حاشیہ:

جب حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ حضرت عثمان ؓ کے عہد خلافت میں کوفہ کے گورنر بنا کر بھیجے گئے تو اس وقت یہ واقعہ پیش آیا تھا قبیلہ جَرم یمن میں رہتا تھا بعد میں کوفے بسیرا کر لیا اس تعلق کی وجہ سے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے ان کا اعزاز و اکرام کیا۔
(عمدة القاري: 349/12)

غزوہ تبوک میں شمولیت کے لیے اشعری حضرات کے پاس سواریاں نہیں تھیں اس لیے انھوں نے سواریاں کا مطالبہ کیا تھا۔
رسول اللہ ﷺ کسی اور وجہ سے ناراض تھے، اتفاق سے آپ کے پاس سواریاں نہیں تھیں اس لیے آپ نے انکار کردیا۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اس انکار کی وجہ سے بہت پریشان ہوئے کہ شاید آپ مجھ پر کسی وجہ سے ناراض ہیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 44۔
15)


اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس غنیمت کے اونٹ آئے تھے جبکہ دوسری روایات میں ہے کہ آپ نے انھیں حضرت سعد ؓ سے خریدا تھا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 44۔
15)

ممکن ہے کہ حضرت سعد ؓ کو غنیمت کے مال سے بطور حصہ اونٹ ملے ہوں اور آپ نے ان سے خرید کیے ہوں۔
واللہ اعلم۔

اونٹوں کی تعداد کے متعلق بھی اختلاف ہے بعض میں پانچ اور کسی میں چھ ہے بعض روایات میں ہے کہ آپ نے دو، دو کر کے انھیں عطا فرمائے۔
ممکن ہے کہ اصل تو پانچ ہی ہوں اور چھٹا ویسے ہی تبعاً دے دیا ہو۔
متعدد واقعات بھی ہو سکتے ہیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4385   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5518  
5518. سیدنا زہدم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھے جبکہ ہمارے اور جرم کے اس قبیلے کے درمیان دوستی اور بھائی چارہ تھا۔ ہمارے سامنے ایک کھانا پیش کیا گیا جس میں مرغی کا گوشت تھا۔ حاضرین میں سے ایک شخص سرخ رنگ کا بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اس کھانے کے قریب نہ آیا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اسے کہا کہ تم بھی کھانے میں شریک ہو جاؤ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کا گوشت کھاتے دیکھا ہے، اس نے کہا میں نے اسے گندگی کھاتے دیکھا تھا، اسی وقت سے مجھے اس سے گھن آنے لگی ہے۔ میں نے قسم اٹھائی ہے کہ آئندہ میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہا کہ تم شریک ہو جاؤ میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث بیان کرتا ہوں، وہ یہ کہ میں قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کو ہمراہ لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جب میں آپ کے سامنے آیا تو آپ اس پر خفا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5518]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ تم بھی اپنی قسم توڑ کر ہمارے ساتھ کھانے میں شریک ہو جاؤ اور مرغی کا گوشت کھاؤ، مرغی ایسا جانور نہیں ہے جس کی مطلق غذا گندگی ہو، وہ اگر کبھی گندگی کھاتی ہے تو پاکیزہ اشیاء بھی بکثرت کھاتی ہے اس بنا پر اس کے حلال ہونے میں ذرا بھر شبہ نہیں ہے۔
اگرچہ ہمارے بعض اسلاف گندگی کھانے والی مرغی کو اپنے گھر تین دن تک خوراک کھلاتے، پھر اسے ذبح کر کے کھاتے تھے جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا ہے۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 147/5، رقم: 24598)
بہرحال یہ ان کی احتیاط تو ہو سکتی ہے لیکن اس کے حلال ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔
(فتح الباري: 802/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5518   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6623  
6623. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: میں چند اشعری لوگوں کے ہمراہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سواری کا مطالبہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں سواری نہیں دے سکتا اور نہ میرے پاس کوئی چیز ہی ہے جس پر تمہیں سوار کروں۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا: پھر ہم جس قدر اللہ کو منظور تھا وہاں ٹھہرے رہے اس دوران میں سفید کوہان والے تین اونٹ آپ ﷺ کے پاس لائے گئے تو آپ نے ہمیں ان پر سوار کر دیا۔ جب ہم وہاں سے روانہ ہونے لگے تو ہم میں سے بعض نے کہا: اللہ کی قسم! ان میں ہمارے لیے کوئی برکت نہیں ہوگی کیونکہ ہم نبی ﷺ کے پاس آئے تھے اور آپ سے سواری کا مطالبہ کیا تھا تو آپ نے قسم اٹھائی تھی کہ ہمیں سواری مہیا نہیں کر سکتے پھر آپ نے ہمیں سواریاں عنایت کی ہیں لہذا تم سب نبی ﷺ کی خدمت میں واپس جاؤ تاکہ ہم آپ کو قسم یاد دلائیں چنانچہ ہم رسول اللہ ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6623]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ غزوۂ تبوک کا واقعہ ہے اور درج ذیل آیات اسی واقعہ کے پس منظر میں نازل ہوئیں:
''اور نہ ان لوگوں پر ہی کچھ الزام ہے جو آپ کے پاس حاضر ہوئے تاکہ آپ انہیں سواری مہیا کر دیں، تو آپ نے کہا:
میرے پاس تمہارے لیے سواری کا بندوبست نہیں، تو وہ واپس چلے گئے اور اس غم سے ان کی آنکھیں اشکبار تھیں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں ہے۔
'' (التوبة: 92/9) (2)
ایک دوسری روایت میں یہ واقعہ ذرا تفصیل سے بیان ہوا ہے، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھیوں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سواری مانگنے کے لیے بھیجا۔
میں نے جا کر عرض کی:
اللہ کے رسول! میرے ساتھیوں نے مجھے سواری طلب کرنے کے لیے آپ کے پاس بھیجا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
واللہ! میں تمہیں کوئی سواری نہیں دوں گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت غصے میں تھے مگر میں سمجھ نہ سکا۔
میں افسردہ ہو کر واپس آیا اور اپنے ساتھیوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کی اطلاع دی۔
مجھے ایک تو یہ غم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سواری مہیا نہیں کی اور دوسرا یہ کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض ہیں۔
مجھے واپس آئے ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ میں نے سنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ مجھے پکار رہے ہیں۔
میں نے جواب دیا تو وہ کہنے لگے:
چلو، تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا رہے ہیں۔
میں حاضر خدمت ہوا تو آپ نے فرمایا:
یہ اونٹوں کے تین جوڑے ہیں جو میں نے ابھی ابھی سعد سے خریدے ہیں۔
یہ چھ اونٹ لے لو اور اپنے ساتھیوں سے کہنا کہ یہ اونٹ اللہ تعالیٰ نے یا اللہ کے رسول نے تمہیں سواری کے لیے دیے ہیں، انہیں اپنے کام میں لاؤ۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4415)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6623   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6649  
6649. حضرت زہدم سے روایت ہے انہوں نے کہا: قبیلہ جرم اور اشعری حضرات کے درمیان محبت اور بھائی چارہ تھا۔ ہم ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی خدمت میں موجود تھے کہ انہیں کھانا پیش کیا گیا جس میں مرغ کا گوشت تھا۔ اس وقت آپ کے پاس قبیلہ بنو تیم اللہ سے ایک سرخ رنگ کا آدمی موجود تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ غلاموں میں سے ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اس کو کھانے کی دعوت دی تو اس نے کہا: میں نے مرغی کو گندی چیز کھاتے دیکھا تو مجھے گھن آئی، پھر میں نے قسم کھالی کہ آئندہ میں اس کا گوشت نہیں کھاؤں گا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اس سے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ! میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث سناتا ہوں۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کے ہمراہ حاضر ہوا، ہم نے آپ سے سواری کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں سواری نہیں دے سکتا اور نہ ذاتی طور پر میرے پاس کوئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6649]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے خرید کر اشعری حضرات کو عنایت فرمائے تھے جبکہ اس حدیث کے مطابق وہ غنیمت کے طور پر آپ کو ملے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ اونٹ غنیمت ہی کے تھے لیکن حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے حصے میں جو اونٹ آئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خرید کر اشعری حضرات کو عنایت کیے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ دو الگ الگ واقعات ہوں۔
واللہ أعلم۔
(2)
اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کی کیفیت بتائی گئی ہے کہ اس میں کفارہ دیا گیا اور کفارہ اس قسم پر ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نام پر اٹھائی جائے، لہذا معلوم ہوا کہ آپ صرف اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھاتے تھے، غیراللہ کی قسم اٹھانا آپ کا معمول نہ تھا۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 653/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6649   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6680  
6680. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں قبیلہ اشعر کے چند لوگوں کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، جب میں آپ کے پاس آیا تو آپ بحالت غصہ تھے۔ ہم نے آپ سے سواریاں طلب کیں تو آپ نے قسم کھائی کہ آپ ہمیں سواریاں نہیں دیں گے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم! اللہ نے چاہا تو میں کبھی ایسی قسم نہیں کھاتا کہ اس کے سوا دوسری چیز کو بہتر خیال کروں تو وہی کرتا ہوں جس میں بھلائی اور خیر خواہی ہے اور اپنی قسم توڑ کر اس کا کفارہ دے دیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6680]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بحالت غصہ کھائی ہوئی قسم منعقد ہو جاتی ہے اور اس کا خلاف کرنے پر کفارہ دینا پڑتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک ہے لیکن بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ غصے کی حالت میں قسم منعقد نہیں ہوتی جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بحالت غصہ قسم اٹھانے کا کوئی اعتبار نہیں۔
(المعجم الأوسط للطبراني، حدیث: 2029)
اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔
(فتح الباري: 688/11) (2)
بہرحال غصے کی حالت میں اٹھائی گئی قسم بھی معتبر ہے اور اس کا خلاف کرنے پر کفارہ دینا پڑتا ہے۔
واللہ أعلم۔
(3)
ابن بطال کہتے ہیں کہ اس حدیث سے ان حضرات کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ بحالت غصہ کھائی ہوئی قسم لغو ہوتی ہے اور اس پر کسی قسم کا کفارہ نہیں۔
(فتح الباري: 690/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6680   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6718  
6718. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں اشعری قبیلے کے چند آدمیوں کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے سواری کا مطالبہ کیاَ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں سواری نہیں دوں گا اور نہ میرے پاس کوئی سواری ہے جس پر میں تمہیں سوار کر دوں پھر جس قدر اللہ نے چاہا ہم وہاں ٹھہرے۔ اس دوران میں آپ کے پاس اونٹ لائے گئے تو آپ نے ہمیں تین اونٹ دینے کا حکم دیا۔ جب ہم اونٹ لے کر چلے تو ہم نے ایک دوسرے سے کہا: اللہ تعالٰی ہمیں ان میں کوئی برکت نہ دے گا کیونکہ ہم جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں سواری لینے کے لیے آئے تھے تو آپ نے قسم کھائی تھی کہ وہ ہمیں سواریاں مہیا نہیں کریں گے، اس کے بعد آپ نے ہمیں سواریاں دے دی ہیں۔ حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ نے کہا: ہم نبی ﷺ کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے اور آپ سے یہ ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: میں نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6718]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی اور پھر ان شاءاللہ کہا، اس کا مطلب یہ ہے کہ قسم اٹھانے کے بعد ان شاءاللہ کہنا مشروع ہے۔
ایسا کرنے سے انسان حانث نہیں ہوتا بشرطیکہ وہ ان شاءاللہ کے الفاظ قسم اٹھانے کے متصل بعد کہہ دے۔
محض قصد اور ارادے سے مذکورہ حکم ثابت نہیں ہو گا اور نہ اس امر سے استثناء ہی ثابت ہو گا کہ قسم اٹھانے والا کافی دیر سکوت کرنے کے بعد ان شاءاللہ کے الفاظ کہے، نیز اگر ان شاء اللہ کے الفاظ محض تبرک کے لیے استعمال کیے ہیں، جبکہ اس کا ارادہ استثناء وغیرہ کا نہیں تھا تو قسم کے منافی کام کرنے سے قسم ٹوٹ جائے گی اور اسے کفارہ دینا ہو گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6718   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6721  
6721. حضرت زہد جرمی سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھے۔ ہمارے اور اس قبیلہ جرم کے درمیان بھائی چارہ اور احسان شناسی کے تعلقات تھے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔ اس کھانے میں مرغ کا گوشت بھی تھا۔ ان لوگوں میں بنو تیم اللہ سے ایک سرخ رنگ کا آدمی تھا وہ بظاہر غلام معلوم ہوتا تھا۔ وہ کھانے کے قریب نہ آيا تو حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہا: کھانا قریب ہو کر کھاؤ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کھاتے ہوئے دیکھا ہے اس نے کہا: میں نے اسے گندگی سے کھاتے دیکھا ہے اس لیے مجھے اس سے گھن آتی ہے اور میں نے قسم کھائی تھی کہ میں اسے کبھی نہیں کھاؤں گا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا: کھانے میں شریک ہو جاؤ، میں تمہیں قسم کے متعلق آگاہ کرتا ہوں۔ ہم قبیلہ اشعر کے لوگوں کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے آپ سے سوار کا جانور طلب کیا، اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6721]
حدیث حاشیہ:
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کفارہ قسم توڑنے کے بعد دینا چاہیے کیونکہ کفارہ گناہ کو چھپاتا ہے اور قسم توڑنے سے پہلے گناہ ہی نہیں تو اس نے چھپانا کس چیز کو ہے، لہذا حانث ہونے سے پہلے کفارہ جائز نہیں، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ کفارہ قسم توڑنے سے پہلے بھی ادا کیا جا سکتا ہے کیونکہ جب قسم توڑنے کا ارادہ کر لیا تو گناہ کا ارادہ ہو گیا، اس بنا پر کفارہ پہلے دینے میں کوئی حرج نہیں، چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت کے یہ الفاظ بھی مروی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں اور وہ کام کر گزرتا ہوں جو بہتر ہوتا ہے۔
(صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث: 6623)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6721   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7555  
7555. سیدنا زہدم سے روایت ہے، انہوں نے کہا: قبیلہ جرم اور اشعری قبیلے کے درمیان محبت اور بھائی چارے کا معاملہ تھا۔ ایک مرتبہ ہم سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ کے پاس تھے اور ان کے ہاں بنو تیم اللہ کا ایک شخص بھی تھا۔ غالباً وہ عرب کے غلام لوگوں میں سے تھا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نے اسے اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی تو اس نے کہا: میں نے مرغی کو گندگی کھاتے دیکھا تو اسی وقت سےقسم اٹھائی کہ اس کا گوشت نہیں دکھاؤں گا۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ نےکہا: آؤ! میں تمہیں اس کے متعلق ایک حدیث بیان کرتا ہوں۔ میں نبی ﷺ کے پاس اشعری قبیلے کے چند افراد لے کر حاضر ہوا اور ہم نے آپ سے سواری مانگی۔ آپ ﷺ نےفرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہارے لیے سواری کا بندوبست نہیں کرسکتا اور نہ میرے پاس کوئی چیز ہے جسے میں تمہیں سواری کے لیے دوں۔ پھر نبی ﷺ کے پاس مال غنیمت میں سے کچھ اونٹ آئے تو آپ ﷺ نے ہمارے متعلق دریافت کیا: اشعری کہاں ہیں؟۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7555]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ بندہ اپنے افعال کا کسب کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسے پیدا کرتا ہے کیونکہ اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سواریاں فراہم کیں اور فرمایا:
یہ سواریاں میں نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دی ہیں جیسا کہ روزے دار بھول کر کھا لے تو فرمایا:
اللہ تعالیٰ اسے کھلاتا اور پلاتا ہے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت عطا کیا تھا تو درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی نے انھیں اونٹ دیے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کے افعال کا خالق ہے۔
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فعل عطا کو اللہ کی طرف منسوب کیا ہے کیونکہ اسباب کا مہیا کرنے والا اور انھیں پیدا کرنے والا وہ خود ہے 2۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
اس حدیث میں سواریاں دینے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی گئی ہے حالانکہ وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فراہم کی تھیں۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اسباب مہیا کیے تھے۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فعل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
اور جب آپ نے مٹھی پھینکی تو وہ آپ نے نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھی۔
(الأنفال: 8/17۔
وفتح الباري: 663/13)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7555