شمائل ترمذي
بَابُ مَا جَاءَ فِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَخَتَّمُ فِي يَمِينِهِ
رسول+اللہ صلی+اللہ+علیہ+وسلم کا دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا
انگوٹھی کے بارے میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت
حدیث نمبر: 102
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى وَهُوَ ابْنُ الطَّبَّاعِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: «أَنَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَخَتَّمُ فِي يَمِينِهِ» وَقَالَ أَبُو عِيسَى: «هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ» وَرَوَى بَعْضُ أَصْحَابِ قَتَادَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَنَّهُ كَانَ يَتَخَتَّمُ فِي يَسَارِهِ» وَهُوَ حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ أَيْضًا"
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے ہم اس کو صرف «سعيد بن ابي عروبه عن قتاده عن انس عن النبي صلي الله عليه وسلم» کی سند سے پہچانتے ہیں۔ قتادہ کے بعض اصحاب نے قتادہ سے، انہوں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنے تھے، لیکن یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «سنده ضعيف والحديث صحيح» :
«(سنن نسائي 193/8، ح 5285)»
اس روایت کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے:
➊ سعید بن ابی عروبہ مدلس اور مختلط تھے اور یہ عن سے اور بعد از اختلاط ہے۔
➋ قتادہ مدلس تھے اور یہ روایت عن سے ہے۔
عرض ہے کہ اس روایت کی سند اگرچہ ضعیف ہے، لیکن اس کے صحیح شواہد گزر چکے ہیں۔ دیکھیے احادیث سابقہ: 94۔95۔99،96
ان شواہد کے ساتھ یہ حدیث بھی صحیح ہے، لیکن امام ترمذی رحمہ اللہ کا اسے صحیح قرار نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ امام ترمذی شواہد کے ساتھ حدیث کی تصیح کے مطلقاً قائل نہیں تھے اور نہ حسن لغیرہ کو مطلقاً حجت سمجھتے تھے۔ دوسری روایت (بائیں ہاتھ میں انگشتری پہننے والی حدیث) جس کی طرف امام ترمذی نے اشارہ کیا ہے، غالباً سنن نسائی (193/8 ح 8286) کی حدیث ہے جس کی سند حسن لذاتہ ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» صحیح مسلم (2095) میں اس کا صحیح شاہد بھی ہے، لیکن امام ترمذی کا اسے بھی غیر صحیح قرار دینا اس کی دلیل ہے کہ وہ ضعیف ضعیف والی حسن لغیرہ (!) کو حجت نہیں سمجھتے تھے۔
قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف والحديث صحيح