Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ
کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
13. بَابُ بَرَكَةِ الْغَازِي فِي مَالِهِ حَيًّا وَمَيِّتًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُلاَةِ الأَمْرِ:
باب: اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کرام کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا دوسرے بادشاہان اسلام کے ساتھ ہو کر لڑے کیسی برکت دی تھی، اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 3129
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قُلْتُ: لِأَبِي أُسَامَةَ أَحَدَّثَكُمْ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: لَمَّا وَقَفَ الزُّبَيْرُ يوم الجمل دعاني فقمت إلى جنبه، فقال: يا بني إنه لا يقتل اليوم إلا ظالم أو مظلوم، وإني لا أراني إلا سأقتل اليوم مظلوما وإن من أكبر همي لديني أفترى يبقي ديننا من مالنا شيئا، فقال: يا بني بع مالنا فاقض ديني وأوصى بالثلث وثلثه لبنيه يعني بني عبد الله بن الزبير، يَقُولُ: ثُلُثُ الثُّلُثِ فَإِنْ فَضَلَ مِنْ مَالِنَا فَضْلٌ بَعْدَ قَضَاءِ الدَّيْنِ شَيْءٌ فَثُلُثُهُ لِوَلَدِكَ، قَالَ هِشَامٌ: وَكَانَ بَعْضُ وَلَدِ عَبْدِ اللَّهِ قَدْ وَازَى بَعْضَ بَنِي الزُّبَيْرِ خُبَيْبٌ وَعَبَّادٌ وَلَهُ يَوْمَئِذٍ تِسْعَةُ بَنِينَ وَتِسْعُ بَنَاتٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَجَعَلَ يُوصِينِي بِدَيْنِهِ، وَيَقُولُ: يَا بُنَيِّ إِنْ عَجَزْتَ عَنْهُ فِي شَيْءٍ فَاسْتَعِنْ عَلَيْهِ مَوْلَايَ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا دَرَيْتُ مَا أَرَادَ حَتَّى، قُلْتُ: يَا أَبَتِ مَنْ مَوْلَاكَ، قَالَ: اللَّهُ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا وَقَعْتُ فِي كُرْبَةٍ مِنْ دَيْنِهِ إِلَّا، قُلْتُ: يَا مَوْلَى الزُّبَيْرِ اقْضِ عَنْهُ دَيْنَهُ فَيَقْضِيهِ فَقُتِلَ الزُّبَيْرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَلَمْ يَدَعْ دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا إِلَّا أَرَضِينَ مِنْهَا الْغَابَةُ وَإِحْدَى عَشْرَةَ دَارًا بِالْمَدِينَةِ وَدَارَيْنِ بِالْبَصْرَةِ وَدَارًا بِالْكُوفَةِ وَدَارًا بِمِصْرَ، قَالَ: وَإِنَّمَا كَانَ دَيْنُهُ الَّذِي عَلَيْهِ أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ يَأْتِيهِ بِالْمَالِ، فَيَسْتَوْدِعُهُ إِيَّاهُ، فَيَقُولُ الزُّبَيْرُ: لَا وَلَكِنَّهُ سَلَفٌ فَإِنِّي أَخْشَى عَلَيْهِ الضَّيْعَةَ وَمَا وَلِيَ إِمَارَةً قَطُّ، وَلَا جِبَايَةَ خَرَاجٍ، وَلَا شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَكُونَ فِي غَزْوَةٍ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ مَعَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ: فَحَسَبْتُ مَا عَلَيْهِ مِنَ الدَّيْنِ فَوَجَدْتُهُ أَلْفَيْ أَلْفٍ وَمِائَتَيْ أَلْفٍ، قَالَ: فَلَقِيَ حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي كَمْ عَلَى أَخِي مِنَ الدَّيْنِ فَكَتَمَهُ، فَقَالَ: مِائَةُ أَلْفٍ، فَقَالَ: حَكِيمٌ وَاللَّهِ مَا أُرَى أَمْوَالَكُمْ تَسَعُ لِهَذِهِ، فَقَالَ لَهُ: عَبْدُ اللَّهِ أَفَرَأَيْتَكَ إِنْ كَانَتْ أَلْفَيْ أَلْفٍ وَمِائَتَيْ أَلْفٍ، قَالَ: مَا أُرَاكُمْ تُطِيقُونَ هَذَا فَإِنْ عَجَزْتُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ فَاسْتَعِينُوا بِي، قَالَ: وَكَانَ الزُّبَيْرُ اشْتَرَى الْغَابَةَ بِسَبْعِينَ وَمِائَةِ أَلْفٍ فَبَاعَهَا عَبْدُ اللَّهِ بِأَلْفِ أَلْفٍ وَسِتِّ مِائَةِ أَلْفٍ ثُمَّ قَامَ، فَقَالَ: مَنْ كَانَ لَهُ عَلَى الزُّبَيْرِ حَقٌّ فَلْيُوَافِنَا بِالْغَابَةِ، فَأَتَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ وَكَانَ لَهُ عَلَى الزُّبَيْرِ أَرْبَعُ مِائَةِ أَلْفٍ، فَقَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ: إِنْ شِئْتُمْ تَرَكْتُهَا لَكُمْ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَا، قَالَ: فَإِنْ شِئْتُمْ جَعَلْتُمُوهَا فِيمَا تُؤَخِّرُونَ إِنْ أَخَّرْتُمْ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَا، قَالَ: قَالَ: فَاقْطَعُوا لِي قِطْعَةً، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَكَ مِنْ هَاهُنَا إِلَى هَاهُنَا، قَالَ: فَبَاعَ مِنْهَا فَقَضَى دَيْنَهُ فَأَوْفَاهُ وَبَقِيَ مِنْهَا أَرْبَعَةُ أَسْهُمٍ وَنِصْفٌ، فَقَدِمَ عَلَى مُعَاوِيَةَ وَعِنْدَهُ عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ وَالْمُنْذِرُ بْنُ الزُّبَيْرِ وَابْنُ زَمْعَةَ، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: كَمْ قُوِّمَتْ الْغَابَةُ، قَالَ: كُلُّ سَهْمٍ مِائَةَ أَلْفٍ، قَالَ: كَمْ بَقِيَ، قَالَ: أَرْبَعَةُ أَسْهُمٍ وَنِصْفٌ، قَالَ الْمُنْذِرُ بْنُ الزُّبَيْرِ: قَدْ أَخَذْتُ سَهْمًا بِمِائَةِ أَلْفٍ، قَالَ عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ: قَدْ أَخَذْتُ سَهْمًا بِمِائَةِ أَلْفٍ، وَقَالَ ابْنُ زَمْعَةَ: قَدْ أَخَذْتُ سَهْمًا بِمِائَةِ أَلْفٍ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: كَمْ بَقِيَ، فَقَالَ: سَهْمٌ وَنِصْفٌ، قَالَ: قَدْ أَخَذْتُهُ بِخَمْسِينَ وَمِائَةِ أَلْفٍ، قَالَ: وَبَاعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ نَصِيبَهُ مِنْ مُعَاوِيَةَ بِسِتِّ مِائَةِ أَلْفٍ، فَلَمَّا فَرَغَ ابْنُ الزُّبَيْرِ مِنْ قَضَاءِ دَيْنِهِ، قَالَ: بَنُو الزُّبَيْرِ اقْسِمْ بَيْنَنَا مِيرَاثَنَا، قَالَ: لَا وَاللَّهِ لَا أَقْسِمُ بَيْنَكُمْ حَتَّى أُنَادِيَ بِالْمَوْسِمِ أَرْبَعَ سِنِينَ أَلَا مَنْ كَانَ لَهُ عَلَى الزُّبَيْرِ دَيْنٌ فَلْيَأْتِنَا فَلْنَقْضِهِ، قَالَ: فَجَعَلَ كُلَّ سَنَةٍ يُنَادِي بِالْمَوْسِمِ فَلَمَّا مَضَى أَرْبَعُ سِنِينَ قَسَمَ بَيْنَهُمْ، قَالَ: فَكَانَ لِلزُّبَيْرِ أَرْبَعُ نِسْوَةٍ وَرَفَعَ الثُّلُثَ، فَأَصَابَ كُلَّ امْرَأَةٍ أَلْفُ أَلْفٍ وَمِائَتَا أَلْفٍ فَجَمِيعُ مَالِهِ خَمْسُونَ أَلْفَ أَلْفٍ وَمِائَتَا أَلْفٍ.
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابواسامہ سے پوچھا ‘ کیا آپ لوگوں سے ہشام بن عروہ نے یہ حدیث اپنے والد سے بیان کی ہے کہ ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جمل کی جنگ کے موقع پر جب زبیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے تو مجھے بلایا میں ان کے پہلو میں جا کر کھڑا ہو گیا ‘ انہوں نے کہا بیٹے! آج کی لڑائی میں ظالم مارا جائے گا یا مظلوم میں سمجھتا ہوں کہ آج میں مظلوم قتل کیا جاؤں گا اور مجھے سب سے زیادہ فکر اپنے قرضوں کی ہے۔ کیا تمہیں بھی کچھ اندازہ ہے کہ قرض ادا کرنے کے بعد ہمارا کچھ مال بچ سکے گا؟ پھر انہوں نے کہا بیٹے! ہمارا مال فروخت کر کے اس سے قرض ادا کر دینا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک تہائی کی میرے لیے اور اس تہائی کے تیسرے حصہ کی وصیت میرے بچوں کے لیے کی ‘ یعنی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بچوں کے لیے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ اس تہائی کے تین حصے کر لینا اور اگر قرض کی ادائیگی کے بعد ہمارے اموال میں سے کچھ بچ جائے تو اس کا ایک تہائی تمہارے بچوں کے لیے ہو گا۔ ہشام راوی نے بیان کیا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بعض لڑکے زبیر رضی اللہ عنہ کے لڑکوں کے ہم عمر تھے۔ جیسے خبیب اور عباد۔ اور زبیر رضی اللہ عنہ کے اس وقت نو لڑکے اور نو لڑکیاں تھیں۔ عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا کہ پھر زبیر رضی اللہ عنہ مجھے اپنے قرض کے سلسلے میں وصیت کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ بیٹا! اگر قرض ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ تو میرے مالک و مولا سے اس میں مدد چاہنا۔ عبداللہ نے بیان کیا کہ قسم اللہ کی! میں ان کی بات نہ سمجھ سکا ‘ میں نے پوچھا کہ بابا آپ کے مولا کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ پاک! عبداللہ نے بیان کیا ‘ قسم اللہ کی! قرض ادا کرنے میں جو بھی دشواری سامنے آئی تو میں نے اسی طرح دعا کی ‘ کہ اے زبیر کے مولا! ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کرا دے اور ادائیگی کی صورت پیدا ہو جاتی تھی۔ چنانچہ جب زبیر رضی اللہ عنہ (اسی موقع پر) شہید ہو گئے تو انہوں نے ترکہ میں درہم و دینار نہیں چھوڑے بلکہ ان کا ترکہ کچھ تو اراضی کی صورت میں تھا اور اسی میں غابہ کی زمین بھی شامل تھی۔ گیارہ مکانات مدینہ میں تھے ‘ دو مکان بصرہ میں تھے ‘ ایک مکان کوفہ میں تھا اور ایک مصر میں تھا۔ عبداللہ نے بیان کیا کہ ان پر جو اتنا سارا قرض ہو گیا تھا اس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ جب ان کے پاس کوئی شخص اپنا مال لے کر امانت رکھنے آتا تو آپ اسے کہتے کہ نہیں البتہ اس صورت میں رکھ سکتا ہوں کہ یہ میرے ذمے بطور قرض رہے۔ کیونکہ مجھے اس کے ضائع ہو جانے کا بھی خوف ہے۔ زبیر رضی اللہ عنہ کسی علاقے کے امیر کبھی نہیں بنے تھے۔ نہ وہ خراج وصول کرنے پر کبھی مقرر ہوئے اور نہ کوئی دوسرا عہدہ انہوں نے قبول کیا ‘ البتہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ جہادوں میں شرکت کی تھی۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب میں نے اس رقم کا حساب کیا جو ان پر قرض تھی تو اس کی تعداد بائیس لاکھ تھی۔ بیان کیا کہ پھر حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے ملے تو دریافت فرمایا، بیٹے! میرے (دینی) بھائی پر کتنا قرض رہ گیا ہے؟ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے چھپانا چاہا اور کہہ دیا کہ ایک لاکھ، اس پر حکیم رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم اللہ کی! میں تو نہیں سمجھتاکہ تمہارے پاس موجود سرمایہ سے یہ قرض ادا ہو سکے گا۔ عبداللہ نے اب کہا: کہ قرض کی تعداد بائیس لاکھ ہوئی پھر آپ کی کیا رائے ہو گی؟ انہوں نے فرمایا: پھر تو یہ قرض تمہاری برداشت سے بھی باہر ہے۔ خیر اگر کوئی دشواری پیش آئے تو مجھ سے کہنا، عبداللہ نے بیان کیا کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے غابہ کی جائداد ایک لاکھ ستر ہزار میں خریدی تھی لیکن عبداللہ نے وہ سولہ لاکھ میں بیچی۔ پھر انہوں نے اعلان کیا کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ پر جس کا قرض ہو وہ غابہ میں آکر ہم سے مل لے، چنانچہ عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ آئے، ان کا زبیر پر چار لاکھ روپیہ چاہئے تھا۔ انہوں نے تو یہی پیشکش کی کہ اگر تم چاہو تو میں یہ قرض چھوڑ سکتا ہوں، لیکن عبداللہ نے کہا کہ نہیں پھر انہوں نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں سارے قرض کی ادائیگی کے بعد لے لوں گا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس پر بھی یہی کہا کہ تاخیر کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ آخر انہوں نے کہا کہ پھر اس زمین میں میرے حصے کا قطعہ مقرر کر دو۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ اپنے قرض میں یہاں سے یہاں تک لے لیجئے۔
(راوی نے) بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ کی جائداد اور مکانات وغیرہ بیچ کر ان کا قرض ادا کر دیا گیا۔ اور سارے قرض کی ادائیگی ہو گئی۔ غابہ کی جائداد میں ساڑھے چار حصے ابھی بک نہیں سکے تھے۔ اس لئے عبداللہ رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں (شام) تشریف لے گئے، وہاں عمرو بن عثمان، منذر بن زبیر اور ابن زمعہ بھی موجود تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا کہ غابہ کی جائداد کی قیمت کتنی طے ہوئی، انہوں نے بتایا کہ ہر حصے کی قیمت ایک لاکھ طے پائی تھی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اب باقی کتنے حصے رہ گئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ساڑھے چار حصے، اس پر منذر بن زبیر نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ میں لے لیتا ہوں، عمر و عثمان نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ میں لے لیتا ہوں، ابن زمعہ نے کہا کہ ایک حصہ ایک لاکھ میں لے لیتا ہوں، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اب کتنے حصے باقی بچے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ حصہ! معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر اسے میں ڈیڑھ لاکھ میں لے لیتا ہوں، بیان کیا کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنا حصہ بعد میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو چھ لاکھ میں بیچ دیا۔ پھر جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ قرض کی ادائیگی کر چکے تو زبیر رضی اللہ عنہ کی اولاد نے کہا کہ اب ہماری میراث تقسیم کر دیجئے، لیکن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی تمھاری میراث اس وقت تک تقسیم نہیں کر سکتا جب تک چار سال تک ایام حج میں اعلان نہ کرا لوں کہ جس شخص کا بھی زبیر رضی اللہ عنہ پر قرض ہو وہ ہمارے پاس آئے اور اپنا قرض لے جائے، راوی نے بیان کیا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اب ہر سال ایام حج میں اس کا اعلان کرانا شروع کیا اور جب چار سال گزر گئے، تو عبداللہ نے ان کی میراث تقسیم کی۔
راوی نے بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ کی چار بیویاں تھیں اور عبداللہ نے (وصیت کے مطابق) تہائی حصہ بچی ہوئی رقم میں سے نکال لیا تھا، پھر بھی ہر بیوی کے حصے میں بارہ بارہ لاکھ کی رقم آئی، اور کل جائداد حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی پانچ کروڑ دو لاکھ ہوئی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3129 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3129  
حدیث حاشیہ:
یہ حضرت زبیر بن عوام ؓ ہیں‘ کنیت ابو عبداللہ قریشی ہے۔
ان کی والدہ حضرت صفیہ ؓ عبدالمطلب کی بیٹی اور آنحضرت ﷺ کی پھوپھی ہیں۔
یہ اور ان کی والدہ شروع ہی میں اسلام لے آئے تھے۔
جبکہ ان کی عمر سولہ سال کی تھی۔
یہ تمام غزوات میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ رہے۔
عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔
جنگ جمل میں شہید ہوئے‘ یہ جنگ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت علی ؓ کے درمیان ماہ جمادی الاول 36ھ میں باب البصرہ میں ہوئی تھی۔
حضرت عائشہ ؓ اونٹ پر سوار تھیں اس لئے اس کا نام جنگ جمل رکھا گیا۔
لڑائی کی وجہ حضرت عثمان ؓ کا خون ناحق تھا۔
حضرت عائشہ قاتلین عثمان ؓ سے قصاص کی طلبگار تھیں۔
یہ جنگ اسی بنا پر ہوئی۔
اس حدیث کے ذیل مولانا وحیدالزماں مرحوم فرماتے ہیں۔
:
جنگ جمل36ھ میں ہوئی ‘ جو مسلمانوں کی خانہ جنگی کی بدترین مثال ہے‘ فریقین میں ایک طرف سربراہ حضرت علی ؓ تھے اور دوسری طرف حضرت عائشہ ؓ تھیں۔
حضرت زبیر ؓحضرت عائشہ ؓ کے ساتھ تھے۔
ہوایہ تھا کہ حضرت عثمان ؓ کے قاتل حضرت علی ؓ کے لشکر میں شریک ہوگئے تھے‘ حضرت عائشہ اور ان کے ساتھی یہ چاہتے تھے کہ وہ قاتلین عثمان فوراً ان کے حوالہ کردیئے جائیں تاکہ ان سے قصاص لیا جائے۔
حضرت علی یہ فرماتے تھے کہ جب تک اچھی طرح دریافت اورتحقیق نہ ہو میں کس طرح کسی کو تمہارے حوالہ کر سکتا ہوں کہ تم ان کا خون ناحق کرو۔
یہی جھگڑا تھا جو سمجھنے اورسمجھانے سے طے نہ ہوا۔
دونوں طرف والوں کو جوش تھا۔
آخر نوبت جنگ تک پہنچی‘ باقی خلافت کی کوئی تکرار نہ تھی۔
حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ جو صحابہ رضی اللہ عنہ تھے وہ سب حضرت علی ؓ کی خلافت تسلیم کرچکے تھے۔
جب لڑائی شروع ہوئی تو حضرت علی ؓ نے حضرت زبیر ؓ کو بلا کر آنحضرت ﷺ کی حدیث یاد دلائی کہ زبیر ایک دن ایسا ہوگا‘ تم علی ؓ سے لڑوگے اور تم ظالم ہوگے۔
حضرت زبیر ؓ یہ حدیث سنتے ہی میدان جنگ سے لوٹ گئے۔
راستے میں یہ ایک مقام پر سوگئے۔
عمروبن جرموز مردود نے وادی السباع میں سوتے ہوئے ان کو قتل کردیا اور ان کا سر حضر ت علی ؓ کے پاس لایا۔
حضرت علی ؓ نے فرمایا میں نے آنحضرت ﷺ سے سنا ہے کہ زبیر ؓ کا قاتل دوزخی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3129   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3129  
حدیث حاشیہ:

جنگ جمل حضرت علی ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کے درمیان 36ہجری میں ہوئی۔
چونکہ سیدہ عائشہ ؓ اونٹ پر سوارتھیں، اس لیے اس کا نام "جمل" رکھاگیا۔
لڑائی کی وجہ حضرت عثمان ؓ کا خون ناحق تھا۔
حضرت عائشہ ؓ قاتلین عثمان جو حضرت علی ؓ کے کیمپ میں تھے، ان سے قصاص کی طلب گار تھیں جبکہ حضرت علی ؓ حالات کے سازگار ہونے تک اس معاملے کو ملتوی کیے جارہے تھے۔
یہی تنازع تھا جو افہام وتفہیم سے حل نہ ہوسکا، بالآخر نوبت جنگ تک پہنچی۔
امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ غازی اسلام کے لیے زندگی اور موت کے بعد اس کے مال میں برکت پیدا ہوتی ہے، چنانچہ حضرت زبیر ؓکسی سرکاری عہدے پر تعینات نہ تھے، صرف جہاد میں شرکت کرتے تھے، مال غنیمت میں سے انھیں جو کچھ ملا اس میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کی برکت سے اس قدر اضافہ فرمایا کہ قرض اور وصیت کی ادائیگی کے بعد چار بیویوں میں سے ہر بیوی کو بارہ بارہ لاکھ ملا۔
امام بخاری ؒ کا مدعا تو اسی قدر ہےلیکن اس جائیداد کی مالیت میں کچھ اشکال ہے جسے ہم بیان کرتے ہیں:
اشکال یہ ہے کہ جب ہم ایک بیوی کو ملنے والے حصے کو بنیاد بناتےہیں تو ادائیگی قرض اور نفاذ وصیت کے بعد آپ کے ترکے کی مالیت پانچ کروڑ اٹھانوے لاکھ بنتی ہے جبکہ امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں مجموعی جائیداد کی مالیت پانچ کروڑ دولاکھ بنائی ہے، یعنی اصل حساب سے چھیانوے لاکھ کم ہے۔
اس اشکال کو حل کرنے سے پہلے ہم ایک بنیادی بات عرض کرتے ہیں کہ عرب کے ہاں گنتی کے بنیادی طور پر تین قطعات ہیں:
پہلا قطعہ چار اجزاء پر مشتمل ہے:
آحاد (اکائیاں)
عشرات (دہائیاں)
مئات (سیکڑے)
اور اُلوف (ہزار)
۔
دوسرا قطعہ تین اجزا پر مشتمل ہے:
عشرۃ آلاف (دس ہزار)
، مائۃ الف (ایک لاکھ)
اور الف الف (دس لاکھ)
۔
اس قطعے کے مطابق الفا الف (بیس لاکھ)
اور ثلاثة آلاف ألف (تیس لاکھ)
وغیرہ تیسرا قطعہ بھی تین اجزاء پر مشتمل ہے۔
عشرة آلاف ألف (کروڑ)
مائة ألف ألف (دس کروڑ)
اورالف، الف الف (ارب)
اس طرح عشرون الف الف (دوکروڑ)
ثلاثون الف الف (تین کروڑ)
جائیداد کا تفصیلی حساب کچھ اس طرح ہے:
واضح رہے کہ حضرت زبیر ؓ کے ورثاء نے نوبیٹے، نوبیٹیاں اور چار بیویاں تھیں۔
آپ کا کل سرمایہ یہ تھا:
غابہ میں کچھ زمین اورگیارہ عدد مکانات تھے۔
اورآپ کے ذمے کل قرض بائیس لاکھ تھا۔
حضرت زبیر ؓ نے اپنے لخت جگر عبداللہ کو وصیت کی کہ پہلے قرض ادا کرنا پھر باقی ماندہ ترکے کے تین حصے کرنا۔
ایک حصہ میرے پوتوں، فقراء اورمساکین کے لیے اور باقی دوحصے تمام ورثاء میں تقسیم کردینا۔
چونکہ ان کے ذمے بائیس لاکھ قرض تھا جن میں سے چار لاکھ تو عبداللہ بن جعفر ؓ کے تھے۔
انھیں غابہ کی کچھ زمین چار لاکھ کے عوض دے دی اور باقی زمین بھی فروخت ہوگئی۔
غابہ کی کل زمین سولہ لاکھ میں فروخت ہوئی جو انھوں نے ایک لاکھ سترہزارمیں خریدی تھی۔
اس طرح انھیں چودہ لاکھ تیس ہزار نفع ہوا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ نے قرض اداکرنے کے لیے باقی جائیداد بھی فروخت کی اور کل قرض ادا ہوا۔
اس کے بعد باقی ماندہ حال میں سے وصیت کا ایک تہائی الگ کیا۔
باقی دوتہائی تقسیم کیا تو ہر بیوی کو بارہ لاکھ ملا۔
بیویاں چارتھیں۔
اولاد کی موجودگی میں بیویوں کو ترکے کا آٹھواں حصہ ملتا ہے۔
بارہ لاکھ کو چار سے ضرب دیں تو کل آٹھواں حصہ اڑتالیس لاکھ بنتا ہے۔
اس آٹھویں حصے کو آٹھ سے ضرب دی تو قابل تقسیم جائیداد تین کروڑ چوراسی لاکھ بنتی ہے۔
یہ کل ترکے کے دوحصے ہیں کیونکہ ایک حصہ بطور وصیت پہلے ہی الگ کرلیاگیا تھا۔
اب کل ترکہ معلوم کرنے کے لیے وصیت والا ایک تہائی جو باقی ماندہ تعرکے کا نصف ہے، یعنی ایک کروڑ بانوے لاکھ، اس رقم میں جمع کیا تو مجموعہ پانچ کروڑچھہتر لاکھ ہوگیا۔
یہ ترکہ فرض کے علاوہ ہے۔
اس میں بائیس لاکھ قرض والا جمع کریں توکل ترکہ پانچ کروڑ اٹھانوے لاکھ بنتا ہے۔
صورت حساب کچھ اس طرح ہے:
(الف)
ثمن ایک بٹا آٹھ کا چوتھا حصہ بارہ لاکھ جو چار بیویوں میں سے ہر ایک بیوی کو ملا۔
(ب)
۔
اسے چار سے ضرب دی تو اڑتالیس لاکھ ہوا جو کامل ثمن ایک بٹا آٹھ ہے۔
(ج)
۔
بیویوں کے حصے کو آٹھ سے ضرب دی تو تین کروڑ چوراسی لاکھ ہوا۔
یہ کل جائیداد کے دوحصے ہیں۔
(د)
۔
وصیت کا ایک تہائی ایک کروڑ بانوے لاکھ ہے۔
اس حصے کو جمع کریں تو میزان پانچ کروڑچھہتر لاکھ بنتی ہے۔
(ر)
قرضے کی رقم بائیس لاکھ ہے اسے مذکورہ بالارقم میں جمع کریں تو کل مالیت پانچ کروڑ اٹھانوے لاکھ بنتی ہے جبکہ امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخرمیں میراث، وصیت اور قرض ملا کر کل جائیداد صرف پانچ کروڑ دولاکھ ظاہر کی ہے۔
امام بخاری کے حساب میں اور ہمارے تفصیلی حساب میں چھیانوے لاکھ کافرق ہے۔
اس فرق کا کیا حل ہے؟ اشکال کی یہی صورت ہے۔
اسے حل کرنے کے لیے حافظ ابن حجر ؒ نے درج ذیل صورت پیش کی ہے جو قرین قیاس معلوم ہوتی ہے:
ہمارے رجحان کے مطابق اس فرق کا یہ معقول حل ہے جسے ہم بیان کرتے ہیں۔
حضرت زبیر ؓ کی وفات کے وقت متروکہ جائیداد کی مالیت پانچ کروڑ دو لاکھ تھی، لیکن حضرت ابن زبیر ؓ عرصہ چار سال تک احتیاط کے پیش نظر موسم حج میں قرضہ جات کااعلان کرتے رہے۔
اس دوران میں مالیت میں اراضی اور مکانات کی آمدنی اور پیداوار سے اضافہ ہوتا رہا حتی کہ چار سال کے بعد چھیانوے لاکھ کا اضافہ ہوکر کل جائیداد کی مجموعی قیمت پانچ کروڑ اٹھانوے لاکھ ہوگئی۔
ہمارے نزدیک یہ توجیہ راجح اور عمدہ ہے کیونکہ اس سے تمام الفاظ حدیث اپنے اپنے ظاہر اور حقیقی مفہوم پر باقی رہتے ہیں، نیز امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے بھی عین مطابق ہے کہ غازی اسلام کے لیے زندگی اور موت کے بعد اس کے مال میں برکت پیداہوتی ہے۔
واللہ المستعان۔
(فتح الباري: 281/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3129